پتھروں کی افادیت و اہمیت مسلم ہے۔ اسی طرح پتھروں کے فائدے و نقصانات سے کون واقف نہ ہوگا۔ قدیم دور پتھروں کا ہی دور کہلاتا تھا۔ قدیم انسان پتھروں کی غاروں میں رہتا تھا۔ پتھروں کے اوزار بناتا تھا، پتھروں کی رگڑ سے آگ پیدا کرتا تھا اور آج بھی پتھروں سے آگ پیدا کررہا ہے جیسے ایک شخص نے کسی دوکان پر پتھر کیا پھینک دیا فساد کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ آج کے دور میں بھی یہ پتھر بڑے مستعمل ہیں آج بھی عمارتوں میں عمدہ قسم کے ماربل (سنگِ مرمر) کا استعمال بڑی سلیقہ مندی سے ہوتا ہے۔ اور کئی صدیاں پہلے اسی پتھر سے شاہجہاں نے تاج محل بنوایا تھا جو آج بھی دنیا کی خوبصورت عمارت ہے۔ پتھر جسے کہتے ہیں وہ تعمیری کاموں کے علاوہ تخریب کے آلہ کے طور بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً جلسوں میں پتھر پھینک دیا جائے تو بڑے نیتاؤں کے کٹّر سپورٹر بھی سرکتے دکھائی دیتے ہیں۔
پتھر ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں ان کی خاص جگہ تو پہاڑی علاقے ہیں مگر یہ ریگستانی علاقوں میں بھی پڑے نظر آتے ہیں۔ اور جہاں یہ زیادہ بڑے ملتے ہیں انہیں پتھریلے میدان کہا جاتا ہے۔ پتھر ایک بڑی سخت چیز ہے، اگر کسی کے سر پر گر جائے تو ہلاکت کا سبب بن سکتا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں اور برسات کے دنوں میں تو پتھر گرنے سے بڑے بڑے حادثہ ہوجاتے ہیں مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ جب یہ پتھر کسی عقل پر پڑتا ہے تو اس کا کوئی جسمانی نقصان نہیں ہوتا۔ ہے نہ عجیب تاثیر کی چیز۔ سر پر پڑے تو ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے اور عقل پر پڑے تو بے ضرر۔
اسی لیے لوگوں کو کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ ’’تمہاری عقل پر تو پتھر پڑگئے ہیں۔‘‘ مگر وہ شخص بالکل صحیح سلامت ہوتا ہے۔ پتھر بڑی محبوب چیز ہے۔ ہیرے کی شکل میں ہو تو قسمت کھل جاتی ہے۔ سفید چمکدار ہو جسے لوگ ماربل کہتے ہیں تو بڑے بڑے دولت مندوں کے بام و در اور فرش کو خوبصورت بنانے کے لیے کام آتا ہے۔ کچھ نہ بھی ہو تو سنگ تراش اسے تراش کر مورتیاں بنادیتے ہیں اور لوگ پھر انہی پتھروں کی پوجا کرنے لگتے ہیں۔ کبھی کبھی لوگ بھی پتھر ہوجاتے ہیں اور ان کے دل بھی پتھر ہوجاتے ہیں مگر بدقسمتی سے ایسے پتھر انسانوں یا پتھر دل لوگوں کی وہ قدر نہیں ہوتی جو ماربل، ہیرے یا مورتی والے پتھر کی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس نہ جانے کیوں لوگ ایسے دلوں اور ایسے لوگوں کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ شاعر تو خاص طور پر ایسے لوگوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے رہتے ہیں اب دیکھیے کسی شاعر نے کہہ ہی ڈالا:
یہاں سے شہر ستمگر دکھائی دیتا ہے
جسے بھی دیکھیے پتھر دکھائی دیتا ہے
اور ایک شاعر نے تو سر پیٹتے ہوئے کہا:
پتھر دلوں کو بات سنانی فضول ہے
جیسے جیسے دنیا ترقی کررہی ہے پتھر کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پہلے زمانے میں لوگ لکڑی، گھاس پھوس، اور مٹی گارے کے مکانوں میں رہا کرتے تھے اور اب لوگ پتھر کی بنی شاندار عمارتوں میں رہتے ہیں اور جو نہیں رہتے وہ رہنے کی خواہش دل میں لیے جیتے ہیں۔ اور اس خواہش سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے یہاں تک کہ موت آجاتی ہے۔ کچھ پتھر اور پتھر سے بنی عمارتوں سے اس ترقی یافتہ دور میں بھی خوف زدہ رہتے ہیں جبکہ لوگوں نے خدا سے بھی خوف کھانا چھوڑ دیا ہے۔ مائل خیر آبادی بھی پتھروں سے ڈرنے والے ہی رہے ہوں گے، تبھی تو انھوں نے کہا ہے:
گاؤں کا گھر چھوڑ کر شہر جانے والو
ہر عمارت وہاں پتھر کی بنی ہوتی ہے
بعض لوگوں کو پتھروں کی پہچان ہوتی ہے۔ اس میدان کے ماہر شہسوار عام طور پر پیر فقیر ہوتے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ پتھر شناسی کے اسی ہنر کے سبب وہ راتوں رات فقیر سے امیر بن جاتے ہیں اور بڑے بڑے رئیس اور مالدار لوگ ان کے پتھروں کے ٹکڑوں کو بھاری قیمت دے کر خریدتے نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں قیمتی پتھر یعنی ہیرا، زمرد، پکھراج، نیلم، یاقوت، عقیق و مرجان وغیرہ کیا ہیں۔ اور ان کی جملہ خصوصیات کے علم کا سمندر بھی ہوتے ہیں یہ لوگ پتھر شناسی کے علاوہ انسان شناس اور چرب زبانی میں بھی ماہر ہوتے ہیں۔ نام راسی پتھر نکال نکال کر دیتے ہیں اور پتھروں کی تاثیر بھی بتاتے ہیں۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے ایک مرتبہ ایسے ہی ایک درویش سے ہماری بھی ملاقات ہوگئی انھوں نے کہنا شروع کیا:’’شاہجہاں نے سنگِ مرمر کا تاج محل بنایا تھا بہت سارے قیمتی پتھر بھی نصب ہیں جس میں اسی کوہِ نور نامی ایک ہیرا بھی اس کے پاس تھا جسے انگریز چرالے گئے اور میاں کیا بتاؤں آپ کو یہ پتھر بڑے ہی راسی ہوتے ہیں۔ کسی فرد کو مالا مال کردیتے ہیں تو کسی کو مفلس و نادار بنادیتے ہیں یہ بڑے پُر تاثیر ہوتے ہیں۔ اب سنگِ پارس (پارس پتھر) ہی کو لے لیجیے جس کے ہاتھ لگ جائے مالا مال ہوجائے۔ جس چیز کو بھی پارس پتھر مس کردیا جائے وہ سونا بن جائے۔ بس یہ سننا تھا کہ ہم حواس باختہ رہ گئے۔ اور سوچنے لگے کہ ہم پارس پتھر حاصل کرکے ضرور خوش قسمت انسان بنیں گے۔وہ بندئہ خدا کیا کیا بولتا رہا اور ہم اس سے بے خبر اپنے ہی خوابوں و خیالوں میں محو ہوگئے۔
دوسرے دن ہم پھر اس فقیر کے پاس حاضر ہوئے معلوم کریں پارس پتھر کس سرزمین پر یا کس مقام پر مل سکتا ہے؟ اور اس بندئہ خدا کے لیے عمدہ قسم کے پکوان بھی گھر سے بنا کر لے گئے اور اس کی خوشامد میں لگ گئے۔ کیوں کہ علامہ اقبال نے بھی خوشامد سے نکالنے کی بات کہی ہے۔
ہمارے سو کام تو نہیں تھے صرف ایک کام تھا۔ ایک ہی بات تھی وہ بھی راز کی بات کہ پارس پتھر کہاں ملے گا۔ بالآخر ہم نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا کہ حضرت ’’پارس پتھر‘‘ کہاں مل سکتا ہے؟ یہ پوچھنا تھا کہ انھوں نے اپنے چمٹے کو بجایا اور دوسرے دن ہمیں بلایا۔ چند روز مزید انھوں نے ہمیں خوشامدسے بھری میزبانی کا موقع دیا۔
پھر ایک روز ہمیں تنہائی میں لے جاکر بڑی رازداری اور جذبات سے بھرے لہجے میں کہا کہ بیٹے!!! پارس پتھر بحرِ اعظم میں مل سکتا ہے۔ اب جا اور حاصل کرلے ’’پارس پتھر‘‘ بحر اعظم سے۔۔۔!
اور بحر اعظم بحراعظم کی رٹ لگاتے ہوئے اور اپنا چمٹا بجاتے ہوئے وہ درویشیہ جا، وہ جا۔ اور ہم پتھر بنے کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ کچھ لمحات کے لیے ہم پر بھی سکتہ کی سی کیفیت طاری رہی۔ اور جب ہماری ذہنی رو پھر سے واپس آئی تو یہ شعر ہمارے ذہن میں گونجنے لگا کہ
کانپتا ہے دل تیرا اندیشۂ طوفان سے کیا
ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو
ہم نے سوچا کہ شاعر تو بحر بھی ہمیں ہی کہہ رہا ہے اس لیے خود اپنے آپ میں ہی ’’پارس پتھر‘‘ کو کیوں نہ تلاش کریں۔