میک اپ کرتے وقت اچانک وہ خوابوں کے جزیروں، دریاؤں اور آبناؤں میں گم ہوگئی۔ اس کی نگاہ رنگ برنگی مچھلیوں پر گئی۔
گدلے اور شفاف پانیوں کے زینے پر سے چڑھتی اترتی مچھلیاں دلکشا لہروں کے شبستانوں میں خرامِ نازکرتی، روپہلے پانیوں تلے استادہ پتھروں اور رنگا رنگ چٹانوں پر اگی ہوئی لچکیلی گھاس، پھول اور پتیوں کو سونگھتی، چومتی چاٹتی اور تلاطم کی آغوش میں جھومتی جھامتی اٹھکیلیاں کرتی مچھلیاں۔ کیچڑ اور دلدل میں دھنسے ہوئے مگر مچھ اور چٹانوں سے لٹکے ہوئے کیکڑے اور کچھوے۔
میکرا کے ننھے سے برش سے پلکوں کو ایک شیڈ اور گہرا کرنے کے بعد وہ اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ آئینے میں اپنے خوش قامت سراپا پر نگاہ ڈالتے ہوئے اور کالی کالی لٹوں کو انگلیوں سے شانے پر استوار کرتے ہوئے وہ مسکرائی۔ یکایک اسے احساس ہوا کہ اس کی دلفریب مسکراہٹ میں درد بھرے آنسوؤں کی چمک شامل ہے۔
بیتاب مچھلی!
اور وہ جو مچھلیوں کا شکاری ہے جسے مچھلیاں بہت پسند ہیں، طرح طرح کی رنگ برنگی خوشنما مچھلیاں، وہ اسے خاص طور پر پسند کرتا ہے اس کا وہ عاشق زار ہے مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ کھانے میں خوبصورت، پتلی اور لمبی مچھلی دنیا بھر کی مچھلیوں سے زیادہ لذیذ اور مزے دار ہوتی ہے اور اسی کے شکار کا وہ دلدادہ ہے۔
کہتے ہیں کہ ایک خراب مچھلی سارے تالاب کو گندا کردیتی ہے۔ حال ہی میں ایک آوارہ مزاج ایکٹریسوں کی طرح بنی سنوری، نمائشی کردار کی ایک مچھلی اچانک کہیں سے آگئی۔ شہر کے سارے طرحدار نوجوان اس کے پیچھے دیوانے ہوگئے تھے اور وہ تو خاص طور پر اس کا والہ و شیدا نظر آنے لگا تھا۔
دراصل ہوا یہ کہ جب بارشیں زیادہ ہوئیں، ہر طرف جل تھل ہوگیا، گدلے اور گندے جوہڑ کی وہ غلیظ مچھلی موقعہ پاکر سیلاب کے دھارے پر بہتی ہوئی صاف ستھرے خوش نما تالاب میں آوارد ہوئی۔ اسے یہ بات سخت ناگوار معلوم ہوئی، اس نے سوچا کہ وہ جو ایکٹریسوں کی طرح بنی ٹھنی رہتی ہے وہ تو سارے تالاب کو گندا کردے گی، اس نے تالاب کو خیر باد کہہ دیا، اور سیلاب کے دھارے پر بہتی ہوئی دریا میں نکل آئی۔
وہ کئی دنوں تک اپنے دوستوں سے کہتا رہا۔ یہ خود کو دوسروں سے زیادہ پاکیزہ سمجھتی ہے۔ دوپٹہ سر کے اوپر سے ٹھوڑی تک لپیٹ کر رکھتی ہے، دست بدعارہتی ہے، حالانکہ اس روپ میں تو وہ اور بھی زیادہ پُرکشش اور خوبصورت دکھائی دیتی ہے۔ مگر کیا میں!
نادان! اسے کیا پتا کہ دوپٹہ سر کے اوپر سے ٹھوڑی تک لپیٹ کر جب وہ دست بدعا ہوتی ہے تو محض اسی کے لیے۔ اسے کیا خبر کہ جب سر سجدے میں ہو تو ذہن میں تصور ہمیشہ اسی کا ہوتا ہے۔
اور وہ بن سنور کر آتا ہے مچھلی کا شکار کھیلنے۔ اپنے چھوٹے سے خوبصورت بجرے میں بیٹھ کر ہر طرح کے ساز وسامان سے لیس ہوکر اپنے خوبصورت سیاہ بالوں میں ٹیڑھی مانگ نکالے، ہونٹوں کے ساتھ آنکھیں بھی مسکراتی ہوئی۔ پھر مسکراہٹ کی لمبی ڈوری دریا کی مضطرب لہروں میں ڈالتا ہے۔
اور وہ بن سنور کر نکلی تھی۔ گہرے تاریک پانیوں کے پاتال سے ابھر کر، لہروں میں اٹھلاتی چٹانوں اور پتھروں کے گرد گھومتی، زیر آب بچھی ہوئی سبز ہ گاہوں میں خرامِ ناز کرتی اور ’’یک دو شکن زیادہ کن گیسوئے تابدار را‘‘ کا مصرعہ زیرِ لب گنگناتی اور جارہی تھی ساحل کے ان شفاف پانیوں کی جانب جن میں صبح کے درخشاں آفتاب کی ہلکی زرد دھوپ نے چکا چوند برپا کررکھی تھی۔ اور سورج کی کرنوں نے لہروں کو وہ خوشنما دریچے کھول دیے تھے جن میں سے بجرے سمیت اس کا دلربا عکس لرزتا ہوا صاف دکھائی دیتا تھا۔
بھوک اور پیاس کی شدت اپنی جگہ برقرار تھی۔ یقینا اسے غذا کی تلاش تھی۔ اور وہ جانتی تھی کہ غذا بدن کی توانائی کے لیے اتنی ہی ضروری ہوتی ہے جتنی عشق و نگاہ بازی روح کی ترو تازگی کے لیے۔
وہ جو کہ مچھلی جیسی عمدہ اور لذیذ خوراک کا تمنائی و دلدادہ ہے، بنسی کے سرے پر چارہ بھی نہایت عمدہ، لذیذ اور خوشبودار قسم کا لگا کر رکھتا ہے۔ وہ مست اور بدہوش ہوکر چارے کی طرف لپکتی ہے۔ وہ لمحہ شکاری کے لیے کتنا نازک، کتنا اہم ہوتا ہے۔ وہ دم گھسیٹے چپ سادھے زندگی کے عظیم ترین سانحہ کا منتظر رہتا ہے اور پھر آناً فاناً کانٹا اس کے جبڑوں کو چھید کر تا تالو میں پیوست ہوجاتا ہے۔ ہائے میں بندھ گئی، وہ چیختی ہے تڑپتی ہے، تلملاتی ہے، ظالم، سفاک، بے رحم شکاری، اتنا خوبصورت چارہ بناکر لایا تھا؟ دھوکے باز ، فریبی! اور وہ بے تحاشا بھاگ نکلتی ہے۔ بدحواسی کے عالم میں لہروں میں تلملاتی، لہروں کو جھنجھوڑتی، دریا کو چیرتی، کھلے سمندروں کی جانب نامعلوم گہرائیوں کی سمت لیکن اسے کیا خبر کہ جتنی تیز اور جتنی دور وہ بھاگتی ہے، شکاری ڈوری کو اتنا ہی ڈھیلا چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ طیش میں آکر وہ اور تیز بھاگتی ہے۔ سوچتی ہے گویا شکاری کو اس کی رسیوں اور بجرے سے سمیت گھسیٹتی ہوئی گہرے سمندروں کی تہ میں پہنچ کر دم لے گی۔ لیکن کہاں تک؟ آخر وہ تھک کر نڈھال ہوجاتی ہے۔ کانٹا اس کے نتھنوں میں بدستور بندھا ہوا ہے۔ یکایک ایک سرد آہ بھر کر وہ اداس ہوجاتی ہے۔ آس امید کا دامن اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے، وہ اپنے بدن کو ایک دم ڈھیلا چھوڑ دیتی ہے لیکن اسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہی اس نے اپنے بدن کو ڈھیلا چھوڑا۔ اس چالاک نے ڈوری کو آہستہ آہستہ اپنی طرف کھینچنا شروع کردیا اوروہ ڈوری کے ساتھ ساتھ کھنچتی چلی گئی۔ یکایک مگرمچھ اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہوا اس کے پاس سے گزر گیا۔ اب اس سے کہو کہ تمہاری مدد کو آئے، وہ جس کی عبادت تم دن رات کرتی ہو؟ مگرمچھ نے طنزاً کہا۔
’’گندی مچھلیوں کا بیوپاری، کمینہ!‘‘ مچھلی نے سوچا ’’وہ اگر چاہے تو اپنے لمبے لمبے غلیظ دانتوں سے ڈوری ہی کو کاٹ کر اسے رہائی دلاسکتا ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرے گا۔ بے غیرت کہیں کا، شارک پانی کی شیرنی سمجھی جاتی ہے، لیکن یہ خنزیر ہے۔ سور خور، سمندروں کا سور!‘‘ ساتھ ہی اسے کچھوے کا خیال آیا۔ ’’وہ درویش صفت جاندار! وہ پانیوں کا سیانا، شاید وہ کوئی مفید مشورہ دے سکے۔‘‘ اس نے سوچا۔ وہ حسرت بھری نگاہوں سے ادھر ادھر کے مناظر دیکھتی ہوئی ڈوری کے ساتھ ساتھ کھنچی جارہی تھی۔ اس کے جبڑے لہو لہان ہوچکے تھے۔ دفعتاً ہری بھری چٹانوں میں اسے کچھوا دکھائی دیا۔ ’’خدا پر بھروسا کرو۔‘‘ کچھوے نے اس کی حالتِ زار دیکھ کر کہا۔ ’’اور اگر ہمت سے کام لو تو ایک بار پورا زور لگا کر گہرے پانیوں کی جانب بھاگ نکلو۔ عین ممکن ہے کہ ڈوری کے آخری سرے پر پہنچ کر وہ ڈوری کو اپنے ہاتھ سے چھوڑنے پر مجبور ہوجائے۔‘‘ وہ ایک لمحے کے لیے رکی۔ اسے اپنی رگوں میں تازہ خون دوڑتا ہوا محسوس ہوا۔ کیا وہ بھاگ نکلے گہرے پانیوں کی جانب؟ یا پھر اپنے جسم کو اس زور سے جھٹکا دے کہ ڈوری ٹوٹ جائے! لیکن پھر فوراً ہی اسے یہ سوچ کر افسوس ہوا کہ ڈوری ٹوٹ بھی جائے یا شکاری کے ہاتھ سے چھوٹ بھی جائے تو کیا حاصل ہوگا۔ وہ جو فولاد کا مضبوط کانٹا اس کے تالو میں پیوست ہے اسے کون نکالے گا؟ کاش! اس بے رحم شکاری کی طرح میرے بھی دو ہاتھ ہوتے!‘‘‘ اس نے سوچا ’’تب میں اس خبیث کانٹے کو اپنے ہاتھوں سے نکال باہر پھینکتی اور پھر پانی کی ان مست الست لہروں میں مستانہ وار رقص کرتی۔‘‘ لیکن وہ زیرِ آب دور دور تک پھیلی ہوئی چٹانوں اور سبزہ گاہوں پر حسرت کی نگاہ ڈالتی خاموشی سے ڈوری کے ساتھ کشاں کشاں سطح پر تیرتے ہوئے بجرے کی سمت بہتی جارہی تھی۔
قدِّ آدم آئینے کے سامنے کھڑے کھڑے اس نے اپنے لب و رخسار کا آخری بار جائزہ لیا۔ باہر سے موٹر کے ہارن کی آواز آئی۔ وہ تیز تیز قدموں سے زینے پر سے نیچے اتر گئی۔
کشادہ مگر گاڑیوں کی آمدو رفت سے بھر پور سڑک کا سفر نہایت تیزی سے طے کرنے کے بعد موٹر کار ایک نسبتاً خاموش اور غیر آباد مقام پر پہنچ کی رکی۔
مہکے ہوئے گرم گرم سانسوں کو اپنے رخسار پر محسوس کرتے ہوئے اس نے ہاتھ اس کے سینے پر رکھ کر نہایت نرمی سے دور ہٹاتے ہوئے کہا۔
’’بس بس میرے محبوب، اس سے آگے نہیں پلیز!‘‘… مچھلی کی آنکھ کو لذیذاور مہکتے ہوئے چارے میں لپٹا ہوا فولادی کانٹا صاف دکھائی دے رہا ہے۔
’’کیا مطلب؟ میں کچھ سمجھا نہیں!‘‘
’’وہ لڑکی جو دفتر میں کام کرتی ہے، تم اسے اپنا دل دے بیٹھے ہو، میں مجبور ہوں… جب تک اس بات کا فیصلہ نہ ہوجائے تم نے وعدہ کیا تھا کہ …‘‘
’’ہاں میںنے وعدہ کیا تھا اور میں اپنے وعدے پر قائم ہوں۔‘‘
امی جان اس وقت تمہارے گھر پہنچ چکی ہوں گی۔ اپنے فیصلے سے آگاہ کرنے کے لیے۔ میں یہی خوشخبری سنانے کے لیے تو آج تمہیں لایا ہوں۔’’کیا سچ مچ؟‘‘
’’ہاں! واقعی، میری جان!‘‘مچھلی کے دونوں بازو شکاری کے گلے میں حمائل ہوگئے۔ پھر اچنبھا یہ ہوا کہ کچھ دیر بعد جب موٹر کار دوبارہ اسٹارٹ ہوئی اور پھر پوری رفتار سے کشادہ شاہراہ پر روانہ ہوئی تو اس کا ذہن یک بیک پھر خوابوں کے جزیروں، دریاؤں اور آبناؤں کی جانب منتقل ہوگیا۔ اس نے دیکھا کہ مگرمچھ کی آنکھوں سے تو حسبِ معمول وہی آنسو رواں تھے جو ازل سے اس کے منحوس چہرے پر رہتے آئے ہیں۔ لیکن اس پانیوں کے سیانے درویش صفت کچھوے کی آنکھ سے سچ مچ خوشی کے آنسو ٹپک رہے تھے، اس نے تہِ آب کی تاب ناک چٹانوں کی اوٹ سے دیکھ لیا تھا کہ اب ساحل سے واپسی کے سفر کے دوران معاملہ دگر گوں تھا۔ اس مرتبہ کانٹا بجائے مچھلی کے شکاری کے حلق میں پیوست ہوچکا تھا۔ جب کہ ڈوری کا آخری سرا مچھلی کے قبضے میں تھا اور وہ اسے نہایت مضبوطی سے تھامے کشاں کشاں گہرے گہرے سمندروں کی جانب جارہی تھی۔