خودکشی : اسباب اور سدباب

گلزار صحرائی

اخبارات میں آئے دن خود کشی سے متعلق خبریں پڑھنے میں آتی رہتی ہیں۔ کبھی کوئی نوجوان جوڑا محبت میں ناکام ہوکر موت کو گلے لگاتا ہے، توکبھی کوئی طالب علم امتحان میں ناکام ہونے پر اپنی زندگی کو ختم کرڈالتا ہے۔ کبھی کوئی شخص سماج میں پھیل رہی بدنامی کے غم میں — یا بدنامی پھیل جانے کے خدشے کے پیش نظر— جام اجل نوش کرلیتا ہے۔ تو کبھی کوئی شخص اپنے بچوں کو بھوک، غریبی اور چھوٹی چھوٹی بنیادی ضرورتوں کے لیے ترستے دیکھ کر اور خود کو اس مسئلہ کو سلجھا پانے میں بے بس اور مجبور پاکر گھبرا اٹھتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ پھر اپنے ہی ہاتھوں اپنے اہلِ خانہ کو ختم کرکے خود بھی ہمیشہ کی نیند سوجاتا ہے۔

اس طرح کے واقعات میں اگرچہ خود کشی کے مختلف اسباب نظر آتے ہیں لیکن اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو ایک بات سب میں مشترک پائی جاتی ہے اور وہ ہے مشکل اور غیر متوقع صورت حال سے سمجھوتہ نہ کرپانے کی نفسیاتی کمزوری۔ یہی نفسیاتی کمزوری مایوسی کو جنم دیتی ہے اور مایوسی اپنے عروج پر پہنچ کر انسان کو خود کشی کے لیے مجبور کرنے لگتی ہے۔

لیکن کیا مرنے کے بعد حقیقت میں ساری تکلیفوں سے نجات مل جاتی ہے؟ اور کیا انسان موت کے بعد واقعی معدوم ہوجاتا ہے؟

زندگی کا غلط تصور

اس کا پہلا اور بنیادی سبب تو یہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں کو اخروی زندگی پر اعتماد نہیں ہے۔ بظاہر مذہبی اور دھارمک نظر آنے والے اکثر لوگ بھی درحقیقت مادہ پرست ہی ہوتے ہیں اور زبان سے پرلوک (آخرت) اور سورگ اور نرک (جنت و جہنم) کو ماننے کا دعویٰ کرنے کے باوجود اسی موجودہ زندگی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور اسی میں اپنی ساری خواہشات پوری کرلینا چاہتے ہیں۔ پھر جب انہیں کامیابی نہیں ملتی تو ان ہی میں سے کچھ لوگ انتہائی مایوسی کے عالم میں خود کشی کرلیتے ہیں۔

پھر جو لوگ دھرم کے تئیں گمبھیر بھی ہوتے ہیں اور یہ مانتے بھی ہیں کہ مرنے کے بعد وہ بالکل معدوم نہ ہوجائیں گے، وہ بھی انتہائی مایوسی کے عالم میں اس بنا پر خود کشی سے نہیں روک پاتے کیونکہ ان کا دھرم اس سمت میں ان کی واضح رہنمائی نہیں کرتا۔ ان کا دھرم یہ تو کہتا ہے کہ ’’آتم ہتیا پاپ ہے‘‘ لیکن وہ پاپ اور گناہ کیو ںہے؟ مایوسی اور ناکامی کا مارا انسان کہاں سے قوت پائے؟ ان دشوار سوالوں کے جوابات انسان کو نہیں ملتے۔ بلکہ کچھ دھرم تو آتم ہتیا (خود کشی) کو پاپ بتانے کے ساتھ ساتھ اس کی ترغیب بھی دیتے آئے ہیں۔ ہندو دھرم میں ستی کی رسم اس کی زندہ مثال ہے، جس کی رو سے شوہر کے مرنے کے بعد اس کی بیوہ کو شوہر کے ساتھ ہی اس کی چتا میں جل کرمرتی رہی ہیں اور بہت سے مبینہ مہا پُرش سمادھی لے لیتے ہیں۔

اسلام کا نظریہ

اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ یہ دنیا انسان کی حقیقی قیام گاہ نہیں ہے اور نہ وہ یہاں ہمیشہ رہنے کے لیے آیا ہے۔ بلکہ اس کے رب نے اسے محض امتحان کے لیے یہاں بھیجا ہے، یہ دیکھنے کے لیے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے وہ اپنے مالک کی اطاعت و بندگی کرتا ہے یا خود اپنے نفس کا غلام بن کر جیتا ہے؟ مالک کی مرضی کیا ہے؟ اسے کیا پسند ہے اور کیا ناپسند؟ کون سے کام اس کی نظر میں نیک ہیں اور انہیں انسان کو کرنا چاہیے؟ اور کون سے کام اس کی نظر میں برے اور گناہ ہیں جن سے انسان کو بچنا چاہیے؟ اس کی جانکاری دینے کے لیے اس نے وقتاً فوقتاً اپنے پیغمبروں کو مبعوث فرمایا اور سب سے آخر میں خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اپنے آخری پیغمبر کے طور پر منتخب کیا اور آپؐ پر اپنی آخری کتاب قرآن مجید نازل فرمائی، جو ساری انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

یہ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ دنیا ہمارے لیے صرف ایک امتحان گاہ ہے۔ اگر ہم یہاں اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود و قیود کا لحاظ رکھتے ہوئے اس کے احکام پر چلیں گے تو اس بندگی و اطاعت کے صلہ میں اخروی زندگی میں ہمیں جنت کا عیش و آرام ملے گا۔ اس کے برخلاف اگر ہم خدائی احکام کی خلاف ورزی کریں گے تو ہمیں بطور سزا اخروی زندگی میں جہنم کا عذاب جھیلنا ہوگا جو ان دنیوی دکھوں اور تکلیفوں سے کہیں زیادہ ہوگا اور دائمی بھی۔

اسلام کی یہ تعلیمات ہمیں اس حقیقت سے روشناس کراتی ہیں کہ اس دنیا میں ہمارا خواہشات کے پیچھے بھاگنا محض سراب کے پیچھے بھاگنے کے مانند ہے۔ اول تو خواہشات کی کوئی انتہا نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ان کے پیچھے بھاگنے والا کبھی مطمئن نہیں ہوتا۔ دوسرے یہ کہ اگر وہ کچھ حاصل کربھی لیتا ہے تو اس کی وہ خوشی بھی عارضی ہوتی ہے نہ کہ دائمی۔ کیونکہ موت یقینی ہے جو ہر مادی کامیابی و ناکامی کو بے معنیٰ ثابت کرکے رکھ دیتی ہے۔ لہٰذا عقل مند وہی ہے جو مادی کامیابی و ناکامی کو زیادہ اہمیت نہ دے کر اخروی کامیابی کو اپنی زندگی کا نصب العین بنائے، کیونکہ وہی حقیقی اور باقی رہنے والی کامیابی ہے۔

خود کشی: اسلام کی نظر میں

جہاں تک خود کشی کا تعلق ہے اسلام واضح الفاظ میں اس فعل کو مکمل حرام قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔‘‘ (النساء: ۲۹)

خود کشی کے تعلق سے قرآن کا یہ حکم امتناعی اگرچہ بہت مختصر معلوم ہوتا ہے، لیکن احادیث کے مطالعہ سے اس کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے:

حضرت جندبؓ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے پہلے کے لوگوں میں ایک شخص تھا۔ اسے زخم لگ گیا تھا جس کی وجہ سے بے قرار ہوکر اس نے ایک چھری لی اور اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا۔ پھر خون بند نہ ہوا یہاں تک کہ وہ مرگیا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا: میرے بندے نے اپنی جان دینے میں عجلت سے کام لیا، اس لیے میں نے جنت اس پر حرام کردی۔‘‘ (بخاری)

اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے خود کو پہاڑ سے گرایا اور اپنی جان دے ڈا لی تو وہ جہنم کی آگ میں اپنے کو گراتا رہے گا۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہ اسی حال میں رہے گا اور جس نے زہر پی کر اپنے کو مار ڈالا اس کا زہراس کے ہاتھوں میں ہوگا اور وہ اسے جہنم کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ پیتارہے گا اور جس کسی نے اپنے کو لوہے کی کسی چیز سے قتل کیا تو لوہے کی وہ چیز اس کے ہاتھ میں ہوگی جسے وہ جہنم کی آگ میں اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ اسی حال میں رہے گا۔‘‘ (بخاری)

یعنی انسان جس طریقہ سے بھی خود کشی کرے گا آخرت میں وہی طریقہ بطور سزا اس کی تقدیر بنادیا جائے گا اور وہ ہر لمحہ دوزخ میں اسی درد و کرب سے گزرتا رہے گا جس سے گزر کر اس نے خود کو ختم کرنا چاہا تھا، یہ سوچ کر کہ اس سے تمام تکلیفوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔

دوسرے جرائم اورگناہوں کے بعد تو یہ ممکن بھی ہے کہ بعد میں غلطی کا احساس ہونے پر انسان خدا سے معافی مانگ کر اس کی تلافی کرلے لیکن خود کشی ایک ایسا جرم اور گناہ ہے کہ جس کے بعد معافی کا کوئی موقع ہی نہیں رہ جاتا۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ یہ انسان کی سب سے بڑی نادانی ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔

خودکشی گناہ اور جرم کیوں؟

خود کشی گناہ اور جرم کیوں ہے؟ اس کا جواب اس سوال میں پوشیدہ ہے کہ کیا ہم اس دنیا میں خود اپنی مرضی سے آگئے ہیں؟ اور ہماری اپنی تخلیق میں کیا ہمارا خود کا بھی کوئی کردار ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ تو پھر ہمیں خود کو ختم کرنے کا اختیار کیسے مل سکتا ہے؟ جو کچھ ہم نے نہیں بنایا اسے مٹانے کے حق دار ہم کیسے ہوسکتے ہیں؟ اپنے آپ کو ختم کرنے والا درحقیقت خدا کے اختیارات میں دخل اندازی کرتا ہے، اس وجہ سے اسلام نے خود کشی کو جرم وگناہ قرار دیا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ خود کشی کرنے والا شخص صرف خدائی اختیارات میں دخل اندازی ہی نہیں کرتا بلکہ وہ معاشرے و سماج کا بھی مجرم ہوتا ہے۔ کوئی بھی فرد یہاں صرف اپنے دم پر زندگی نہیں گزارسکتا۔ مثال کے طور پر بچپن میں اس کے ماں باپ اس کی پرورش کرتے ہیں، جوانی میں بیوی بچے اس کے مدد گار بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشرے کے دیگر افراد بھی قدم قدم پر کوئی نہ کوئی کام آتا ہی رہتا ہے۔ وہ اساتذہ جنھوں نے اسے تعلیم دی، وہ ڈاکٹر جنھوں نے بیمار پڑنے پر اس کا علاج کیا۔ اسی طرح مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے کتنے ہی لوگ اس کے معاون بنتے ہیں۔ اور اس معاونت کے بدلہ میں ہر فرد پر کچھ سماجی اور معاشرتی ذمہ داریاں اور فرائض بھی عائد ہوتے ہیں جن کی ادائیگی فرد کے ذمہ لازم ہے۔ خود کشی کرنے والا سماج اور معاشرہ کے اس قرض کو ادا کرنے کے بجائے فرار کی راہ اختیار کرتا ہے۔ جس کے لیے وہ سماج کا بھی مجرم قرار پاتا ہے۔ ایسے میں کیا یہ مناسب ہوگا کہ کوئی شخص اچانک اپنے ماں باپ، بھائی بہن، بیوی بچوں، دوستوں اور سماج کے دیگر افراد کے تعاون اور احسانات کو فراموش کرکے سارے سماج سے ناطہ توڑ لے؟ خود کشی کرنے والا ان بے شمار لوگوں کو مایوسی کا پیغام دیتا ہے، جو عزم و حوصلہ کے ساتھ زندگی کے مسائل اور مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ یہ ایک اور سماجی جرم ہے۔

خود کشی سے روکنے میں اسلام کا کردار

اب آئیے دیکھتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات کس طرح مایوس اور دل شکستہ شخص کو حوصلہ بخشتی ہیں اور اسے دشوار گزار حالات سے مقابلہ کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔

اس ضمن میں سب سے اہم بات تو یہی ہے کہ اسلام مایوسی کو ہی ایمان کے منافی قرار دیتا ہے۔ قرآن مجید میں کہا گیا ہے:

’’اللہ کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔‘‘ (یوسف: ۸۷)

یعنی اسلام کے نزدیک انسان کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ پر اعتماد رکھے اور اس کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو۔ اور اگر وہ مایوس ہوکر ہمت ہار جاتا ہے تو اس کا صاف مطلب ہوگا کہ اسے خدا کی رحمت پر بھروسہ ہی نہیں ہے۔

اسلام ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ ہماری کامیابی و ناکامی، عزت و رسوائی، اور خوشحالی و تنگدستی سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم دیا ہے:

’’کہو، اے اللہ! ملک کے مالک، تو جسے چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے۔ تو جسے چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلیل کردے۔ بھلائی تیرے اختیارمیں ہے۔ بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ (آل عمران: ۲۶)

خدا کے اختیار میں سب کچھ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہمارا وجود محض کٹھ پتلی کے مانند ہے اور ہم جو کچھ بھی کریں اس کے لیے خود ہم پر کوئی ذمہ داری عاید نہیں ہوتی۔ قرآن کریم انسانوں کو بتاتا ہے کہ کُلُّ نَفْسٍ بِمَا کَسَبَتْ رَہِیْنَۃٌ (ہر آدمی اپنی کارکردگی کے بدلے رہن ہے) اور لِکُلِّ امْرَئٍ مَّا سَعٰی (ہر آدمی کے لیے وہی ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے)۔ البتہ جہاں تک خود ہمارے اعمال کا سوال ہے تو بلاشبہ ہم اس کے لیے پورے ذمہ دار ہیں۔

قرآن مجید میں کہا گیا ہے: ’’کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور انسان کے لیے کچھ نہیںمگر جس کے لیے اس نے سعی کی۔ ‘‘

(النجم: ۳۸-۳۹)

اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق خدا کی نظر میں ہماری ’’سعی و جہد‘‘ ہی سب سے اہم ہے، نہ کہ اس سعی و جہد میں پوری طرح کامیابی حاصل کرلینا۔

معاشرے کی ذمہ داری

حقیقت یہ ہے کہ کسی شخص کو خود کشی تک لے جانے میں جہاں اس کا اپنا غلط طرز فکر ذمہ دار ہوتا ہے، وہیں سماج کے بنائے ہوئے غلط اصول ا ور روایات بھی اس کے لیے ذمہ دار ہیں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ فرد کا غلط طرز فکر بھی معاشرے کا ہی عطا کردہ ہوتا ہے۔

ایک ایسا معاشرہ جو مادی عیش و آرام کے پیچھے بھاگ رہا ہو، جہاں دنیوی کامیابی و ناکامی کی بنیاد پر ہی انسان کو تولا او رناپا جاتا ہو۔ جہاں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور دوسرے کو نیچا دکھانے کا چلن عام ہو۔ جہاں غریبوں اور کمزوروں کو حقیر نظروں سے دیکھا جاتا ہو، کسی غریب ضرورت مند کو قابل رحم سمجھنے کے بجائے اسے اپنا منافع بڑھانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہو اور اسے سود کے ’’بیت العنکبوت‘‘ میں جکڑ کر اس کاہر طرح کا استحصال کرنے میں ذرا بھی شرم نہ محسوس کی جاتی ہو۔ ایسے سماج میں کوئی صحت مند اور مثبت فکر کیسے پروان چڑھ سکتی ہے؟ جہاں بڑے بڑے دانشور بھی اسی دنیا کو سب کچھ سمجھ رہے ہیں اور اسی مادی کامیابی کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہوں، وہاں بیچارہ ایک عام آدمی جو زیادہ گہرائی سے سوچنا بھی نہیں جانتا کس طرح دنیوی لذتوں کو نظر انداز کرکے، عقیدۂ آخرت کو اختیار کرکے اسے اپنی زندگی کانصب العین بناسکتا ہے؟

لہٰذا ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے کہ ہم زندگی کے تئیں اس غلط اور گمراہ کن طرزِ فکر میں تبدیلی لائیں اور لوگوں کو یہ بتائیں کہ یہ دنیا خواہشات پوری کرلینے کی جگہ ہے ہی نہیں۔ لہٰذا اگرہماری کوئی تمنا یہاں پوری نہیں ہوتی ہے یا ہماری کوئی کوشش ناکام ہوجاتی ہے تو ہمیں مایوس اوردل شکستہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ہماری وہ کوشش خدا کے ہاں لکھی جاچکی ہے اور یقینا آخرت میں ہمیں اس کا اجر ملے گا۔ جیسا کہ قرآن پال میں اللہ تعالیٰ نے ہم سے وعدہ بھی فرمایا ہے:

’’پھر جو نیک عمل کرے گا اس حال میں کہ وہ مومن ہو، تو اس کی سعی کی ناقدری نہ کی جائے گی اور اسے ہم لکھ رہے ہیں۔‘‘ (الانبیاء: ۹۴)

البتہ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہماری سعی وجہد خدائی احکام کے تابع ہو اور اس کے احکام کے خلاف نہ ہو ورنہ ہماری ساری کوشش ضائع ہوجائے گی اور اس کی پاداش میں ہمیں دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’ان سے کہو، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ ناکام لوگ کون ہیں؟ وہ کہ دنیوی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کررہے ہیں۔‘‘

(الکہف: ۱۰۳-۱۰۴)

آخرت کا یہ عقیدہ بالاشبہ مایوس اور دل شکستہ انسان کے لیے ایک بہت بڑا سہارا ہے اور یہ اسی عقیدہ کا اعجاز ہے کہ اسلامی تعلیمات سے برائے نام واقفیت ہونے نیز عملی زندگی میں بھی تعلیمی، معاشی اور سیاسی طور پر بہت زیادہ پسماندہ ہونے کے باوجود مسلمانوں میں خود کشی کا فیصد دیگر اقوام کی بہ نسبت بہت کمایا جاتا ہے۔، بلکہ یہ نہ ہونے کے برابر ہی ہے۔ اور اگر کبھی کوئی مسلم شخص خود کشی کرتا بھی ہے تو اس کے بارے میں بلا تردد یہ کہا جاسکتا ہے وہ بیچارہ درحقیقت اسلام سے واقف ہی نہیں تھا۔

آخری بات

آخر میں ہم یہ بتاتے ہوئے اپنی بات ختم کرتے ہیں کہ اسلام نے جہاں انسان کو خود کشی سے روکا ہے وہیں اس نے موت کی تمنا کرنے سے بھی منع کردیا ہے:

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی (جسمانی یا مالی) تکلیف کے سبب، جو اسے پہنچے، موت کی تمنا نہ کرے۔ اور اگر اس قسم کی تمنا کرنا اس کے لیے ناگزیر ہوجائے تو اسے یہ کہنا چاہیے… اے اللہ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہو، اور مجھے اس وقت موت دے جب موت میرے لیے بہتر ہو۔‘‘ (بخاری، مسلم)

اسلام کی یہ تعلیمات ہمیں یہی سکھاتی ہیں کہ ہمیں ہر حال میں حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے اور مایوس اور دل شکستہ ہوکر خود کشی کا راستہ نہیں اپنانا چاہیے۔ کیونکہ خود کشی نہ صرف اللہ رب العالمین کی نظر میں جرم و گناہ ہے بلکہ یہ بزدلی بھی ہے اور حماقت عظیم بھی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146