ایک ماہ سے زیادہ مدت سے پورا ملک سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ شروع کے دنوں میں ہوئے احتجاجات کو کرناٹک، یوپی اور دہلی میں جس طرح طاقت کے بل پر کچلنے اور دبانے کی کوشش کی گئی اس سے صاف ظاہر ہے کہ طاقت ور طبقہ اپنی طاقت کے ذریعہ جمہوریت کی روح کو ختم کرنے کے لیے کمر بستہ ہوگیا تھا اور ملک کے عوام کو خوف زدہ کرکے احتجاج کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ہندوستانی عوام کی متحدہ جدوجہد بے مثال ہے، جس نے ملک کے سیکولرزم، دستور اور روح جمہوریت کو بچانے کے لیے میدان میں اتر کر یہ ثابت کردیا کہ عوام کا ضمیر زندہ ہے اور روح جمہوریت اور سیکولرزم بڑی سخت جاں ہے۔ ملک کے عوام نے مذہبی و طبقاتی حد بندیوں سے اوپر اٹھ کر جس انداز میں نئے قانون کی مخالفت کی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی ہر کوشش کو ناکام کرنے کا وہ عزم لیے ہوئے ہیں اور انہیں ملک کے دستور اور اس کے فرقہ وارانہ آہنگی کے افکار جو دستورِ ہند کی صورت میں موجود ہیں،اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں۔ ملک کے ہر کونے میں ہر روز لاکھوں کی تعداد میں عوام کا سڑکوں پر نکلنا اور اس قانون کے خلاف احتجاج اس کا کھلا ثبوت ہے جس نے اقتدار وقت کو چیلنج بھی کیا ہے اور اس کی نیندیں اڑادی ہیں اور اب واضح ہوگیا ہے جس کام کو وہ پارلیمانی اکثریت کے بل پر آسان تصور کررہے تھے وہ اس قدر آسان نہیں جتنا انھوں نے تصور کیا تھا۔
جمہوریت کی روح یہ ہے کہ منتخب حکومت عوام کے جذبات و احساسات، ان کے مفادات کی تکمیل کے عزائم اورملک میں موجود دستور و قانون کی روح کے مطابق ملک کا نظم و نسق چلائے اور قومی مفادات کی محافظ بن کر عوام پر حکومت کرے۔ پبلک مینڈیٹ یا عوام کا اعتماد اسی لیے اور اسی صورت میں اسے حاصل رہتا ہے اور رہ سکتا ہے۔ لیکن جب عوام یہ محسوس کریں کہ ایسا نہیں ہورہا ہے اور ان کے ذریعے منتخب کی گئی حکومت الگ سمت میں جارہی ہے تو اس کو روکنا اور اس کے کاموں اور پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنا عوام کا حق بھی ہے اور فرض بھی اور حکومت جو ملک کے دستور کے نام پر حلف لے کر ملک کا انتظام سنبھالتی ہے، اس کا فرض ہے کہ وہ ان آوازوں کو سنے جو اس کے خلاف ہوں اور ملک کے عوام کو مطمئن کرے یا پھر ان کے مطالبات اور ملک کے مفاد کی خاطر اپنی روش اور پالیسیوں میں تبدیلی کرے۔ یہی ملک میں سکون و اطمینان اور امن و امان کا ضامن ہوسکتا ہے۔ بہ صورت دیگر نہ ملکی مفاد کا تحفظ ممکن ہوسکتا ہے اور نہ عوا م کا اعتماد قائم اور باقی رکھا جاسکتا ہے۔
اس کے برخلاف اگر عوام کو ان کے اس حق سے محروم کرنے کی کوشش کی جائے گی تو ایک طرف تو ملک کا امن و سکون خطرات کے گھیرے میں آجائے گا اور دوسری طرف حکومت کا استحکام، عوام کا اعتماد اور ملک کی تعمیر و ترقی بھی متاثر ہوگی۔ یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں بلکہ قانون قدرت اورنظام فطرت ہے جس سے عوام بھی واقف ہیں اور اصحاب اقتدار بھی۔
برسرِ اقتدار گروہ کی ایسے میں دو طرح کی پالیسی ہوسکتی ہے۔ ایک یہ کہ وہ عوام کی آواز کو دبا کر اور ان کے احتجاج کو کچل کر اقتدار میں باقی رہنے کی کوشش کرے اور دوسری یہ کہ وہ عوام کے مطالبات کے مطابق تبدیلی کرے اور عوام کو خوش رکھتے ہوئے اور ان کے مطابق پالیسیاں ترتیب دیتے ہوئے بہتر انداز سے نظامِ حکومت چلائے۔ یہی ملک اور ملکی عوام کے حق میں بہتر ہے اور یہی برسرِ اقتدار گروہ کی مقبولیت اور کامیابی کا ضامن بھی۔ جبکہ اول الذکر پالیسی ملک کی ترقی کے لیے بھی نقصان دہ ہے اور برسرِ اقتدار گروہ کے لیے بھی پریشان کن۔
ہندوستان کی تاریخ نے وہ بدقسمت دور بھی دیکھا ہے جب ایک گروہ نے ملک کے عوام کو ان کے اس بنیادی جمہوری حق سے کچھ عرصے کے لیے اپنی تاناشاہی کے نشہ میں آکر محروم کردیا تھا۔ ہندوستانی عوام اسے ایمرجنسی کی لعنت کے نام سے جانتی ہے اور یہ اپنے بانیاں کے ماتھے پر اور ملک کی تاریخ پر ایک ایسا سیاہ دھبہ ہے جو آج تک مٹ نہ سکا اور شاید مٹایا بھی نہ جاسکے۔ وقت ہے کہ تاریخ کے اس غیر معمولی واقعے سے سبق لیا جائے اور ملک کو پیچھے دھکیلنے کے بجائے آگے بڑھانے کی فکر کی جائے اور ملک کے دستور اور اس کے خوبصورت فرقہ وارانہ ہم آہنگی والے تانے بانے مضبوط کیے جائیں اور ’کثرت میں وحدت‘ کے خوبصورت رنگوں کو باقی رکھنے اور انہیں اور زیادہ نکھارنے کی کوشش ہو۔
یہ بات سمجھنے کی ہے کہ عوام کبھی ’انا پرست‘ نہیں ہوتی۔ اس کو مطلب صرف اپنے محفوظ مستقبل اور خوش حال ’حال‘ سے ہوتا ہے جب کہ حکومتیں بعض اوقات اپنی بعض چیزوں کو ’انا‘ کا معاملہ تصور کرنے لگتی ہیں۔ ملکی عوام کے لیے بنائی جانے والی پالیسیاں کبھی بھی ملک کے عوام کے مفاد اور ان کے بہتر مستقبل کی سوچ سے نہ ہٹیں یہی مطلوب ہوتا ہے اور یہی بہتر بھی۔ اگر حکومتیں اپنی ایسی پالیسیز کو واپس لے لیں جو عوام اپنے خلاف تصور کررہے ہوں تو مسائل منٹوں میں حل ہوجاتے ہیں۔ اس کانتیجہ عوام کی خوشی اور اقتدار کی کامیابی اور مدت کار کی توسیع کی صورت میں ملتا ہے جو دونوں کے حق میں بلکہ ملک کے حق میں بھی بہتر ہوتا ہے۔
کچھ ا س شمارے کے بارے میں
حجاب اسلامی فیملی میگزین ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ یہ کوشش کرتا رہا ہے کہ خاندان اور رشتوں کی تقویت و استحکام کے لیے اپنے قارئین کو اسلامی ہدایات اور دینی ومعاشرتی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے مستند مواد پیش کرتا رہے۔ اس محاذ پر بہتری اور رہنمائی کو وہ اپنی ذمہ داری اور اپنے لیے کوششوں کا ترجیحی محاذ تصور کرتا رہا ہے۔ چنانچہ اس سے پہلے تین خصوصی شمارے شائع کیے گئے جو قارئین کی جانب سے کافی سراہے گئے اور بڑی تعداد میں عوام کے درمیان پہنچے۔ ’’اسلامی عائلی زندگی اور طلاق و پرسنل لا کے مسائل‘‘ اور ’’مسلم خاتون – گھر کے اندر گھر کے باہر‘‘ جس طرح مقبول ہوئے وہ ہمارے لیے عزم و حوصلہ اور شکرو امتنان کا باعث رہے۔ انہی سے مہمیز لیتے ہوئے اس وقت ہم ’فیملی کونسلنگ‘ کے عنوان سے ایک اور خصوصی اشاعت پیش کرتے ہوئے خوش محسوس کررہے ہیں۔ اس عنوان پر خصوصی اشاعت کا مطالبہ بعض قارئین کافی دنوں سے کررہے تھے۔ عائلی مسائل پر شائع کیے گئے خصوصی شمارے اور طلاق کے نئے قانون کے تناظر میں اس کامطالبہ اور اس موضوع کی اہمیت اور بڑھ گئی تھی۔ مزید یہ کہ موجودہ طرزِ معاشرت اور مغربی تہذیب و ثقافت کے زیر اثر رشتوں میں آتی سرد مہری اورٹوٹتے بکھرتے خاندانی نظام کے پیشِ نظر اس موضوع کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔
کونسلنگ ایک ٹیکنیکل لفظ ہے اور اس کا عرف عام میں ایک خاص مفہوم سمجھا جاتا ہے۔ اور اب یہ ایک علم اور فن کی حیثیت سے کافی ترقی کرچکا ہے اور مختلف وجوہات کی بنا پر لوگوں کی توجہ کا مرکز بھی بنا ہے۔ اگر اس خاص مفہوم کے تناظر میں اس خصوصی اشاعت کو دیکھیں گے تو ان لوگوں کو، جو اس کی ٹیکنیکل چیزوں سے واقف ہیں، ٹیکنیکل قسم کا اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس میں کونسلنگ سے زیادہ ’’گائڈنس‘‘ ہے۔ ان کا یہ خیال درست ہے۔ کونسلنگ کا عمل خاص ہے اور اس کے خاص تکنیکی مراحل اور طریقۂ کار ہے۔ لیکن — جب ہم اسلامی ہدایات اور رہنمائی کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کونسلنگ کی اصل ’رہنمائی‘ ہی ہے جو افراد اور گروہوں کو اس لائق بناتی ہے کہ وہ انفرادی مسائل اور رویوں کو بہتر بناسکے۔
اس خصوصی شمارے میں ہم نے رشتوں، تعلقات اور رویوں پر بحث کرکے لوگوں تک اس اسلامی رہنمائی کو پہنچانے کی کوشش کی ہے جو اسلام نے ہمیں دی ہے۔ کیونکہ رشتہ چاہے خونی رشتے ہوں یا ازدواجی و اختیاری رشتے اور تعلقات، سب کے الگ الگ تقاضے اور مطالبات ہیں اور جب تک انہیں پورا نہ کیا جائے، ان کی گرم جوشی یا استحکام کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور اسلام اس سلسلے میںہماری بھرپور رہنمائی کرتا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات بھی اہم معلوم ہوتی ہے کہ ’کونسلنگ‘ اپنے رائج الوقت تصور کے ساتھ مذہبی ہدایات سے کم اور نفسیاتی، معاشرتی اور رویوں سے متعلق علم کاانطباق زیادہ کرتا اور اسی کے ذریعہ مسائل کو حل کرتا ہے۔ ہمارے اس شمارے میں جو کچھ بھی پیش کیا گیا ہے وہ مکمل طور پر اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات پر مبنی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ موجودہ معاشرے کے جو مسائل ہیں وہ اسی رہنمائی کو عملی جامہ پہنانے اور اسے اختیار کرکے ہی حل ہوسکتے ہیں۔
اسلام اپنے ماننے والوں کو جہاں انفرادی زندگی سے متعلق ہدایات دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی اور معاملات کے بارے میں بھی تفصیلی ہدایات دیتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ حقوق و فرائض کابھی شعور لوگوں میں بیدار کرتا ہے اور لوگوں کے کردار کو اتنا بلند کرتا ہے کہ وہ حقوق سے زیادہ فرائض اور ذمہ داریوں کے لیے حساس ہوں۔ یہاں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تقسیم بہت واضح ہے اور حقوق العباد بعض پہلوؤں سے حقوق اللہ سے کم نہیں بلکہ کچھ اوپر ہی معلوم ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کا کامیابی دونوں کی یکساں ادائیگی میں مضمر ہے۔ اچھے تعلقات اور مضبوط رشتوں میں یہ تصور کلیدی رول ادا کرتا ہے۔ یہ خصوصی شمارہ اسی تصور کے عملی انطباق کی صورتیں پیش کرتا ہے۔
اس شمارے کی تیاری میں ہم نے کئی ماہ مسلسل محنت کی ہے اور اپنی حد تک موضوع پر اسلامی روح کے ساتھ بھرپور رہنمائی کی کوشش کی ہے۔ اس میں کس قدر کامیابی ملی یہ تو قارئین ہی بتاسکتے ہیں لیکن اتنا یقین ہے کہ یہ اپنی نوعیت کی منفرد کوشش ہے جس کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا بھی ہمیں احساس ہے ساتھ ہی اعتماد ہے کہ جو کچھ بھی پیش کیا گیا وہ مستند اور مفید ہوگا۔
اس شمارے کی تیاری اور اب فائنل شکل میں قارئین کے ہاتھوں تک پہنچانے میں جن احباب اور معاونین کی کوششیں شامل ہیں ان کا شکریہ ادا کرنے کو دل بے چین ہے۔ ان میں ہماری اپنی ٹیم کے لوگ بھی ہیں جو کڑی محنت کر کے آپ تک پہنچانے میں کامیاب ہوتے ہیں اور وہ قلم کار بھی ہیں جو مشنری جذبے اور دینی رہنمائی کی فریضے کی ادائیگی کے جذبے سے قارئین کو بہترین مواد فراہم کرتے ہیں۔
اسی طرح ان احباب کا بھی دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہیں جنھوں نے اس شمارے اور گزشتہ شماروں کو لوگوں تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا۔ ان احباب نے حسب استطاعت سو دو سو کاپیاں خرید کر اپنے طور پر لوگوں میں فروخت یا تقسیم کیں۔ یہ حجابِ اسلامی کے مشن کے خاص معاونین ہیں اور ان کے لیے ہم اللہ تعالیٰ سے اجر عظیم کی دعا کرتے ہیں۔