سورۃ الشعراء کی آیت نمبر ۸۰ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور جب میں بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ہمیں صرف زندگی ہی نہیں دی بلکہ زندگی بسر کرنے کے تمام لوازم بھی عطا فرمائے۔ اس کی عنایات کا شمار اور اس کے کرم کا حساب ممکن نہیں۔ جیسا کہ قرآن کریم میں سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر ۳۴ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اگر ان کو شمار کرنے لگو تو شمار میں نہیں لاسکتے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے جہاں اور کئی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان میں صحت اور تندرستی سب سے بڑی نعمت ہے جو انسانوں کو عطا کی گئی ہے۔ اس کی موجودگی اللہ کا بڑا احسان ہے اور بیماری کی صورت آزمائش اور تکلیف کا باعث ہے اور ایسے وقت میں انسان اس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ اسے تسلی دی جائے اور اس کے لیے خاص طور پر دعائے صحت کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے بیمار کی عیادت کرنے کے بارے میں بڑی تاکید کے ساتھ ہدایات دی ہیں۔ اور اہلِ ایمان پر دوسرے صاحبِ ایمان کا یہ فرض بتایا ہے کہ بیماری کی حالت میں وہ اس کی عیادت کرے۔
ایک مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی بیماری کی حالت میںمزاج پرسی کرے۔ جو شخص اپنے بیمار بھائی کی عیادت نہیں کرتا وہ اپنے دینی فرض سے کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس کی عیادت، اللہ تعالیٰ سے محبت کا تقاضا ہے۔ جو شخص مریض کی بیمار پرسی کرتا ہے وہ اللہ سے محبت کرتا ہے اور اللہ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کے بندوں سے پیار کیا جائے جو اللہ سے محبت کرتا ہے وہ اس کے بندوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ قیامت کے روز اللہ فرمائے گا: ’’اے آدم کے بیٹے! میں بیمار پڑا تھا اور تو نے میری عیادت نہ کی۔‘‘ بندہ کہے گا: ’’اے پروردگارِ عالم! تو ساری کائنات کا رب ہے بھلا میں تیری عیادت کیسے کرتا۔‘‘ اللہ کہے گا: ’’میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو نے اس کی عیادت نہیں کی اگر تو اس کی عیادت کرتا تو تو مجھے وہاں پاتا۔‘‘
آپؐ نے عیادت کو ایک فریضہ سمجھا اور اپنے بدترین دشمنوں کی بھی عیادت کی، انہیں حوصلہ دیا، مشورہ دیا اور ان کے دلوں میں اللہ کی رحمت کی جوت جگائی۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جس نے اپنے مسلمان بھائی کی بیمار پرسی کی وہ جنت کے بالا خانے میں ہوگا۔ حضورﷺ بیماروں کی عیادت کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے، اس لیے بیمار کی عیادت کرنا سنتِ رسول ہے۔ آپؐ مریضوں کی صحت یابی کے لیے اللہ سے دعا کیا کرتے تھے۔ خصوصاً جب کسی مریض کی عیادت کے لیے جاتے تو خود بھی اس کی صحت کے لیے دعا کرتے اور دوسروں کو تاکید فرماتے کہ وہ بھی اپنے بیمار بھائی کی صحت یابی کے لیے اللہ سے دعا کریں۔
بنی نوع انسان کی ہمدردی اور خیرخواہی جہاں نبی اکرمﷺ کی تعلیمات کا اصل الاصول ہے، وہیں آپؐ کی زندگی خدمتِ خلق کا بہترین نمونہ تھی۔ آپؐ دوسروں کو تکلیف اور بیماری میں دیکھ کر بے چین ہوجاتے تھے۔
ان کی مدد کرتے اور بیماروں کی عیادت فرماتے تھے۔ ارشادِ نبویؐ ہے:
’’صحیح معنی میں مسلمان کہلانے کا حق دار وہی شخص ہے جو دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہو۔‘‘ جو لوگ آپس میں محض اللہ کے لیے محبت، پیار، اخوت، بھائی چارہ اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں بیماروں کی مزاج پرسی کرتے ہیں اور ان کے لیے صحت اور تندرستی کی دعا کرتے ہیں وہ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ایک دوسرے کے دوست اور مددگار ہوں گے۔