عربی کی ایک دلچسپ کہاوت ہے کہ ’’عورت کو صرف ایک شوہر کی خواہش ہوتی ہے اور جب اسے شوہر مل جاتا ہے تو اسے ہر چیز کو حاصل کرنے کی تمنا اور خواہش ہونے لگتی ہے۔‘‘ یہ حقیقت ہے کہ بعض خواتین اپنے شوہروں سے ایسی چیزوں کا مطالبہ کرتی ہیں جن کو فراہم کرنا ان کی استطاعت سے باہر ہوتا ہے۔ اس قسم کے مطالبات سے مردوں کو غصہ آنے لگتا ہے، خاص طور سے جب کہ مرد کی آمدنی بھی محدود ہو۔ ان مطالبات کے سامنے مرد کا طرز عمل دو طرح کا ہوتا ہے یا تو وہ اپنی بے بسی کو محسوس کرتا ہے۔ ایسی صورت میں آدمی نفسیاتی طور پر خود کو تھکا ہوا محسوس کرتا ہے یا پھر وہ اپنی بیوی کی ضروریات پوری کرنے لگتا ہے۔ ایسی صورت میں جلد ہی وہ مقام آجاتا ہے جب شوہر کی اچھی باتیں اور بیوی سے اخلاق و محبت کا طرزِ عمل برے طرزِ عمل میں بدل جاتا ہے۔ کسی عربی شاعر نے اسی مفہوم کو اپنے شعر میں پرویا ہے:
إِنَّکِ إِنْ کَلَّفْتِنِیْ مَا لَمْ اُطِقْ
سَائَ کِ مَا سَرّکِ مِنِّیْ مِن خُلُقٍ
’’اگر تم مجھ پر میری طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالو گی تو میری اچھی باتیں بھی تمہیں بری لگنے لگیں گی۔‘‘
یہ معلوم حقیقت ہے کہ شوہر کا کریم النفس ہونا اور بیوی کا قناعت پسند ہونا، خاندانی اور گھریلو رشتوں کی حفاظت کرتا ہے۔ عورتیں دو قسم کی ہوتی ہیں: عورت کی ایک قسم وہ ہے جو ہمیشہ اپنے شوہر کے لیے مسائل پیدا کرتی رہتی ہے۔ دوسری قسم کی عورت وہ ہے جو نیک ہوتی ہے اور صبروقناعت کے وصف سے آراستہ ہوتی ہے۔ قناعت نہ کرنے والی اور اپنے مطالبات اور شاہ خرچیوں سے شوہر کو پریشان کرنے والی عورت کو حضرت معاذ بن جبلؓ نے ’’تونگری کے فتنے‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے، جس سے اہلِ ایمان کو ہوشیار رہنا چاہیے۔ حضرت معاذؓ فرماتے ہیں: ’’اگر تم لوگ تنگ دستی کے فتنے سے آزمائے گئے تو صبر کرنا۔ البتہ مجھے تم لوگوں کے سلسلے میں تونگری کے فتنے کا اندیشہ ہے۔ یعنی بیویوں سے، جو کہ سونے کے زیورات پہنتی ہیں، شام کی قیمتی چادریں استعمال کرتی ہیں اور یمن کی پیٹیاں استعمال کرتی ہیں۔ (اپنی ان شاہ خرچیوں سے) اپنے مال دار شوہر کو بے حال کردیتی ہیں اور غریب شوہر پر ایسا بوجھ ڈال دیتی ہیں جس کو وہ برداشت نہیں کرسکتا۔‘‘
حضرت معاذ بن جبلؓ کے اس قول سے مجھے اپنے ایک دوست کا ایک تبصرہ یاد آگیا جو ’’گاڑیوں‘‘ کے بارے میں بڑی معلومات رکھتا ہے۔ ایک بار اس کے ایک دوست نے ایک بڑے برانڈ کی بہت ہی قیمتی اور خوبصورت کار خریدنے کے سلسلے میں اس سے مشورہ طلب کیا۔ کار کیونکہ بہت مہنگی تھی اس لیے میرے دوست نے اس کار پر جو دلچسپ اور تبسم ریز تبصرہ کیا وہ یہ تھا کہ ’’یہ کارآزمائش میں ڈالنے والی بیوی کی طرح ہے کہ نہ تو تم اس کے اخراجات برداشت کرپاؤ گے اور نہ ہی اسے چھوڑ سکوگے۔‘‘ گویا وہ اپنے اس لطیف اور پُر مزاح انداز سے اس کو اسراف اور فضول خرچی کے فتنے سے آگاہ کرنا چاہ رہا تھا۔
اسی شاہ خرچ قسم کی عورتوں میں وہ بیویاں بھی آتی ہیں جو اس وقت تک اپنے شوہر کی محبت کو تسلیم نہیں کرتیں جب تک کہ وہ ان پر زرِ کثیر خرچ نہ کرے۔ چنانچہ بہت سی عورتیں یہ سوچتی ہیں کہ جب ان کا شوہر ان پر زیادہ خرچ کرے، اس کا مطلب ہے کہ بیوی سے اس کی محبت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اور جیسے وہ ان پر کم خرچ کرنے لگے یا خرچ نہ کرپائے تو وہ یقین کرنے لگتی ہیں کہ ان سے شوہر کی محبت کم ہورہی ہے یا روبہ زوال ہے۔
دوسری جانب صالح و نیک سیرت اور قانع و صابر بیویوں میں اس طرح کے خیالات نہیں پائے جاتے۔کیوںکہ نیک بیوی یہ بات اچھی طرح جانتی اور سمجھتی ہے کہ محبت کے مظاہر بہت ہیں۔ جیسے اچھی بات کہہ دینا، محبت کا اظہار کرنے والا سلوک اور برتاؤ، محبت سے دیکھنا، چپکے چپکے راز کی باتیں کرنا، ایک دوسرے کو چھونا، ایک دوسرے کے لیے پرجوش جذبات کا اظہار اور مناسب قیمت کے ہدیے اور تحفے دینا۔ اگرچہ ہمیں اس سے انکار نہیں ہے کہ بیوی پر خرچ کرنا اور اس کی ضروریات کے لیے اسے رقم دینا بھی محبت کی ایک دلیل اور علامت ہے لیکن محبت کی یہی واحد دلیل اور علامت نہیں ہے۔ نہ جانے کتنی ایسی عورتیں ملیں گی جو محلوں میں رہتی ہیں، ڈالر، دینار اور روپے ان کے ہاتھوں کا میل بنے رہتے ہیں لیکن ان کی ازدواجی زندگی ہمیشہ جھگڑے اور فساد کا شکار رہتی ہے۔
نیک اور صالح بیوی اپنے شوہر کے لیے آزمائش بننے سے بچتی ہے، بلکہ وہ ہمیشہ آ زمائشوں اور مشکلات میں اپنے شوہر کی مددگار ہوتی ہے کیونکہ ان تمام معاملات میں اس کا دین اور اس کی عقل و فہم اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اسی لیے وہ نہ تو اپنے بے جا مطالبات اور فضول خرچیوں سے اپنے شوہر کی طاقت و استطاعت سے زیادہ بوجھ اس پر ڈالتی ہے اور نہ ہی اپنی خواہشات اور آرزؤں کی تکمیل کے لیے اس کے کاندھوں پر قرض کا جوا لادتی ہے۔
اس سلسلے کے مثالی اور روشن نمونوں میں سے ایک نمونہ حضرت فاطمہ الزہرا بنت رسول اللہ ﷺ کا ہے۔ ایک بار حضرت فاطمہؓ اور ان کے شوہر حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کے یہاں فاقہ کشی کی نوبت آگئی۔ لگاتار تین دن کچھ کھائے بغیر گزر گئے۔ جب حضرت علیؓ نے دیکھا کہ حضرت فاطمہؓ کا چہرہ مبارک زرد پڑنے لگا ہے تو پوچھا کہ کیا بات ہے؟ فاطمہ! انھوں نے کہا: ’’تین دن سے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے۔‘‘ حضرت علیؓ نے کہا کہ ’’تو تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟‘‘ حضرت فاطمہؓ نے جواب دیا: ’’شب عروسی کے دن میرے والد یعنی اللہ کے رسول ﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ ’’اے فاطمہ! جب علی کوئی چیز لے کر آئے تو تم اسے کھا لینا، ورنہ اس سے طلب مت کرنا۔‘‘
بیوی کے حسن ادب اور حسنِ اخلاق و کردار میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ کھانے پینے کے معاملے میں بھی اعتدال سے کام لے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے بنی آدم! ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھاؤ پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (الاعراف: ۳۱)
عزیز بہن! یہ بات جان رکھیے کہ مرد اکثر ایسی عورت سے رغبت کم رکھتے ہیں جو بہت کھانے والی ہو۔ مرد اس کو عورت کا عیب شمار کرتے ہیں۔ یہ عیب عورت کے کام نہیں آسکتا خواہ وہ خوب صورت ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح کے لوگوں میں معبد بن خالد جدلی ہیں۔ آئیے ان کا بیان کردہ دلچسپ واقعہ ملاحظہ کیجیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’بنی اسد کی ایک لڑکی سے میرا رشتہ طے ہوا۔ عورتیں اس کے ارد گرد بیٹھی ہوئی تھیں۔ میں اس لڑکی کو دیکھنے کی غرض سے گیا۔ میرے اور اس لڑکی کے درمیان پردہ حائل تھا۔ اس نے ثرید (ایک قسم کا کھانا جو گوشت اور روٹی سے تیار کیا جاتا تھا) سے بھرا ہوا بڑا ڈونگا منگایا۔ اس لڑکی نے وہ پورا ڈونگا صاف کردیا۔ ہڈیوں پر گوشت نام کو بھی نہیں چھوڑا۔ پھر اس نے دودھ بھرا ہوا ایک بڑا برتن منگایا۔ وہ سارا دودھ پی گئی یہاں تک کہ برتن اس کے چہرے سے جالگا۔ یعنی بالکل خالی کردیا۔ پھر اپنی لونڈی سے بولی کہ ’’پردہ ہٹا دو۔‘‘ اچانک میری نظر اس پر بڑی تو میں نے دیکھا کہ وہ شیر کی کھال پر بیٹھی ہے۔ وہ ایک جوان اور خوبصورت لڑکی تھی۔ وہ مجھ سے گویا ہوئی: اے اللہ کے بندے! میں بنی اسد کی شیرنی ہوں۔ شیر کی کھال پر بیٹھی ہوں۔ میرا کھانا پینا تم نے دیکھ لیا۔ اب بتاؤ تمہارا میرے بارے میں کیا خیال ہے؟ اگر تم آگے بڑھ کر مجھے قبول کرنا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے اور اگر اپنے ارادے سے ہٹنا چاہتے ہو تو بھی ٹھیک ہے۔ میں نے کہا: ’’میں اس معاملے میں استخارہ کروں گا، اور دیکھوں گا کہ کیا کروں۔‘‘
معبد کہتے ہیں کہ ’’میں وہاں سے نکلا اور پھر واپس نہیں گیا۔‘