عورت کی بدقسمتی ہے کہ وہ ہندوستان میں ہمیشہ سے مجبور و مظلوم رہی ہے۔ ویدک دور سے لے کر بیسویں صدی کے ’’روشن‘‘ دور تک بھی وہ مظلوم ہی رہی اور اب اکیسویں صدی جو روشنی، آزادی اور مساوات کی خاص صدی گردانی جارہی ہے، اس میں بھی وہ مجبور و مظلوم ہی نظر آتی ہے۔ باوجود اس کے بیسویں صدی میں عورتوں اور مردوں کے درمیان مساوات اور برابری کی تحریکیں چلیں، خواتین کو ان کے حقوق دلانے کے لیے بڑے بڑے پلیٹ فارم بنے اور ممتاز شخصیات ان سے وابستہ ہوئیں، حالیہ دنوں میں خواتین کو تفویض اختیارات یا ’’امپاور‘‘ کرنے کا نعرہ دیا گیا اور اب گلوبلائزیشن کے دور میں جو مرد وعورت کے بے قید آزادی کا دور ہے خواتین کو مردوں کی غلامی سے نجات دلانے کی کوششوں نے عالمی تحریک کی شکل اختیار کرلی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایشیا، افریقہ، عرب و عجم اور مسلم و غیرمسلم دنیا پر چھا گئیں۔مگر دنیا کا نقشہ بتارہا ہے کہ اس پوری تحریک نے کہیں بھی عورت کو آزادی اور اختیارات نہ دلائے۔ اس کے برعکس استحصال اور ظلم کے ایک نئے دور سے روشناس کرایا۔
ہمارے ملک ہندوستان میں بھی آزادیٔ نسواں اور اختیارات دلانے کی تحریکات کی تمام تر کوششوں کے باوجود خواتین کی حالت میں نہ تو کوئی سدھار ہوسکا اور نہ ہی انہیں مطلوبہ حقوق وا ختیارات حاصل ہوسکے۔
ہاں سائنس اور ٹکنالوجی، علم و عرفان اور آزادی نسواں کے اس دور میں بے شمار مصیبتوں اور ان گنت لعنتوں نے عورت کو آگھیرا۔ پرانے زمانے میں عورت کو گھر کی چہار دیواری میں ’’قید‘‘ رہنا پڑتا تھا لیکن عصر حاضر کی آزادی نے اسے بے قید سڑکوں پر گھومنے والا اور نتیجتاً غیر محفوظ بنادیا۔ اور اب بحث ہورہی ہے کہ دہلی جو ملک کی راجدھانی ہے وہاں عورتیں کتنی محفوظ ہیں۔ گزرے زمانے میں وہ روایتی لباسوں اور گھونگھٹ میں رہتی تھی مگر فیشن ڈیزائننگ کے اس دور نے اس کے جسم سے لباس اتار دیا۔ پچھلے زمانے میں وہ محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتی اور خاندان کا معاشی سہارا بنتی تھی آج بھی اس کی وہی حالت ہے البتہ ’’ترقی یافتہ عورتیں‘‘ ماڈلنگ اور ’’سیکس سیلز‘‘ کے ذریعہ د ولت کما رہی ہیں۔ زمینداری اور شاہی دور میں وہ صرف سماج کے نوابوں، زمینداروں اور راجوں مہاراجوں کی ہوس کا نشانہ بنتی تھی اور اس وقت صورت حال یہ ہے کہ وہ راستہ سے گزرنے والے ہر فرد کی ہوس ناک نگاہوں کا نشانہ بنتی ہے۔
قحبہ گری اس زمانے میں بھی ہوتی تھی مگر سماج سے چھپ کراور احساسِ ندامت و شرمندگی قحبہ گروں کو عام معاشرہ سے کاٹ کر رکھتا تھا مگر آج اس ملعون اور قابلِ نفرت پیشہ کو جائز پیشہ بنانے کا مطالبہ کرنے والوں کی ارذل آوازیں بھی بلند ہونے لگی ہیں۔
عورتوں کے سلسلہ میں ہمارا سماج کس قدر بداخلاق، دو رُخا، مفاد پرست اور خود غرض واقع ہوا ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے معصوم بچیوں کو اغوا کرنے اور بھیک منگوانے کے ساتھ ساتھ ان کو فروخت کردئیے جانے کے واقعات کافی ہیں۔
آزاد ہندوستان کے لیے اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہاں آج بھی عورتیں خریدی اور بیچی جارہی ہیں۔ اور اس سے آگے بڑھ کر پوری انسانیت کے دامن کو داغ دار کرنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ ہندوستان میں جنسی پیشہ ورخواتین میں تقریباً آدھی عورتیں ۱۸ سال سے بھی کم عمر اور نابالغ ہیں اور انہیں جبراً اس پیشہ میں دھکیل دیا جاتا ہے۔
بدقسمتی اور بداخلاق کی حدیں یہیں پر ختم نہیں ہوجاتیں، ملک کی جمہوریت کا سرشرم سے جھک جاتا ہے جب بڑے بڑے سیاست داں، اسٹارس اور اعلیٰ حکام بھی جنسی اسکنڈلوں کی دلدل میں پھنسے نظر آتے ہیں۔ تہذیب کے دور میں بھی عورت محض ایک جنسِ بازار ہے اور ہر کس وناکس کے لیے ذریعہ تلذذ- اور ظاہر ہے یہ اسی صورت میں ہورہا ہے جب سیاست داں اور ملک کا سیاسی نظام اس کی پشت پناہی کررہا ہے۔ کشمیر سیکس اسکنڈل ہو یا یوپی کا امرمنی مدھومتا کیس، جج سشیل ناگر (راجستھان) کا معاملہ ہو یا ڈی آئی جی مدھوکرٹنڈن کا کیس ہر ایک سے یہی بات سامنے آئی ہے کہ وہ سماج جو عورت کے لیے آزادی، اختیارات و حقوق اور مساوات و برابری کی بات کرتا ہے ، محض دھوکا اور دکھاوا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کے حسن اس کے جسم اور اس کی عزت و وقار کا سودائی ہے اور اخلاقی و معاشرتی اعتبار سے بتدریج دیوالیہ پن کی طرف جارہا ہے۔
مفاد پرستی کا عالم یہ ہے کہ معصوم لڑکیوں کو اغوا کرکے جنسی بھیڑیوں کا شکار بننے کے لیے فروخت کردیا جاتا ہے۔ ڈیمانڈ اور سپلائی کا کھیل جاری ہے اور یہ سب ہورہا تہذیب و ثقافت، ترقی اور گلوبلائزیشن کے ایسے دور میں جہاں ہر طرف آزادیٔ نسواں اور مساوات مرد و زن کے نعرے سنائی دے رہے ہیں۔
سائنس اور ٹکنالوجی کے اس دور کی عورت نوازی ملاحظہ فرمائیے اور شرم سے سر جھکالیجیے کہ مرد و عورت کی حقیقی محبت کی نشانی اور عجائبات عالم میں سے ایک عجوبہ تاج کے شہر آگرہ میں ایک ایسے گروہ کا علم ہوا ہے جو معصوم بچیوں کو اغوا کرلیا کرتا تھا، پھر ان کی بہترین دیکھ ریکھ کرتا اور اچھا کھلاتا پلاتا، ساتھ ہی وہ ایسے ہارمونس کے انجکشن ان معصوم بچیوں کو دیتا تھا کہ وہ وقت سے کافی پہلے جو ان اور جسمانی طور پر بڑی ہوجاتی تھیں اور پھر انہیں جنسی بھیڑیوں کی ہوس کا شکار بننے کے لیے فروخت کردیا کرتا تھا۔ گویا وہ لڑکیاں نہ ہوئیں مرغی و بکری کی طرح فارموں پر پرورش پانے والی مخلوق۔ وائے ترقی انسان اور ہائے اخلاقی دیوالیہ پن۔
یہ اس عہد ترقی اور عہد روشنی کے سیاہ سائے ہیں جس نے آج ہمارے پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور ان کی سیاہی کا دائرہ مسلسل وسیع اور رنگ گہرا ہوتا جارہا ہے۔ عورت اس دورِ مساوات و آزادی میں گھر میں ہے تو گھریلو تشدد کا شکار اور جہیز کی بھینٹ چڑھا دی جانے کے اندیشوں میں گرفتار ہے۔ سڑک پر ہے تو زمانے بھر کی ہوسناک نگاہوں کامرکز ہے ۔ دفتر اور کارخانوں میں ہے تو مردوں کا کھلونا اور سامانِ تفریح ہے۔ وہ جائے تو جائے کہاں؟ اور افسوسناک بات یہ ہے کہ اسی گندگی اوربرائی کو مفاد پرست اورخود غرض مغربی تہذیب حسین بناکر پیش کررہی ہے۔ اور ہوس پرست مردوں اور مفاد پرست سماج اس کے ضمیر اور اس کی نسوانیت کا گلا گھونٹ ڈالنے کے لیے تیارہے اور آج کی عورت ہے کہ وہ حقیقت سمجھنے سے قاصر ہے۔
آگرہ جیسا کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو وہ بیدار ہوتی ہے۔ کشمیر جیسا کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو وہ احتجاج کرتی ہے۔ جیسکا لال اور پریہ درشنی مٹو اور تندور کانڈ جیسے واقعات ہوتے ہیں تو اس کا ضمیر اسے کچوکے لگاتا اور بغاوت پر آمادہ کرتا ہے۔ مگر پھر نیند آجاتی ہے اور وہ خاموش ہوجاتی ہے۔ پھر بیداری آئے اور ظلم کے خلاف بغاوت پیدا ہو تو کیسے ہو؟
اوپر ہم نے عورت کی صورتِ حال اوراس کے مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے آزادی و مساوات کے دور میں عورت پر ہورہے ظلم و جبر کی ایک جھلک اس لیے پیش کی ہے کہ آج کی عورت غور و فکر کرے کہ اس دور کے آزادی و مساوات کے نعرے کس قدر کھوکھلے، بے جان اور بے معنی ہیں۔ بلکہ دیکھنے کی چیز ہے کہ حقیقت میں یہ کس قدر مفاد پرستی اور خود غرضی پر مبنی ہیں۔ کاش آج کی عورت ان نعروں کی حقیقت کو جان سکتی اور ان نام نہاد ’’عورت نواز‘‘ اور اس کی ’’ترقی کی خواہاں‘‘ تہذیب اور اس کے افراد کے چہروں سے ہٹ کر ان کے دل و دماغ میں بھرے تعفن اور تلذذ کے کلبلاتے کیڑوں کو محسوس کرسکتی۔
شمشاد حسین فلاحی