کسی میدان میں بچے کھیل رہے تھے۔ کھیلتے کھیلتے بچوں کی نظر زمین پر گری ہوئی کھانے کی چیزوں پرپڑی۔ بچوں نے بے خبری میں اٹھا کر کھالیں۔ ذرا سی دیر میں بچوں کی حالت بگڑنے لگی۔ تشویشناک حالت میں اسپتال لے جایا گیا۔ گندی اشیاء نے ان کے نظام ہضم کو متاثر کیا تھا۔ اس ذرا سی غفلت نے بچوں کے جسم میں زہر گھول دیا۔ شکر ہے کہ بروقت تشخیص ہوگئی اور زندگیاں بچالی گئیں۔
ظاہری خوراک میں لاپروائی کے اثرات تو جسم پر کسی نہ کسی طرح ظاہر ہو ہی جایا کرتے ہیں، لیکن اخلاقی بدپرہیزی کے اثرات تواس طرح سرایت کرتے ہیں کہ بعض اوقات ابدی ہلاکت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اخلاقیات کو بیمار کردینے والے جرثوموں میں خود پسندی بھی ایک جرثومہ ہے جو بڑی خاموشی سے مزاج کو تبدیل کردیا کرتا ہے۔ اور اگر وقت پر تشخیص نہ کرلی جائے تو اس کا زہریلا پن پورے کردار کو کھوکھلا کرکے رکھ دیتا ہے۔
جو لوگ کسی ایسے منصب پر ہوں جہاں شہرت و ناموری ملتی ہو، وہاں اس مہلک جرثومہ کے نشو ونما پانے کے خوب مواقع ہوتے ہیں۔
شخصیت کا غرور اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتا ہے جب فی الواقع وہ انسان شکل، صورت، علم، مرتبے، لباس، وضع قطع کے معاملے میں دوسروں سے ممتاز بھی دکھائی دیتا ہو۔ اللہ کے حبیب ﷺ نے اس موذی مرض سے بچانے کے لیے قبل از وقت کچھ احتیاطی تدابیر بتائی ہیں۔ بہترین خیر خواہی یہ ہے کہ اپنے ساتھی کو خود پسندی کے مرض میں مبتلا ہونے سے بچایا جائے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: تو نے اپنے بھائی کی پیٹھ توڑ دی جب تونے اپنے بھائی کی تعریف میں مبالغہ کیا۔ یا دوسروں سے تقابل کرکے تو نے اُس کو برتری کا احساس دلایا۔ بعض اوقات تحریر و تصنیف، عمدہ خطابات یا تعلیمی اسناد دلوں میں شیطان داخل ہونے کا راستہ بن جاتی ہیں۔ ان سے شہرت اور ستائش ملتی ہے، لوگوں کی تحسین بھری نگاہیں ملتی ہیں تو دل میں خوشی و مسرت کے جذبات انگڑائیاں لینے لگتے ہیں۔
ایسے میں حضور ﷺ نے تنبیہ کی: ’جو علم اس لیے سیکھے تاکہ علما سے کج بحثی کرے، کم عقلوں سے مناظرہ کرے، اور لوگوں کے دل اپنی طرف مائل کرے تو اللہ اسے جہنم میں داخل کرے گا۔
خود پسندی کا جذبہ اگرچہ دل کو فرحت دے رہا ہوتا ہے لیکن افسوس یہ کہ اس سے ترقی کے دروازے بند ہوتے جاتے ہیں۔ نیک اعمال میں اخلاص نہیں رہتا اور انسان اللہ کی ناراضی …………‘‘