حجاب کے نام!

شرکاء

مسلم عورت کے مسائل

ماہِ اگست کا حجاب اسلامی موصول ہوا، ٹائٹل پسند آیا اور اس سے بھی زیادہ پسند آیا وہ مضمون جو ٹائٹل پر دیا گیا ہے۔ پروفیسر صغریٰ مہدی صاحبہ کی تحریر واقعی قابلِ غور ہے اور حقیقت یہ ہے کہ مسلم عورت کے حالات اور اس کے مسائل مختلف النوع ہیں لیکن انہیں سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی اور ہم اس خوش گمانی میں مبتلا ہیں کہ مسلم معاشرہ ان برائیوں سے محفوظ ہے جو دوسرے معاشروں میں ہیں۔ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ مسلم معاشرہ محفوظ ہے تو بھی اس بات کی تو ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ آگے بھی محفوظ ہی رہے گا۔ اس لیے کہ مغربی کلچر کا بڑے پیمانے پر فروغ، ٹی وی اور میڈیا کے ذریعہ دن رات پھیلائی جانے والی عریانیت اور اس کے نتیجہ میں جرائم اور مصیبتوں کا امڈتا سیلاب وہ حقائق ہیں جنھیں دیکھتے ہوئے یہ تصور بھی محال ہے، مستقبل محفوظ ہوسکتا ہے۔

زمینی حقیقت یہ ہے کہ مسلم معاشرہ میں بھی جہیز کے لیے بیویاں اور بہوئیں جلائی اور قتل کی جانے لگی ہیں۔ مسلم خاندانوں میں بھی لڑکے کے مقابلہ لڑکی کو کم تر تصور کیا جاتا ہے اور ایسی بھی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ رحم مادر ہی میں لڑکی کو ہلاک کردیا گیا۔ اس سے آگے بڑھئے تو شہری زندگی میں ہزاروں مقامات پر آپ مسلم اور غیر مسلم مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق نہیں کرپائیں گے۔ نیم عریاں لباس میں ہماری بیٹیاں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ مستقبل پر نظر دوڑائیں تو عجیب دھند چھائی نظر آتی ہے او رحفیظؔ میرٹھی کا یہ شعر یاد آتا ہے:

ہائے اس دوریٔ منزل پہ یہ انداز خرام

کارواں موجِ رواں سیلِ رواں ہوجاتا

حجاب دن بہ دن نکھرتا محسوس ہورہا ہے۔ پچھلے شماروں میں عورتوں کی صحت سے متعلق مضامین دیکھنے کو ملے۔ بڑی خوشی ہوئی ہمارے یہاں عورتوں میں صحت کا معیار بہت کم تر ہے۔ اس سلسلہ میں بیداری لانے کی ضرورت ہے۔ احتیاط اور شائستگی سے لکھی گئی تحریریں جو خواتین کی صحت کے مسائل کو حل کرنے والی ہوں حجابِ اسلامی میں ضرور شائع ہوتی رہنی چاہئیں۔ ہماری دعا ہے کہ حجاب آگے بڑھے اور اردو داں طبقہ میں قبول عام حاصل کرے۔

ڈاکٹر نکہت افروز، لکھنؤ

[اپنے تاثرات ارسال کرنے کے لیے آپ کا شکریہ! ماہ اکتوبر کے شمارے میں بچوں اور خواتین کی صحت پر خصوصی گوشہ شائع کیا جائے گا۔ تاکہ مسلم معاشرہ میں خواتین اور صحت کے معیار کو بہتر بنانے اور بیداری پیدا کرنے کا کام ہوسکے۔ ایڈیٹر]

عورت شرم و حیا کی پیکر

’’عورت کو شرم و حیا کا پیکر کہا جاتا ہے۔ ایک مثالی عورت سر پر دوپٹہ اوڑھتی ہے۔ سینے اور کمر کے نچلے حصہ کو چھپاتی ہے تو کسی مجبوری کے تحت نہیں بلکہ اسے فطرت مجبور کرتی ہے۔ وہ مردوں کو نہیں گھورتی، کسی سے بات کرنے میں پہل نہیں کرتی، زیادہ دیر تک کسی کے ساتھ نہیں بیٹھتی، تنہائی میںکسی سے ملنا پسند نہیں کرتی اور اندر سے ایک آوازاسے ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ جو عورت ایسا نہیں کرتی اسے شریف عورت تصور نہیں کیا جاتا۔ اسے آزاد خیال اور آوارہ سمجھا جاتا ہے۔ اب یہ بات خود عورتوں کے سوچنے کی ہے کہ شرم و حیا والی عورت کو شریف کیوں کہا جاتا ہے اور آزاد خیال کو بدچلن کیوں؟‘‘ عورتوں کے بارے میں یہ باتیں ملک کی معروف لیڈر اور سابق مرکزی وزیر سشما سوراج نے کہی تھیں۔ سیاست، حکومت اور پارلیمنٹ میں برسوں سے رہنے والی اور مردوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والی عورت نے یہ باتیں کہی ہوں تو ان کی سچائی پر کون شک کرسکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس وقت معاشرتی گندگی، عریانیت اور مغرب کی اخلاق باختہ تہذیب کی یلغار سے نہ صرف عالم اسلام کو بلکہ عالم انسانیت کو خطرہ ہے۔ مخْتلف ٹی وی چینلوں اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ یہ فحش فلمیں فحش مناظر اس لیے دکھائے جارہے ہیں تاکہ ہمارے سماج میں بھی برائی عام ہوجائے ٹھیک اسی طرح جس طرح یورپ میں عام ہوگئی ہے اور لوگوں کے اندر سے نیکی اور پاکی کا تصور ہی اٹھ جائے اور وہ حیوان بن جائے۔ مسلمان عورتیں ان سب باتوں پر غور کریں اور دیکھیں کہ عورت کو عزت کا مقام اس ’’کنزومر سوسائٹی‘‘ نے دیا ہے یا اسلام عطا کرتا ہے۔ لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہماری خواتین اس جدید تہذیب کا بغور جائزہ نہ لیں اور عورت پر اسلام کے احسانات کا مطالعہ قرآن و سنت کی روشنی میں نہ کریں۔

سید شہاب الدین، ایوت محل (مہاراشٹر)

دعوت دین کی ذمہ داریاں

حجاب اسلامی شمارہ جولائی ۲۰۰۶ء موصول ہوا۔ تمام مستقل کالم حسب سابق بہتر ہیں۔ سرورق کے مطابق ’’لڑکیوں کی شاندار کامیابی‘‘ اور ’’ٹاپر طالبہ سے انٹرویو‘‘ ہماری طالبات کے حوصلوں کو بڑھانے والا ہے۔ دینیات میں ’’پاکباز اور اطاعت شعار بیوی‘‘ رسالہ کے صفحات کا ایک حصہ ہے۔ تربیت، گھر داری، گوشۂ خواتین، کے ضمن میں سبھی مضامین قابلِ مطالعہ ہیں۔

میرے خیال سے ’’دعوتِ دین کی ذمہ داریاں‘‘ کالم شروع ہونا چاہیے تاکہ خواتین بھی اس کی اہمیت کو سمجھ لیں اور گھر کے مردوں کو تیار کریں۔ ایسے مضامین بھی رہنے چاہئیں جن کی رہنمائی میں عام لوگوں کو کام کی منصوبہ بندی کرنا آسان ہو۔

مستحق الزماں خاں (بہار)

تعلیمی اداروں کی تفصیل

بڑا ہی اچھا ہوتا اگر ان تعلیمی اداروں کی سلسلہ وار تفصیل بذریعہ حجاب فراہم کرنے کا ایک اہم اور اضافی ورک ہوتا جن اداروں کا تعلیمی معیار اچھا ہے اور خصوصاً جہاں اس قسم کی فضا مہیا ہوجہاں بچے بچیوں کی کردار سازی کے ساتھ حالات کے تقاضوں کے مطابق تعلیمی سہولتیں مہیا ہوں۔ بہت سے خاندان ایسے ہیں جو بچوں کو اس قسم کے اداروں میں تعلیم دینے کے خواہش مند ہیں لیکن اس سلسلہ میں معلومات نہ ہونے کے سبب پریشان ہیں کہ کہاں جائیں۔ یہ ایک اہم ضرورت اور قوم کے بہت سے افراد کے مسائل کا حل ہوگا۔ اسی لا علمی کی وجہ سے لوگ ایسے اداروں کی طرف مجبوراً رخ کرتے ہیں جہاں بچوں کو غیر اسلامی ماحول میں رہ کر تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے۔ جس میں سے اکثریت پر بڑے اور غیر معمولی اثرات دیکھنے میں آئے۔ ممکن ہوتو علیحدہ سے مکمل اس کا ایک نمبر شائع فرمادیں بہت مفید ہوگا۔

سید محمد قاسم، دھن پری (ایم پی)

حجاب پسند آیا

پہلے میں حجاب کے لیے منتظر ہوتی تھی پر جب سے بھیا نے اپریل کا حجاب پڑھا اس کے بعد وہ لگاتار حجاب کے لیے بے صبری سے منتظر رہتے ہیں۔ جولائی کے حجاب میں میری نظر ’’لڑکیوں کی تعلیم‘‘ پر پڑی مجھ سے رہا نہ گیا۔ اس مضمون کے ذریعہ بہت خاص مسئلہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ بات واقعی قابل غور ہے کہ ہماری قوم کے لڑکے آخر پڑھائی کے معاملے میں سنجیدہ کب ہوں گے۔مجھے اور بھیا کو جون کا حجاب بے حد پسند آیا وہ اور ان کے دوست حجاب کے تمام مضامین کو بہت پسند کررہے ہیں۔ خصوصاً گوشۂ سیرت آیات قرآنی اور اداریہ۔ بھیا خود پڑھنے کے بعد دوستوں کو حجاب دے دیتے ہیں۔

ثمینہ مرزا، آکولہ

قابل توجہ

حجاب اسلامی کا میں مستقل قاری ہوں ’’باباجی‘‘ کہانی بہت خوب ہے۔ ہمارے اطراف جس قسم کا ماحول ہے تو ایسی کہانیو ںکی ضرورت ہے۔ ماہ جولائی کا ٹائٹل کا کاغد بہت باریک ہے کونے مڑ گئے ہیں آپ سرورق کے کاغذ پر دھیان دیجیے اور اس کا رنگ بھی کچھ اچھا نہیں لگا۔ او رحجاب کو اور بہتر بنانے کے لیے آپ پرانے قلم کاروں سے رابطہ کیجیے۔

محمد ذیشان انصاری، تال گاؤں

[آپ کے توجہ دلانے اور ’’باباجی‘‘ کو پسند کرنے کے لیے شکریہ۔ حجاب کے پرانے قلم کاروں سے رابطہ کی کوشش ہم بھی کرتے ہیں۔ اگر آپ کے علم میں کچھ افراد ہوں تو ان کے پتے ارسال فرمائیں ہم انہیں خط لکھیں گے۔ ٹائٹل کے بارے میں عرض ہے کہ ملک کے تمام ہی رسائل یہی کاغذ استعمال کرتے ہیں اور ہم تو اس پر لیمینیشن بھی کراتے ہیں۔ ایڈیٹر]

حجاب پسند آیا

میں اپنے ایک دوست نجم الدین کے گھر اننت ناگ گیا۔ وہاں اس نے مجھے ’’ایک تحفہ‘‘ مئی ۲۰۰۶ء کا حجاب پیش کیا۔ جو مجھے بے حد پسند آیا۔ اس شمارے کے تمام مضامین اداریہ، تذکیر، بزم حجاب، سرورق، کہانیاں اور مستقل کالم وغیرہ بہت اچھے لگے۔ حجاب کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک معتبر رسالہ ہے جسے ہم بلا جھجھک اپنے گھر کی خواتین اور اپنے احباب کو دے سکتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ رسالہ اور بھی زیادہ پرکشش ہو۔ اور عوام میں قبولیت حاصل کرے۔ میں حجاب کا خریدار بنوں گا اور دوسروں کو بھی اس کا خریدار بنانے کی کوشش کروں گا۔

پیرزادہ معراج الدین، سلّر، کشمیر

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146