بارش اور دھوپ سے بچنے کے لیے چھتری کا استعمال کرنا ایک عام بات ہے۔ شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا ملک ہو جہاں چھتری کا استعمال نہ ہوتا ہو۔ آج بازار میں مختلف ڈیزائن سائز اور خوبصورت رنگوں کی چھتریاں باآسانی مل جاتی ہیں لیکن چھتری کو موجودہ شکل لینے اور پوری دنیا میں اپنے پر پھیلانے میں تقریباً دو ہزار سال کا سفر طے کرنا پڑا۔ چھتری کا یہ سفر بڑا دلچسپ اور معلوماتی ہے۔ آئیے اس سفر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
چھتری کو چھاتا بھی کہا جاتا ہے بلکہ ابتداء میں چھاتا لفظ کا ہی زیادہ استعمال ہوتا تھا۔ سر اور تا چھاؤں یعنی سر کو سایہ کرنے والا ۔ دنیا کی قدیم تہذیب میں چھاتے کی عظمت کا اعتراف کیا گیا ہے۔ کئی ممالک میں چھتری کو شان اور وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ قدیم یونانی مذہبی صحیفوں میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ وہاں کے مذہبی رہنما کھجور اور ناریل کے پتوں سے بنے چھاتے سر پر لگاکر عبادت گاہوں میں جاتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس طرح دیوتاؤں کے دیدار ہوتے ہیں۔ ہندوستان کی کچھ لوک کتھاؤں کے مطابق سورگ کی دیویاں اروشی اورمینکا کہر اور پھولوں کی عجیب و غریب چھتریاں لگا کر آسمان کی سیر کیا کرتی تھیں۔ جب وہ کسی دیوتا کے دربار میں جاتیں تو چھتری کو تحفہ کے طور پر وہیں چھوڑ آیا کرتی تھیں۔ روایت ہے کہ ان کے چھوڑے ہوئے چھاتوں کو دیکھ کر ہی مندروں میں چھتر اور شکھر کا رواج ہوا۔
قدیم مصری تہذیب کی باقیات سے چھاتے کے وجود کے ثبوت ملتے ہیں۔ روم کی قدیم عبادت گاہوں کی دیواروں پر آج بھی پنے اور سونے کی سیاہی سے چھاتوں کی تصاویر واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ چھاتے کی ایجاد کب اور کیسے ہوئی؟ اس سلسلے میں محققین کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔ یونان کے مذہبی صحیفوں کے مطابق ساتویں صدی میں یونان کے کچھ آدی واسی لوگوں نے گرمی اور دھوپ سے بچنے کے لیے شیر کی کھال سے ایک چھاتا بنایا تھا۔ ایک روایت کے مطابق دنیا کا سب سے پہلا چھاتا چکور تھا، جسے یونان کے ایک پادری نے بنایا تھا۔ اس چھاتے کو سجانے کے لیے کیلے کے پتوں کو آپس میں جوڑا گیا تھا۔ جس وقت وہ پادری چرچ میں جاتا تھا اس وقت اس کے ہاتھوں میں یہی چھاتا ہوتا تھا۔ پادری کا بنایا ہوا چھاتا لوگوں میں بے حد مقبول ہوا اور چرچ میں آنے والے دیگر لوگ بھی اس طرح کا چھاتا استعمال کرنے لگے۔ تقریباً ایک صدی تک چھاتے شیر کی کھال، ناریل اور کھجور کے پتوں سے بنائے جاتے رہے لیکن اس وقت تک اس کا استعمال صرف دھوپ سے بچنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ آٹھویں صدی میں جب چھاتا چین پہنچا تو وہاں اس میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں۔ کھال اور پتوں کی جگہ کپڑے کا استعمال کیا جانے لگا اور اب اسے دھوپ سے بچاؤ کے علاوہ بارش سے بچنے کے لیے بھی کیا جانے لگا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ چین نے ہی موجودہ چھتری کا صحیح استعمال بتایا۔ میدانِ جنگ میں رتھوں اور دربار میں شاہی تخت پر چھاتے کا استعمال دھوپ کے علاوہ جلال اور شاہی دبدبہ کے لیے بھی استعمال کیا جاتاتھا۔ قدیم زمانے میں کئی راجا اور مہاراجا مخمل اور سونے چاندی سے بنے اور ہیرے جواہرات سے سجے چھاتے لگاکر رعایا کا حال چال پوچھنے جاتے تھے۔
چودھویں اور پندرہویں صدی میں یوروپ میں چھاتے کا استعمال صرف شاہی خاندان کے افراد ہی کرسکتے تھے۔ اگر کوئی عام آدمی چھاتے کا استعمال کرتا ہوا پکڑا جاتا تو اس کے لیے بڑی عجیب و غریب سزا تھی۔ تاعمر اسے پھٹا ہوا چھاتا لے کر شاہی خاندان کی غلامی کرنی پڑتی تھی۔ سولہویں صدی کے ابتدائی برسوں میں اٹلی میں چھاتے کی مقبولیت سماج کے ہر طبقے میں بڑھنے لگی۔ سترہویں صدی میں چھاتے کی ترقی یافتہ شکل نظر آنے لگی۔ اٹھارہویں صدی میں چھاتا انگلینڈ میں ایک مقبول و محبوب شے بن گیا۔ کالج کی لڑکیاں چھاتا لگا کر چلنا اپنی شان سمجھتی تھیں۔ انگلینڈ میں آج بھی لوگ اگر کسی کے یہاں مہمان بن کر جاتے ہیں تو چھتری ضرور ساتھ لے جاتے ہیں۔ یہ تہذیب کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
میکسیکو میں چھاتا ٹوپ کی شکل کا بنتا ہے۔ جسے ہاتھ میں لے کر چلنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ اسے سر پر لگالیا جاتا ہے۔ آسٹریلیا میں کنواری لڑکیاں ہرے رنگ کا چھاتا استعمال کرتی ہیں۔ جاوا میں جب کسی شخص کی موت ہوجاتی ہے تو مرنے والے کی قبر پر چھاتا لگادیا جاتا ہے۔ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ قبر پر چھاتا لگانے سے مرنے والے کو بھوت پریت پریشان نہیں کرتے۔ ملیشیا کے لوگ خطرناک جانوروں سے بچنے کے لیے چھاتا لے کر دوڑتے ہیں۔ اس انداز سے دوڑنے پر شیر جیسا خطرناک اور بہادر جانور بھی حواس باختہ ہوکر دم دبا کر بھاگ جاتا ہے۔ مختلف ممالک میں چھاتے کو نیک شگون سمجھا جاتا ہے ان کا عقیدہ ہے کہ چھاتا ساتھ لے کر جانے سے کام ضرور بن جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں چھاتے بنانے کا سب سے پہلا کارخانہ ۱۶ جولائی ۱۹۰۲ء کو ممبئی میں شروع ہوا۔ اس وقت کافی بڑے اور بھاری چھاتے بنتے تھے۔ آج ہمارے ملک میں تقریباً ایک ہزار سے زائد چھاتے بنانے کے چھوٹے بڑے کارخانے موجود ہیں جن میں پورے سال کام ہوتا رہتا ہے اور تقریباً پانچ کروڑ چھاتے دنیا کے ساٹھ ملکوں میں درآمد کیے جاتے ہیں۔ چھاتوں کی یہ ضرورت ہمارے ملک کے لیے زرمبادلہ کا بھی کام کرتی ہے۔