پرانے زمانے کی بات ہے۔ شہر کے ایک تاجر کو اکثر اپنے کارندوں سے یہ شکایت رہتی تھی کہ ان میں سے اکثر عقلمند لوگ اپنی چالاکی کے سبب اور اکثر سادہ لوح اپنی بے وقوفی کے سبب غیر مفید ثابت ہوتے ہیں … تاجر کی اس بے اطمینانی کے سبب کوئی بھی کارندہ زیادہ دیر نہ تو اس کے ہاں ملازمت کرسکتا تھا اور نہ تاجر کی مرضی کے مطابق کاروبار میں کوئی نمایاں ترقی ہوپاتی تھی… ایک دن اس تاجر کے پاس ایک ایسا نوجوان ملازمت کی تلاش میں آیا جو بظاہر مفلوک الحال نظر آتا تھا لیکن اس کی باتوں سے بلا کا اعتماد ٹپکتا تھا۔ اس نے تاجر کو یہ پیشکش کی کہ اگر تاجر اسے اپنا منشی مقرر کرلے تو وہ نہ صرف اس کی تجارت کو ترقی دے گا بلکہ اپنی تمام تر صلاحیتیں کسی تنخواہ کے بغیر کام میں لاکر صرف حق حلال کی کمائی پر گزارہ کرے گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ آپ میرے ساتھ چڑیا کی ذہانت روا رکھیں گے نہ کوّے کی چالاکی …‘‘ تاجر نے پوچھا کہ یہ کوے کی چالاکی اور چڑیا کی ذہانت والی کہانی کیا ہے؟ نوجوان بولا کہ یہ کہانی تو بعد میں سناؤں گا پہلے آپ آزمائش کے طور پر مجھ سے کوئی کام سرانجام دینے کو کہے … تاجر بالکل خالی الذہن تھا، اس سے کوئی بات بن نہ پائی تو اپنے سامنے رکھی ہوئی اپنے نام کی مہر اٹھا کر کہنے لگا کہ یہ مہر بالکل بے کار ہوگئی ہے جاکر بازار سے اسی طرح کی نئی مہر بناکر لاؤ۔ یہ کہہ کی تاجر نے نوجوان کے ہاتھ میں پیسے تھما دیے کہ میرے نام کے تین حرفوں کی اجرت تین پیسے ہوگی۔چوتھا پیسہ تم اپنی مزدوری سمجھ کر رکھ لینا۔ نوجوان نے مہر پر کھدے ہوئے تاجر کے نام کے تین حروف پر غور کیا اور ایک پیسہ تاجر کو واپس کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بغیر تنخواہ کے آپ کی ملازمت کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ آپ فکر نہ کیجیے میں ان ہی پیسوں میں سے حق حلال کی کمائی حاصل کرلوں گا۔
تاجر کے ماتھے پر بل پڑنے لگے… ’’کیا تم مہریں بنانے والے سے گھٹیا مہر بنواؤ گے یا خیانت کا کوئی اور طریقہ تمہارے ذہن میں سمایا ہے؟‘‘
نوجوان بولاآپ اطمینان رکھیے اور مجھے یہ کام سر انجام دینے کی مہلت دیجیے۔ یہ کہہ کر نوجوان کسی مہریں بنانے والے کی طرف جانکلا اور پوچھا کیوں میاں مہریں بنانے کا چارج ایک پیسہ فی حرف ہی ہے نا؟ اثبات میں جواب پانے کے بعد نوجوان نے کہا کہ مجھ کو دو حرفوں کی مہر بنانی ہے۔ چ اور ش (چش)۔ مہر بنانے والے نے دو پیسے لے کر چ اور ش کے دو حرفوں کو کھودنے کا کام شروع کر دیا تو نوجوان بولا کہ ان حرفوں پر نکتے نہ ڈالنا۔
مہریں بنانے والا خوش ہوا کہ چھ نکتے ڈالنے کی زحمت سے جان بچ گئی۔ جب دونوں حرف کھود کر (حس) کی مہر تیار ہوگئی تو نوجوان بولا: ’’میاں میرا خیال ہے آخری لفظ کے درمیان ایک نکتہ ڈال دو، بھلا معلوم ہوگا۔‘‘ مہر بنانے والے کو بھلا چھ نکتوں کے بدلے میں ایک نکتہ ڈالنے پر کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ بظاہر اس نے دو لفظوں کی مہر بناکر دو پیسے وصول کرلیے اور نوجوان مہر لے کر تاجر کی دکان پر واپس آگیا۔
لیجیے حسن صاحب آپ کے نام کی مہر دو پیسوں میں تیار ہوگئی ہے اور تیسرا پیسہ میری ’’حق حلال‘‘ کی کمائی ہے۔ جب تاجر کی حیرت و پریشانی شک میں بدلنے لگی تو نوجوان سے ساری بات کھول کر بیان کردی کہ اس نے کس طرح دو لفظ (چش) کی مہر بنواتے وقت نکتے نہ ڈالنے اور بعد میں چھ نکتوں کے بدلے صرف ایک نکتہ آخری لفظ کے پیٹ میں ڈالنے کو کہا اور یوں مہر پر (حسن) کا لفظ صرف دو پیسوں میں کھودا گیا۔ تاجر اس ذہانت کو دیکھ کر حیران رہ گیا اور نوجوان سے پوچھنے لگا کہ اتنی عقلمندی پر بھی وہ اس قدر مفلوک الحال کیوں ہے؟ نوجوان نے کہا کہ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ میرے جس استاد نے میری ذہانت کو چمکایا تھا وہ مجھے پیار سے چڑیا کہا کرتے تھے اور انھوں نے مجھ میں چڑیا کے اوصاف پیدا کردیے لیکن جن لوگوں کے ہاں جاکر میں نے ملازمت کی وہ کوّے کی طرح چالاک تھے۔ تاجر نے پوری کہانی سنانے کو کہا تو نوجوان بولا کہ میرے استاد یہ کہانی یوں سنایا کرتے تھے کہ ایک چڑیا اور کوّے نے آپس میں دوستی کا رشتہ استوار کرنے کا عہد کیا اور دونوں ساتھ رہنے لگے۔ کچھ دن تو کوّا چڑیاکے ساتھ برابر کی سطح پر زندگی گزارتا رہا لیکن آخر اس کی نیت بگڑ گئی اور چڑیا کو جان سے مار ڈالنے کی تدبیریں سوچنے لگا۔ ایک روز دونوں کھیتوں کے اوپر اڑ رہے تھے کہ کوے نے چڑیا کو نیچے اتر کر مرچوں کے کھیت سے لال مرچوں کے بیج چننے کو کہا۔ چڑیا اس عجیب و غریب فرمائش پر حیران ہوگئی۔ لیکن کوے نے فیصلہ کن انداز میں کہا کہ اگر تم ان مرچوں سے مٹھی بھر بیج جمع کروگی تو میں تمہاری ہر بات تسلیم کروں گا لیکن اگر تم ایسا نہ کرسکیں تو میں اپنی تیز چونچ سے تمہاری ایک ایک بوٹی نوچ لوں گا۔ چڑیامرچوں کے بیج نکالتے ہوئے بالکل نڈھال ہوگئی۔ تو کہنے لگی کہ میاں کوّے یہ بات تو ظاہر ہے کہ میں مٹھی بھر بیج نکالنے سے پہلے ہی مرجاؤں گی لیکن میں تمہارا حکم بجالانے کی پوری کوشش کروں گی۔ صرف تم سے میری اتنی گزارش ہے کہ تم اپنی یہ مردار چونچ پانی سے خوب دھو کر آجاؤ اور پھر میرا گوشت کھالو۔ کوّا یہ سن کر پانی کی تلاش میں روانہ ہوا تو قریب ہی دریا کو دیکھ کر خوشی خوشی پانی میں چونچ ڈبونے لگا۔ دریا نے کہا اے کالے کوّے تیری چونچ پر جنم جنم کی گندگی بہتے پانی سے دور نہیں ہوسکتی جاکر کمہار سے کوئی برتن لے آ اور اس میں پانی لے کر تو اپنی چونچ کو ٹھہرے ہوئے پانی میں ڈبوئے رکھ تب کہیں جاکر تو پاک ہوجائے گا۔
جرم کے احساس کا مارا ہوا کوّا سوچے سمجھے بغیر کمہار کے پاس جاپہنچا اور اسے اپنی بپتا سناتے ہوئے کہا کہ مجھ پر رحم کرکے کوئی برتن دے دو ورنہ میرا شکار میرے ہاتھ سے چلا جائے گا۔ کمہار کوے کی مکاری کو خوب سمجھتا تھا کہنے لگا: میاں کوّے کیا پوچھتے ہو میرے برتن بنانے والے چاک کے نیچے جو لوہے کی ڈنڈی سی لگی ہوتی ہے وہ ٹوٹ گئی ہے۔ اب تو لوہار کے پاس جاکر اسے ٹھیک کروادے تو میں تجھے پانی کے لیے کوئی برتن تیار کرکے دے دوں۔ کوے نے آؤد یکھا نہ تاؤفوراً لوہار کے پاس جا پہنچا۔ لوہار نے کہا کہ میاں میں بوڑھا بے کار آدمی ہوں کتنے دنوں سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہوں۔ میری بھٹی ٹھنڈی پڑی ہے۔ چقماق کہیں کھو گیا ہے، آگ کیسے جلاؤں۔ تم کہیں سے آگ لاکر دو تو میں تمہارا کام کردوں۔ یہ سن کر کوّا آگ کی تلاش میں اڑتے اڑتے کسی بڑھیا کی کٹیا میں جاپہنچا اور اپنی ضرورت کا اظہار کیا۔
بڑھیا نے کہا کہ آگ جتنی چاہو لے لو لیکن میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں تم دہکتے ہوئے انگارے اٹھا کر لے جاسکو۔ اب کوّے کی قوت برداشت صاف جواب دے چکی تھی اور اسے یقین تھا کہ سرخ مرچوں سے بیج نکال نکال کر چڑیا کب کی تڑپ تڑپ کر مر چکی ہوگی۔ وہ جلدی سے واپس پہنچنا چاہتا تھا۔ اس نے بڑھیا سے کہا کہ کسی طرح دو انگارے میرے پھیلے ہوئے پروں پر رکھ دے تاکہ میں ایک اڑان میں لوہار تک جاپہنچوں۔ بڑھیا نے یہ سن کر دو دہکتے ہوئے انگارے کوّے کے پروں پر رکھ دیے اور وہ اڑان بھرنے کی کوشش میں اپنے دونوں پر جلا بیٹھا۔
تاجر یہ کہانی سنتے سنتے ایک اہم فیصلہ کرچکا تھا۔ اس نے نوجوان سے کہا کہ میں کوا نہیں بننا چاہتا اور آج سے تم میرے منشی نہیں بلکہ شریک کار ہو۔ میرے سرمائے میں اگر اب تک کوئی کمی تھی تو وہ صرف تمہارے جیسے ایماند ار ذہن کی۔ یہ کہہ کر اس نے نوجوان کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے پاس بٹھایا اور دونوں دوست بن کر رہنے لگے۔