ہارون رشید بڑا جلیل القدر حکمراں تھا اور اچھے بھلے آدمیوں میں سے تھا وہ بڑی شان سے حکومت کرتا تھا۔ اُس وقت ایک بہت بڑے بزرگ تھے نام شقیق بلخی تھا۔ ایک بار اتفاق ایسا ہوا کہ ہارون رشید سے ان کی ملاقات ہوگئی۔ حضرت شقیق ملے تو ہارون رشید نے پوچھا۔ آپ ہی اس دور کے زاہد ہیں؟ جواب ملا۔ میں تو شقیق ہوں۔ ہارون رشید کو احساس ہوا اس نے غلط سوال کیا ہے۔ کچھ وقت کے بعد ہارون نے کہا۔ حضرت والا کچھ نصیحت کیجیے میں اپنے پلّے باندھ رکھوں۔ فرمایا: تو حکومت کرتا ہے تو ایک بات کا خیال رکھ تجھے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی جگہ بٹھایا گیا ہے تجھ میں معاملہ فہمی تدبر اور سچائی ہونی چاہیے۔ تجھے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی جگہ بٹھایا گیا ہے اس لیے تجھ میں عدل ہونا چاہیے جیسا کہ ان میں تھا۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے آخر میں حضرت شقیق نے فرمایا: چشمے سے نہریں نکلتی ہیں اور ہر طرف پھیل جاتی ہیں۔ سمجھ لے تو چشمہ ہے اور تیرے نائب اور عہدے دار نہریں ہیں یاد رکھ اگر چشمہ صاف ہوگا تو نہریں بھی صاف ہوں گی۔ ہارون نے دعا مانگی خداوند مجھے ان نصیحتوں پر عمل کی توفیق عطا فرما۔
ایک بارہارون بیمار ہوا تو شہر طوس میں آٹھہرا۔ آخر وقت بستر پر پڑا ہوا تھا۔ موت کے آگے سب بے بس ہوجاتے ہیں۔ بادشاہ ہو یا فقیر، عالم ہو یا جاہل سب کو ایک دن یہاں سے جانا ہے۔ ہارون نے اپنے محل میں ایک جگہ پسند کی ۔ اور حکم دیا کہ اس جگہ میری قبر تیار کی جائے اور کلام اللہ کے حافظ بلوالیے گئے ان سے کہا گیا کہ خلیفہ کی آرزو ہے کہ آپ لوگ ان کے پاس بیٹھ کر قرآن پڑھو حافظوں نے اس کے پاس بیٹھ کر قرآن پڑھا۔ ہارون رشید نے دیکھا تو اُس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ دنیا سے اٹھ جانے کا وقت قریب آتا گیا تو ہارون زیادہ سے زیادہ توبہ اور استغفار میں مصروف ہوگیا۔ ایک موقع پر اس نے اپنے کچھ خاص خاص لوگوں کو بلایا ان سے باتیں کیں پھر کہا۔ لوگو! گواہ رہنا کہ میں اللہ پر ایمان رکھتا ہوں اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا دل سے قائل ہوں۔ میری تو زندگی اس معنی میں بڑی خراب رہی ہے میں بہت سی نیکیوں سے دور رہا۔ تاج و تخت حکومت و اقتدار کے باوجود میرا کیا حال رہا ہے میں تم سے کہہ نہیںسکتا۔ دنیا سمجھتی ہے کہ میرے لیے تو زندگی پھولوں کا بستر تھی لیکن نہیں میں تو اکثر کانٹوں کے بستر ہی پر رہا۔ کاش مجھے حکومت اور اقتدار نہ ملتا۔ اللہ مجھے معاف کرے میری کمزوریوں سے درگزر فرمائے۔ اب موت میرے سامنے منہ کھولے کھڑی ہے۔ یہ قبر جو تم دیکھتے ہو مجھے ہڑپ کرلے گی۔ میرا جسم جو مٹی سے بنا ہے مٹی میں مل جائے گا۔ پھر ہارون نے کہا: ہر انسان کو آخر کار اس منزل پر آنا پڑتا ہے۔ انسان نہ جانے دنیا کی چند روزہ زندگی میں کیوں اپنے انجام سے غافل رہتا ہے؟ عزیز دوستو! میں دنیا کو الوداع کہتا ہوں مجھے اپنی زندگی پر افسوس ہے اور میں بارگاہِ الٰہی میں رجوع ہوتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں تم لوگ گواہ رہنا۔ جو آیا ہے اُسے جانا ہے باقی رہنے والی ذات تو بے شک اللہ تعالیٰ ہی کی ہے… جو لوگ خوف خدا رکھتے ہیں اور اقتدار کو امانت سمجھتے ہیں اُن کے نام دنیا میں باقی رہ جاتے ہیں۔