بچے کی تربیت کرنے والوں کو ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اس کی کسی غلط، ناشائستہ، خلافِ تہذیب یا ناپسندیدہ حرکت پر اسے خوف دلانے، ڈرانے دھمکانے اور مارنے و پیٹنے کے بجائے اس کی غیرت، اس کی شرم و حیا اور اس کی خودداری کو اپیل کریں۔ یہ انداز اصلاح بچے کو آپ سے قریب لائے گا اور اس کو آپ سے مانوس بنائے گا۔ وہ آپ سے عاجز و ہراساں نہ ہوگا۔ آپ سے پناہ نہ ڈھونڈھے گا وہ آپ کو اپنا ہم راز و دمساز، مونس و ہمدرد سمجھے گا ۔مثلاً بچے نے اپنی چھوٹی بہن کو مارا، چوری کی، کسی بات کے لیے ضد یا ہٹ شروع کی یا بستر پر پیشاب کردیا۔ اب آپ اسے پہلے سزا نہ دیجیے۔ زجر و ملامت نہ کیجیے۔ اس کا مذاق نہ اڑائیے۔ یا ابو جان سے پٹوا دینے کی دھمکی نہ دیجیے۔ اسے اس انداز سے متاثر کیجیے: دیکھو منّو کتنے شرم کی بات ہے کہ تم اتنے بڑے ہوگئے اور اسی طرح یہ حرکت کرتے ہو۔ اچھے اور شریف بچے کہیں یہ عادت اختیار کرتے ہیں۔ کہیں تمہارے ابو یہ دیکھ لیں گے یا تمہارے بھائی جان اسے سن لیں گے تو کیا کہیں گے۔ وہ تمہیں بڑا ذہین اور اچھا بچہ سمجھتے ہیں۔ اور دیکھتے نہیں کہ اللہ میاں جنہیں خوش رکھنے کے لیے ہم تو ابو میاں، چچا، چچی، آپا و بھائی جان سب نمازیں پڑھتے ہیں، صاف ستھرے رہتے ہیں۔ لڑائی جھگڑا نہیں کرتے۔ اللہ میاں، ایسی عادت سے بہت ناخوش ہوتے ہیں وہ ایسے لوگوں کو کوئی اچھی نہیں دیتے۔دیکھو تم آج ہی یہ وعدہ کرو اور یہ فیصلہ کرو کہ یہ خراب عادت چھوڑ دو گے اور اب تم جیسے اچھے بچے سے یہ بری بات کبھی سرزد نہ ہوگی۔‘‘ اس طرح سمجھانے اور اس کی غیرت و حیا کے احساس کو اپیل کرنے کے بعد آپ اس کی اس سلسلے میں پوری ہمت افزائی و دلجوئی اور خراب عادت سے بچنے کا استحضار کرتی رہیں۔ البتہ اس کی اس غلط عادت کا کسی سے تذکرہ، یا پروپیگنڈہ نہ کریں۔ اس طریقہ سے آپ آسانی سے بچے کو سیکڑوں بری عادتوں اور بلاؤں سے نجات دلاسکتی ہیں۔ اس عمل کے لیے کسی خاص عمر کی ضرورت نہیں۔ جب بھی بچے کے اندر ذرا سی سمجھ آجائے۔ وہ آپ کی بات سمجھنے لگے، آپ یہ طریقہ اختیار کریں۔ تاخیر سے اس کے کردار و احساس میں کھردرا پن پیدا ہوجائے گا اور اس کی یہ برائی زائل ہوجانے کے بعد ساری ترکیبیں بے اثر اور ناقابل عمل ہوجاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بچہ تو بالکل موم کی طرح ہے جس قالب میں چاہیے اسے ڈھال لیجیے۔ وہ ایک سادہ ورق ہے جس پر آپ جو چاہیں لکھ سکتے ہیں۔اس لیے تربیت اطفال کی یہ نازک ذمہ داری اٹھانے والوں کو روزِ اول ہی سے بچے کے شعور و احساس اور جذبہ و خودداری کو اپیل کرتے ہوئے اس کے اخلاق و کردار کی تزئین و آرائش کا اہم فریضہ ادا کرنا چاہیے۔