حسنِ انجام

ترجمہ: تنویر آفاقی

ایک عابد و زاہد بزرگ عبداللہ بن ادریس کی حالت بگڑنے لگی اور ان کی سانس اکھڑنے لگی تو ان کی بیٹی رونے لگی۔ انھوں نے اپنی بیٹی سے کہا: ’’بیٹی رو مت۔ میں نے آج ہی کے وقت کے لیے اس گھر میں چار ہزار بار قرآن ختم کیا ہے۔‘‘

ایک اور بزرگ عامر بن عبداللہ بن زبیر بستر مرگ پر اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہے تھے۔ آپ کے اہلِ خانہ آپ کے گرد بیٹھے رو رہے تھے۔ جس وقت آپ موت سے لڑ رہے تھے اسی وقت موذن نے مغرب کی اذان دی۔ اس وقت آپ کا سانس آپ کے حلق میں اٹکا ہوا تھا۔ نزع کی کیفیت طاری تھی کہ اذان کی آواز کانوں میں پڑی۔ اذان کی آواز سنتے ہی اپنے گرد بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہا: ’’میرا ہاتھ پکڑ کر لے چلو۔‘‘ لوگو ںنے کہا: ’’کہاں جائیں گے؟‘‘ بولے: ’’مسجد میں‘‘ لوگوں نے کہا کہ ’’اس حال میں مسجد جائیں گے؟‘‘ فرمایا: ’’سبحان اللہ!! موذن نماز کے لیے بلارہا ہے اور میں اس کی پکار کا جواب نہ دوں؟ مجھے مسجد لے چلو۔‘‘ دو آدمیوں نے انھیں اٹھالیا۔ مسجد میں امام کے پیچھے دو رکعتیں پڑھیں اور حالتِ سجدہ میں انتقال کرگئے۔

یزید الرقاشی کی وفات کا وقت قریب آیا تو رونے لگے اور بولے ’’جو تو مر جائے گا تو تیرے لیے نماز کون پڑھے گا؟ تیرے مرنے کے بعد تیرے لیے روزے کون رکھے گا؟ تجھے موت آجائے گی تو تیرے لیے مغفرت کی دعا کون کرے گا؟‘‘ اس کے بعد کلمہ شہادت پڑھا اور جان جانِ آفریں کے حوالے کردی۔

ہارون الرشید، خلیفہ مسلمین، پر جب موت کا وقت آیا اور موت کی غفلت ان پر طاری ہونے لگی تو انھوں نے اپنے سپہ سالاروں اور درباریوں کو پکارا۔ جب سب لوگ آگئے تو ان سے کہا کہ ’’میری تمام فوج کو جمع کرو۔‘‘ چنانچہ وہ تمام فوج کو ان کی تلواروں اور ذرہوں کے ساتھ لے آئے۔ ان کی تعداد اتنی تھی کہ اس کا شمار اللہ ہی کو معلوم ہوگا۔ ہارون الرشید نے ان پر اپنی نگاہیں جمائیں اور انھیں غور سے دیکھنے لگے۔ پھر زاروقطار رونے لگے اور چیخ کر کہا: ’’اے وہ ذات جس کی بادشاہت کو کبھی زوال نہیں اس پر رحم فرما جس کی بادشاہت کو زوال آگیا۔ اسی حالت میں روتے رہے ، یہاں تک کہ انتقال ہوگیا۔

ایک بزرگ جو کہ بہت متقی و پرہیز گار، نفلی روزوں کا اہتمام کرنے والے، قیام لیل کے پابند اور تلاوت قرآن کے خوگر تھے، ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو یہ نعمت تقوی و ورع کیسے حاصل ہوئی؟ انھوں نے کہا: ’’میں نے خود کو اپنے سامنے حاضر تصور کرکے اس سے پوچھا کہ ’’اے میرے نفس! تیری آرزو اور خواہش کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا کہ’’میں واپسی دنیا میں جاؤں اور عملِ صالح سے اپنا زاد راہ تیار کروں۔ پھر میں نے اپنے نفس کو قبر کی تنگنائی میں تصور کیا اور اس سے پوچھا کہ تیری کیا خواہش ہے؟ اس نے کہا کہ ’’میری خواہش ہے کہ میں دنیا میں واپس جاؤں اور عمل صالح سے اپنا زادِ سفر تیار کروں۔ پھر میں نے اپنے نفس کو تصور کیا کہ اس کو قبر سے اٹھایا گیا اور رب رحمن کے حضور پیش کیا گیا ہے۔ میں نے اس سے پھر پوچھا کہ ’’تیری کیا خواہش ہے؟‘‘ اس نے پھر یہی جواب دیا کہ ’’میں دنیا میں واپس جاؤں اور عملِ صالح سے اپنے آپ کو آراستہ کروں۔‘‘ میں نے اپنے نفس سے کہا کہ اے نفس! یہ رہی دنیا اور یہ رہی تیری خواہش۔ اس دنیا میں عمل صالح کر اور اپنی آرزو اور خواہش پوری کرلے۔‘‘

یہ تھے ہمارے بزرگوں کے حالات، یہ اسلاف اپنی زندگی کے واقعات سے ہمیں اپنے آج کے حال پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس لیے ہمیں زیادہ عمل صالح کرنا چاہیے اور توبہ و استغفار کے ذریعے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے:

تقویٰ سے اپنے آپ کو آراستہ کرو

ممکن ہے اک مریض کی ہو زندگی طویل

بچے کی طول عمر کی امید تو رہے

ممکن ہے صبح تک بھی نہ جینا نصیب ہو

تن درست جی نہ پائے مگر چار دن یا دو

کل تک بھی جی سکے گا، مگر یہ پتہ نہ ہو

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146