[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

صداقتوں کے پاسبان (قسط ۱۱)

سلمیٰ نسرین، آکولہ

گھر میں کہرام مچا تھا… یہ اچانک ہی کیا ہوگیا۔ ابھی تو وہ لوگ ایک خوشی بھی بھرپور طریقے سے نہیں مناسکے تھے…… اس وقت سب کے دلوں پر کیا قیامت گزرگئی تھی جب عباس بھائی نے امّی کو اپنی بانہوں میںلے کر کہا تھا ’’علی پر صبر کیجیے امی!‘‘

ہاجرہ بیگم پھٹی پھٹی نظروں سے انھیں دیکھنے لگی تھیں۔

’’آج ایک مسلمان ماں کا امتحان ہے امیّ‘‘ دوسری طرف سے حسن نے بھی انھیں تھام لیا تھا۔ ’’آپ کا لاڈلا آپ کو اللہ کے حضور سرخرو کرگیا—— علی پر صبر نہیں شکر کیجیے امّی!‘‘

’’آنکھ نہ اپنی بھرنے دینا لاش مری جب گھر آئے-

ہاجرہ بیگم کے کانوں میں علی کی گنگناتی آواز آئی۔ وہ اب بھی ساکت تھیں اور ٹکر ٹکر عباس بھائی اور حسن کو تکے جارہی تھیں…

’’سچ بتائیے امی! اگر میری خون میں لتھڑی لاش آپ کے سامنے لائی جائے گی تو کیا آپ میری موت پر آنسو بہائیں گی؟‘‘ انھیں علی کی آواز سنائی دی۔

’’بتائیے نا امی!‘‘ علی ان سے استفسار کررہا تھا۔ ’’کیا آپ میری شہادت پر آنسو بہائیں گی؟ آپ کو میری عظیم موت اور ہمیشگی کی زندگی سے خوشی نہیں ہوگی؟‘‘

…………………………

……………………………

’’الحمدللہ‘‘ ان کے لبوں سے نکلنے والا پہلا لفظ تھا۔ پھر عباس کے سینے سے لگ کر وہ رو پڑیں۔ ’’میرا بچہ۔‘‘

’’صبر امی صبر!‘‘ عباس اپنے آنسو پیتے ہوئے انھیں نرمی سے تھپک رہے تھے۔

’’میرا بھیا۔‘‘ ضحی چیخ پڑی تھی۔

’’ضحی، چلاؤ مت۔‘‘ حسن غصے سے پلٹا مگر ضحی سن نہیں سکی، وہ بے ہوش ہوکر گرپڑی تھی۔

حسن کا ضبط اپنی آخری حدوں کوچھورہا تھا۔ سب سے چھوٹے اور لاڈلے بھائی کی خون میں لتھڑی لاش کو دیکھنا بڑے دل گردے کا کام تھا۔ عباس بھائی بھی لال آنکھیں کیے خود پر بمشکل کنٹرول کیے ہوئے تھے۔ جب ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے لگا تو وہ عباس بھائی کو یہ کہہ کر کہ ’’میں تدفین کا انتظام کرتا ہوں‘‘ باہر نکل گیا۔

عمر نے جب سنا تو بپھر گیا۔

’’تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہ کہنے کی کہ علی مرچکا ہے۔‘‘ اس نے خبر دینے والے اپنے کزن ارسلان کی کالر پکڑ لی تھی۔ ’’علی میری زندگی ہے اگر میں زندہ ہوں تو وہ کیسے مرگیا۔‘‘ وہ ارسلان کو مسلسل تھپڑوں سے لال کررہا تھا۔

’’عمر‘‘ عباس بھائی اور عمّار فوراً اس کی طرف بڑھے اور اسے کھینچ کر ارسلان سے الگ کیا۔

’’رک جاؤ عمر۔‘‘ عباس بھائی نے اسے بازو سے پکڑا تھا۔

’’بھائی‘‘ وہ روپڑا۔ ’’ارسلان کہہ رہا ہے کہ علی مرچکا ہے۔ وہ تو مسجد گیا ہوا ہے۔ نماز پڑھ کر آجائے گا… ارسلان نے ایسا کیوں کہا، میں اس کا منہ توڑ دوں گا۔‘‘ وہ پھر بپھر کر ارسلان کی طرف جھپٹا۔ ارسلان پہلے ہی ادھ موا ہوگیا تھا۔

’’رک جاؤ۔‘‘ عباس بھائی نے اس کے بازو کو جھٹکا دے کر اسے روکا۔ اور چبا چبا کر مضبوط لہجے میں بولے : ’’وہ صحیح کہہ رہا ہے۔‘‘

عمر پتھر بن گیا۔… اور خالی خالی نظروں سے انھیں دیکھنے لگا۔

’’جھوٹ کہتے ہیں آپ۔‘‘ اچانک وہ چیخ اٹھا تھا۔

’’علی ابھی ہنستا مسکراتا مسجد سے لوٹے گا تو آپ سب کے منہ بند ہوجائیں گے… یہ علی اتنی دیر کیوں کررہا ہے۔‘‘ اس نے بے چینی سے دروازے کی طرف دیکھا۔

پھر علی نے دیر نہیں کی مگر وہ ہنستا مسکراتا ہوا بھی نہیں آیا۔ اس کی لاش لائی جاچکی تھی۔ رشتہ دار خواتین کی آہ و زاری سے سارا گھر گونج اٹھا۔

علی کی لاش دیکھ کر عمر بے قابو ہوگیا تھا۔ سب اپنا غم بھلا کر اسے سنبھالنے میں لگ گئے مگر وہ تو جیسے پاگل ہوا جارہا تھا۔

’’علی…‘‘ وہ حلق کے بل چیخ رہا تھا۔ بار بار علی کی لاش کی طرف جھپٹنے کی کوشش کرتا۔ سب اسے قابو کرنے میں لگے تھے مگر وہ سنبھالے نہیں سنبھل رہا تھا۔

ہاجرہ بیگم کا ضبط قابلِ دید تھا۔ منظر ایسا دل دہلادینے والا تھا کہ پتھر دل بھی ضبط کا دامن چھوڑ بیٹھے۔

’’عمر! بیٹے ایسے نہیں۔‘‘ انھوں نے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا۔ اور روتے ہوئے بولیں:

’’میری تربیت پر پانی نہ پھیرو عمر… علی شہید ہوا ہے… بیٹے ایسے موقعوں پر مغفرت کی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ اپنے بھائی کے لیے دعا نہیں کروگے…‘‘

انھوں نے عمر کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام کر کہا تو گویا اس کا دل ٹھہر سا گیا۔

’’وہ تو اپنی مغفرت کرواچکا ہے امی۔ اپنے ساتھ ستر لوگوں کو بھی جنت میں لے جائے گا۔‘‘ وہ شدت سے رو پڑا۔ اسے روتے دیکھ کر سب کے سینوں میں اٹکی ہوئی سانس خارج ہوئی …………

’’مجھ سے چھوٹا مجھ سے بازی مار گیا… وہ تو ہر کام مجھ سے پوچھ کر کیا کرتا تھا۔ اتنا بڑا کام مجھے بتائے بغیر کیسے کرلیا…‘‘ پھر شاید اس کا ذہنی توازن بگڑنے لگا تھا۔ کیونکہ اچانک ہی وہ چیخنے لگا تھا۔

’’علی … واپس آجاؤ علی… تم سے کہا تھا ناں ہر کام پوچھ کر کرنا…‘‘

عباس بھائی، عمار بھائی اور یحییٰ اسے سنبھال رہے تھے مگر وہ کنٹرول نہیں ہورہا تھا۔

حسن تدفین کا انتظام کرکے واپس لوٹا تو گھر کا منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔

’’یہ ہمارے گھر میں کیا ہورہا ہے؟‘‘ اس نے ٹھٹھک کر ناگواری سے ضحی کو دیکھا۔

’’بھائی! وہ کسی کے قابو میںنہیںآرہا۔‘‘ وہ روتے ہوئے بولی۔

حسن سخت طیش کے عالم میں آگے بڑھا، عمر، عباس بھائی وغیرہ کے ہاتھوں میں سنبھل نہیں رہا تھا۔

’’علی کو واپس آنا پڑے گا۔‘‘ عمر نفی میں سرہلاتے ہوئے چلا رہا تھا۔

’’یہ کیا کررہے ہو تم؟‘‘ حسن نے شدید غصے سے اسے ان تینوں کے ہاتھوں سے کھینچا اور ایک زبردست تھپڑ عمر کو رسید کردیا۔ عمر کی آواز بند ہوگئی تھی۔ بائیں گال پر ہاتھ رکھے وہ ششدر رہ گیا… مگراگلے ہی لمحے اس کا ذہن تاریکیوں میں ڈوبتاچلا گیا اور وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہوکر عباس بھائی کے ہاتھوں میں جھول گیا۔

٭٭

اسے دھیرے دھیرے ہوش آرہا تھا۔ نرس اسے ہوش میں آتے دیکھ کر تیزی سے باہر نکل گئی۔ عمر نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں۔ امی اس پر جھکی ہوئی تھیں اور ضحی پانی کا گلاس بھر رہی تھی۔ امی نے کچھ کہتے ہوئے اسے پانی پلایا… عمر سمجھ نہیں سکا۔ ابھی اس کا ذہن مکمل طور پر بیدار نہیں ہوا تھا۔

’’میں حسن بھیا کو دیکھتی ہوں۔‘‘ کہہ کر ضحی باہر چلی گئی۔

’’کیسی طبیعت ہے بیٹے؟‘‘ عمر نے کوئی جواب نہیں دیا خالی نظروں سے پہلے انھیں پھر آس پاس دیکھنے لگا۔

ضحی اور حسن آگئے تھے۔ حسن نے ڈرپ چیک کرکے اس کی نبض دیکھی۔

’’کیسا محسوس کررہے ہو ینگ مین۔‘‘ حسن نے اس کا گال تھپتھپا کر پوچھا۔ عمر نے اب بھی کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

’’میرا بھائی بہت بہادر ہے۔‘‘ ضحی نے عمر کے بال ہٹائے اور جھک کر اس کی پیشانی چومی۔

بیڈ پر لیٹے لیٹے عمر نے گردن گھمائی۔ امّی کا ستا ہوا چہرہ سامنے تھا۔

’’امی!‘‘ اس کے لبوں سے سسکی نکلی ’’علی میرا ساتھ چھوڑ گیا۔‘‘

اس کی آنکھوں سے آنسو گالوں پر پھسل پڑے… ضحی کو لگا شدتِ غم سے اس کا دل پھٹ جائے گا وہ چیخ مار کر رونا چاہتی تھی مگر حسن نے عمر کے سامنے رونے سے سختی سے منع کیا تھا۔ وہ مسلسل تین دن سے بے ہوش پڑا تھا۔ جب کبھی ہوش آتا، اس طرح تڑپ کر رونے لگتا کہ دیکھنے والوں کو اپنے دل پھٹتے محسوس ہوتے۔ سب جانتے تھے کہ باوجود اس کے کہ صبح سے لے کر شام تک لڑائی جھگڑے گھوریوں اور فقرہ بازیوں کا سلسلہ چلتا رہتا مگر دونوں ایک دوسرے سے محبت بھی بہت زیادہ کرتے تھے مگر اتنی دیوانگی کا علم کسی کو نہ تھا…… قیامت سب پر گزری تھی، آزمائش سب کی ہوئی تھی، مگر سب الحمدللہ اور انا اللہ کہہ کر خاموش ہوگئے تھے۔ علی کی شہادت پر ان لوگوں کو بے تحاشا مبارکبادیں ملی تھیں اور سب نے اسے خوشی خوشی وصولا بھی تھا۔ بس ایک ضحی تھی جو کبھی کبھی روپڑتی اور عباس بھائی کی خفگی پر سسکتے ہوئے کہتی: ’’میں رونا نہیں چاہتی بھائی مگر آنسو نکل پڑتے ہیں۔ علی بے شک زندہ ہے مگر ہم سے دور ہے اور وہی دوری و جدائی ہمیںخون کے آنسو رلاتی ہے…‘‘

’’السلام علیکم۔‘‘ عباس بھائی دروازہ کھول کر اندر آئے تو سب کی آنکھوں میں نمی نظر آئی۔ عمر اب بھی رو رہا تھا وہ اس کے بیڈ کے پاس اسٹول کھینچ کر بیٹھ گئے۔ انھوں نے جن جانچتی نظروں سے عمر کو دیکھا تھا اسے دیکھ کر اس کے آنسوؤں میں مزید روانی آگئی تھی۔

’’بھائی!… میرا علی…‘‘

’’ایک لفظ بھی مت کہنا۔‘‘ انھوں نے انگلی اٹھا کر تنبیہاً کہا ’’اگر ہم علی کی شہادت پر شکروصبر نہیں کرسکتے تو ہائے واویلا مچانے کا بھی ہمیں کوئی حق نہیں ہے۔ … آج مجھے پتہ چلا تم لوگ کتنے کمزور ہو۔ ایک میرا وہ شیر تھا جو کفار کے نرغے میں بھی نہ گھبرایا اور شہادت کا سب سے انمول و حسین تاج پہن کر پوری شان و شوکت سے آیا اور دوسرے تم ہو جو اس کی ہمیشگی کی زندگی، اس کے جنت کے حصول، اس کی مغفرت اور اس کی زندہ و جاوید رہنے کی خوشی منانے کی بجائے بس وقتی جدائی پر شور کررہے ہو۔‘‘

حسن نے آنسوؤں کا گولا نگلا۔ تین دن سے وہ مسلسل ضبط کیے جارہا تھا۔ کبھی کبھی دل چاہتا مردانگی کا زعم چھوڑ کر جی بھر کر رولے… مگر وہ کیسے رو سکتا تھا… مسلسل ضبط کیے کیے وہ اب تھکنے لگا تھا… دو موتی پلکوں سے گرنے کو بالکل تیار تھے اس نے سرجھکا کر غیر محسوس طریقے سے انگوٹھے اور انگلی کی پوروں سے انھیں جھٹکا۔

عباس بھائی نے اس کے شانے پر ہاتھ مارا۔

’’ہم سمجھتے تھے حسن ایک چٹان ہے۔ جسے توڑنا تو درکنار، کوئی اسے ہلکی سی ضرب یا خراش بھی نہیں لگا سکتا۔ ایسا آہنی وفولادی پہاڑ ہے جس کی ہمت، عزم و حوصلے کو بڑے سے بڑا طوفان بھی نہیں توڑسکتا… مگر……‘‘

انھوں نے اپنا ہاتھ اس کے شانے سے گرالیا…’’مگر سخت افسوس ہوا اپنے یقین و اعتماد کو پاش پاش ہوتے دیکھ کر… دعویٰ تو بہت تھا راہِ خدا میں جان لٹا دیں گے مگر جب اپنے کسی کی جان گئی تو ہم سے برداشت نہیں ہوا…… ہم لوگ صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہیں۔ بولنے میں کیا جاتا ہے، بڑی بڑی باتیں، بڑے بڑے دعوے… سارا جوش و ولولہ صرف زبان میں ہوتا ہے… علی ہم سب سے اچھا تھا۔ اس نے باتیں نہیں کیں، اس نے عمل کر دکھایا۔ وہ ہم سب سے چھوٹا تھا مگر اس نے ہم سب پر بازی مارلی، سب سے پہلے اس میدان میںکود پڑا۔ اپنے اس شہید مجاہد پر مجھے فخر ہے۔… علی کی شہادت کی خبر سن کر مجھے لگا تھا ابھی حسن مسرت و انبساط سے لبریز دل، اور خوشی سے جگمگاتے چہرے کے ساتھ مجھے بھائی کی شہادت پر مبارکباد دینے دوڑا چلاآئے گا مگر میں نے حسن کو اس حال میں دیکھا کہ وہ اپنے آنسو پینے کی کوشش کررہا تھا۔‘‘ عباس بھائی نڈھال لگ رہے تھے۔

حسن نے سر اٹھا کر انھیں دیکھا … علی کی شہادت کی خبر سن کر اسے بالکل ایسی ہی خوشی ہوئی تھی جیسے کسی شخص کو طویل انتظار کے بعد پہلی اولاد کی پیدائش پر ہوتی ہے۔ اس کے دل کی بھی وہی حالت ہوئی تھی جو عباس بھائی نے بیان کی تھی۔ مگر جب وہ اس سے ملے تب تک حسن علی، کو دیکھ چکا تھا اور اس ناگہانی حادثے نے بہرحال اس پر اثرڈالا تھا، اپنے لاڈلے بھائی کو لاش کی صورت میں دیکھ کر فطری طور پر اس کی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔

’’جب مسلمان نوجوان اپنے شہیدوں پر رونے لگے تو خود کو کیسے اس پر خطر میدان میں ڈالے گا۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر ہم میں سے کوئی شہید ہوتا تو علی ہرگز ہرگز نہیں روتا۔ وہ تو خوشی کے مارے اچھلتا کودتا پھرتا کہ اللہ نے اس کے بھائی کو شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز فرمایا ہے… وہ واقعی عظیم تھا۔ اس کے اندر شہادت کی سچی تڑپ تھی تبھی تو اللہ نے اسے نوازدیا۔ ہم سب سے چھوٹا ہم سب سے بڑا بن گیا۔ اللہ کی کتاب اور اس کے گھر کی حرمت پر قربان ہوگیا…… میرا شہید، میرا شیر، میرا علی……‘‘

’’وہ میرا سب سے پیارا بچہ تھا۔‘‘ امی کی آنکھیں بھر آئیں۔

’’امی!‘‘ عباس بھائی اٹھ کر ان کے پاس چلے آئے۔

’’حضرت خنساءؓ کے چار بیٹے تھے۔ اور انھوں نے اپنے چاروں لاڈلوں کو راہِ خدا میں قربان کردیا تھا…… اللہ نے آپ کو بھی چار بیٹے دیے ہیں۔ مگرآپ صرف ایک بیٹے کی شہادت سے ہی دلگرفتہ ہوگئی ہیں تو اپنے بقیہ بیٹوں کی لاشوں کو دیکھنے کا جگر و حوصلہ کہاں سے لائیں گی……؟‘‘

’’اللہ وہ وقت جلد لائے کہ میں اپنے بہادروں کو شہید ہوتے دیکھوں… اللہ کی قسم! یہ دل گرفتگی علی کی شہادت پر ہر گز نہیں ہے۔ اس کے لیے تو میں اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے… میرا بچہ مجھے اللہ کے حضور سرخرو کرگیا۔ وہ بھی مجھ سے کہتا تھا کہ میں شہید ہوجاؤں تو میری موت پر آنسو مت بہائیے گا۔ اللہ گواہ ہے یہ صرف اور صرف شکریے کے آنسو ہیں۔‘‘

’’الحمدللہ…… ہم اللہ کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمیںآپ جیسی ماں دی۔‘‘ وہ امّی کو پر محبت نظروں سے دیکھتے ہوئیے کہہ رہے تھے۔ ’’مجاہدین کی مائیں روتی ہوئی اچھی نہیں لگتیں ان پر تو بس صبر و شکر ہی جچتا ہے۔‘‘

انھوں نے رخ موڑ کر ضحی کو دیکھا۔ روتے روتے اس کا شفاف رنگ سرخ ہوچلا تھا۔

’’تمہیں پتہ ہے؟ میں اپنے حلقۂ احباب میں ہمیشہ کہتا رہتا ہوں کہ مجھے اپنی اکلوتی بہن پر فخر ہے۔ میری گڑیا بہت بہادر، نیک کردار، بولڈ اور خود اعتماد ہے…… دین کی خاطر کچھ کر گزرنے کا جذبہ رکھتی ہے۔ بلکہ وقت پڑا تو وہ اپنی جان دینے کے لیے بھی تیار رہے گی ، ان شاء اللہ…… وہ اپنے اندر بڑے سے بڑا زخم سہنے کی ہمت رکھتی ہے۔ مجھے بتاؤ ضحی! کیا میرا یہ یقین جھوٹا ہے؟‘‘

’’ہرگز نہیں۔‘‘ وہ تڑپ کر فوراً بولی: ’’مجھ پر آپ کا یہ یقین، یہ اعتماد بالکل سچا ہے بھائی۔ میں آپ کے فخر و یقن کو ٹوٹنے نہیں دو نگی نہ آپ کا اعتماد مجروح ہوگا۔‘‘ اس نے اپنے آنسو آنکھ رگڑ کر پونچھ ڈالے۔ ’’آپ کی بہن بالکل ویسی ہے جیسا آپ نے کہا۔ علی تو وہ کام کرگیا ہے کہ اس پر جتنی بھی خوشیاں منائی جائیں کم ہیں۔‘‘

’’یہ ہوئی نا بہادروں والی بات… اب لگ رہا ہے کہ تم مجاہدین کی بہن ہو۔‘‘ انھوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔

پھر عمر کی طرف پلٹے۔ وہ آنسو روکنے کی بہت کوشش کررہا تھا مگر ناکام تھا۔

’’بھائی!‘‘ وہ سسکا۔ ’’میرا دکھ کم نہیں ہوتا۔‘‘

’’تم …‘‘ عباس بھائی طیش میں آکر بولے۔ ’’تم انتہائی بزدل ہو۔ مجھے کہہ لینے دو کہ میرا صرف ایک بھائی تھا جو مردِ مومن کہلانے کا حق دار تھا۔ اگر علی کی جگہ تم شہادت کی بجائے عام موت بھی مرجاتے تو علی صبر کرلیتا…… تم یہاں بیٹھے عورتوں کی طرح ٹسوے بہارہے ہو۔ میدانِ عمل میں کونسا کارنا مہ انجام دو گے؟…… تم سے کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی……‘‘

وہ غصے سے اٹھے اور تیزی سے دروازہ کھول کر باہر نکل گئے۔

’’بھائی میری بات سنیں۔‘‘ عمر گھبرا اٹھا۔ پھر انتہائی عجلت میں کلائی پر لگی سوئی کو کھینچ کر پھینکا اور تیزی سے باہر کی طرف لپکا۔

’’عمر…‘‘ حسن نے کھڑے ہوکر اسے روکنا چاہا۔ مگر وہ باہر نکل چکا تھا۔

عباس بھائی کاریڈور میں تیزی سے گزر رہے تھے۔ عمر کی آواز سنائی دی تو وہ چونک کر پلٹے وہ دوڑتے ہوئے ان کی طرف آرہا تھا۔

’’ارے عمر!‘‘ انھوں نے متوحش ہوکر اس کی کلائی کو دیکھا جو ڈرپ لگانے سے سوج گئی تھی اور اب اس سے خون رسنے لگا تھا۔

’’بھائی…‘‘ اس نے ان کے بازوؤں کو تھام کر کہا ۔

’’خدا را بزدلی کاطعنہ نہ دیں۔‘‘ اس کے لہجے میں آنسوؤں کی آمیزش تھی۔

’’اللہ کی قسم میں اس بہادرکا بھائی ہوں جس نے اللہ کے گھر میں کفار کے نرغے میں اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرکے بڑی دلیری و شوق سے جامِ شہادت پیا تھا…… میں اسی دلبر و جرأت مند کا بھائی ہوں، میں بزدل نہیں ہوسکتا۔ آپ سے میرا پکا وعدہ ہے بھائی! آج کے بعد آپ میری آنکھوں میں علی کے لیے آنسو نہیں دیکھیں گے۔‘‘ اس نے اپنے آنسو پونچھ لیے ’’اور یہ ایک مردِ مومن کا وعدہ ہے۔ آپ کو بھائی کی شہادت بہت بہت مبارک ہو۔‘‘ وہ ان سے لپٹ گیا۔

’’تمہیں بھی بہت بہت مبارک ہو۔‘‘ وہ اسے سینے میں بھینچتے ہوئے کہہ رہے تھے۔

عمر جب ان سے الگ ہوا تو اس کی آنکھیں خشک تھیں بالکل خشک۔

’’ایک خوشخبری سناؤں؟…… تم علی کی جدائی سے ملول تھے نا… اللہ نے تمہیں دوسرا علی دیا ہے تم سے پورے پندرہ سال چھوٹا۔‘‘ عمر حیرت وخوشی کے مارے گنگ رہ گیا۔

’’بھابھی کہاں ہیں؟‘‘ اس نے خوشی سے سرشار لہجے میں پوچھا۔

’’اسی ہاسپٹل میں… اس کمرے میں۔‘‘ انھوں نے روم نمبر ۲۵ کی طرف اشارہ کیا۔

عمر بڑی بے صبری و بے قراری سے اس کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

حسن عمر کے پیچھے ہی نکل آیا تھا۔ عمر کے وہاں سے ہٹنے کے بعد عباس بھائی، حسن کی طرف متوجہ ہوئے۔ ’’تم خفا تو نہیں ہو؟‘‘

’’جی نہیں۔‘‘ اس نے نفی میں سرہلایا۔ ’’عمر کو یہ ڈوز دینا بہت ضروری تھاورنہ وہ علی کی شہادت پر صدمہ لے لیتا۔‘‘

عباس بھائی نے اثبات میں سرہلاتے ہوئے روم نمبر ۲۵ کی طرف دیکھا جہاں عمر داخل ہورہاتھا۔ عمر نے دستک دے کر دروازہ کھولا۔ سامنے ہی خالہ جان اور امّی نظر آئیں۔ بھابھی بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھی تھیں۔ ان کے سوگوار چہرے پر ممتا کی چمک تھی۔ ان کے پہلو میں ایک گل گوتھنا سا بچہ کمبل میں لپٹا ہوا تھا۔ عمر نے لپک کر اس بچے کو اٹھا لیا اور بغور اسے دیکھنے لگا۔ اس کانقشہ ہو بہو علی جیسا تھا یا کم از کم اسے لگ رہا تھا۔ اس نے جھک کر اس کے پھولے پھولے گالوں کو چوم لیا۔ ’’مبارک ہو بھابی۔‘‘

’’تمہیں بھی۔‘‘ وہ ہلکا سا مسکرا کر بولیں۔

’’یہ کب آیا ہے؟‘‘ عمر نے اس کے گال کو چھوتے ہوئے پوچھا۔

’’جس دن علی گیا……‘‘ انھوں نے سوگوار لہجے میں کہا ’’اسی رات……‘‘

عمر ٹکر ٹکر اسے دیکھے جارہا تھا، جب سے انھوں نے بھابی کی خوشخبری سنی تھی تب سے وہ اور علی بہت خوش تھے۔ علی کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ ’’دیکھ لیجیے عمر بھائی! اب ہم سے چھوٹا بھی کوئی آرہا ہے جس پر ہم حکم چلاسکیں گے۔‘‘ علی گردن اکڑا کر کہتا ’’اور وہ مجھ سے ایک دو گھنٹے نہیں پورے پندرہ سال چھوٹا ہوگا۔‘‘ عمر کی آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا۔

’’یہ ہمارا علی ہے عمر…‘‘ بھابی دھیمے سے بولیں ’’ہم اسے بالکل اپنے علی کی طرف بنائیں گے نڈر، مجاہد اور غازی۔‘‘

’’اور شہید بھی۔‘‘

’’ان شاء اللہ‘‘ بھابی اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولیں تھیں۔

’’اس کا نام؟‘‘ اس نے بھابی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

’’تم بتاؤ۔‘‘

’’ابوبکر۔‘‘ عمر نے بچے کو چومتے ہوئے کہا۔ ’’علی کو بھی یہ نام بہت پسند تھا۔‘‘

گھر میں ایک محسوس کیا جانے والا سناٹا رہنے لگا تھا۔ حتیٰ کے عمر بھی جو ہر وقت صرف ہنسنا ہنسانا جانتا تھا سنجیدگی کی گہری چھاپ چہرے پر لگائے پھرتا۔ گھر بھر میں عمر اور علی کے چہچہانے اور شرارتوں سے رونق لگی رہتی تھی جو کبھی کبھی ضحی بھی ان کے ساتھ ہوجایا کرتی تو ان کی شرارتوں کا مزہ دوبالا ہوجاتا۔ مگر علی کی شہادت کے بعد اس گھر کے درودیوار نے کوئی بے فکرا قہقہہ یا کھنکتی ہوئی ہنسی نہیں سنی تھی۔ گھر کے سبھی افراد روز مرہ کے کاموں میں لگے رہتے۔ سب لوگ حسبِ معمول تھے مگر عمر اور ضحی بالکل چپ ہوگئے تھے۔ گویا بولنے کے لیے اب کچھ بھی باقی نہ بچا تھا۔

عمر اور ضحی کے ایگزام ہونے والے تھے مگر دونوں کتابوں کی طرف نگاہِ غلط بھی نہیں ڈالتے تھے۔ کبھی بھابی کبھی عباس بھائی اور کبھی امّی دونوں کو سمجھا بجھا کر کبھی ڈانٹ ڈپٹ کر پڑھائی کی طرف دھیان دینے کی تلقین کرتے۔ اس وقت بھی عباس بھائی کے خفا ہونے پر عمر دل کو بمشکل راضی کرکے پڑھائی کرنے بیٹھا تھا۔ کچھ دیر بعد امّی نے کمرے میں جھانکا تو وہ انھیں اسٹڈی ٹیبل پر سر ٹکائے بیٹھا نظر آیا۔

وہ اس کی کرسی کے پاس آئیں اور آہستگی سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ عمر چونک کر سیدھا ہو بیٹھا۔ ’’تم پڑھ نہیں رہے ہو؟‘‘

عمر نے نگاہیں جھکالیں۔

’’بیٹے ایسا کب تک چلے گا؟‘‘ انھوں نے ملائمت سے کہا۔ وہ نڈھال لہجے میں قدرے بے بسی سے بولا: ’’میں پڑھنے کے لیے کتاب کھولتا ہوں تو صفحے پر الفاظ کے بجائے علی کی شکل دکھائی دینے لگتی ہے۔‘‘ اس نے پریشانی سے اپنے سر کو دبایا۔

’’مجھے اکیلے پڑھنے کی عادت کب ہے امّی؟‘‘

عمر کی آنکھیں خشک تھیں۔ مگر اس کے اندازِ بے بسی پر ان کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھرنے لگی تھیں۔ ان سے کچھ کہا نہیں گیا تو وہ وہاں سے ہٹ گئیں۔

ضحی کو جہاں تنہائی میسر آتی وہ رونا شروع کردیتی تھی۔ ان سب کی خاص طور پر بھابھی کی کوشش یہی ہوتی کہ اسے ایک منٹ کے لیے بھی اکیلا نہ چھوڑیں۔ علی کی شہادت کے بعد کوئی رات ایسی نہیں گزری کہ ضحی روئے بغیر سوئی ہو۔ وہ روتے روتے ہی سوتی تھی۔ اکثر امی نے رات کو بھی دیکھا تھا کہ نیند میں بھی اس کی ایک آدھ سسکی نکل جاتی تھی۔

دن تو وہ بھی جیسے تیسے سب بچوں کے سامنے ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزار دیتی تھیں، کیونکہ انھیں معلوم تھا جہاں ان کے ہاتھ سے ضبط کا دامن چھوٹا وہیں وہ سب بھی حوصلہ چھوڑ بیٹھیں گے اور عمر و ضحی جو سب کی ڈانٹ ڈپٹ سن کر خود پر کنٹرول پانے کی کوشش کرتے ہیں وہ بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیں گے۔ مگر رات گویا ان کا امتحان لینے آتی تھی۔ علی کی پیدائش سے لے کر اس کی شہادت تک کے سارے مناظر ان کی نظروں میں گویا فلم کی مانند چلتے تھے۔ ننھا سا علی اس وقت صرف دو ماہ کا تھا جب وہ ان کی گود میں ڈالا گیا۔ اس کی معصومانہ باتیں، جذبوں، عزم و حوصلے سے بھرے اس کے بلند ارادے، بچپن سے اس کی شہادت کی آرزو، ہر بات میں ماں باپ اور اللہ کی رضا ڈھونڈنا، اس کی بہادری، اس کی بے باکی، اس کی اک اک بات یا دآتی جاتی اور آنسو اپنا باندھ توڑ کر گالوں پر پھسلتے جاتے۔ ایسے میں صرف اللہ کا ذکر اور اس کی یاد ہی ہوتی جس سے انھیں صبر نصیب ہوتا۔

اس رات بھی ضحی روتے روتے ہی سوئی تھی۔ آدھی رات کے قریب پیاس کی شدت سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ حلق میں کانٹے چبھتے محسوس ہورہے تھے۔ پانی پینے کے خیال سے وہ کچن میں چائے کے لیے اٹھی۔زیرو بلب کی روشنی میں اس نے دیکھا، امّی نماز پڑھ رہی تھیں۔ سجدے میں ان کا جسم ہچکیوں سے ہولے ہولے لرزرہا تھا…

’’تو یہ ہے امّی کے صبر کا راز۔‘‘

اس نے عقیدت سے ماں کو دیکھا اس کی آنکھیں گیلی ہونے لگیں۔

پانی پی کر وہ بھی وضو کر آئی اور امی کے برابر مصلی بچھا کر اللہ کے حضور کھڑی ہوگئی کہ صبر کے سوا چارہ نہ تھا اور صبر صرف اللہ کے ذکر سے ہی مل سکتا تھا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں