۔ بہو کو اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ ساس نہ
جو شخص اللہ سے دعا نہیں مانگتا اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے۔ سورہ الاعراف کی آیت ۵۵ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑگڑا کے بھی اور چپکے چپکے بھی۔‘‘
مذکورہ آیتِ کریمہ میں یہ تلقین کی گئی ہے کہ اللہ پاک سے آہ و زاری اور خفیہ طریقے سے دعا کی جائے، حدیث پاک میں ہے کہ ’’اے لوگو! اپنے نفس کے ساتھ نرمی کرو یعنی آواز پست رکھو کیونکہ جس کو تم پکار رہے ہو وہ تمہاری دعائیں سننے والا اور قریب ہے۔‘‘
دعا مانگتے وقت دوسری احتیاط یہ کرنی چاہیے کہ دعا میں زیادتی نہ کی جائے۔ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے اگر کوئی یہ دعا کرے کہ وہ زندہ رہے تو یہ دعا قبول نہ ہوگی۔
دعا کے بارے میں سورہ البقرۃ کی آیت ۱۸۶ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’ اے نبی! جب آپ سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو کہہ دیجیے کہ میں تو تمہارے پاس ہوں جوبھی کوئی پکارنے والا پکارتا ہے یعنی دعا کرتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں لوگوں کو بھی چاہیے کہ میری بات قبول کریں۔‘‘
حدیث میں بھی دعا کی ضرورت اہمیت اور فضیلت کا ذکر بڑی خوبصورتی سے آیا ہے۔ دعا عبادت کا مغز ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ پاک سے دعا نہیں مانگتا اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اخلاص اور یکسوئی کے ساتھ پکارنے اور اس سے اپنی حاجت روائی کے طلب گار ہونے کو ہی دعا کہتے ہیں۔
حضرت آدمؑ کو اللہ تعالیٰ نے خود یہ دعا سکھائی۔ سورہ الاعراف :۲۳ میں ارشاد ہوا: ’’اے ہمارے رب! ہم نے اپنے اوپر ستم کیا اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا تو یقینا ہم تباہ ہوجائیں گے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کی یہ دعا منظور کی اور انہیں معاف کردیا۔ حضرت یونسؑ نے مچھلی کے پیٹ میں یہ دعا کی : نہیں ہے کوئی معبود تیرے سوا مگر توہر عیب و کمزوری سے پاک ہے تیری ذات بے شک، میں نے قصور کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دعا قبول فرمائی اور وہ زندہ سلامت مچھلی کے پیٹ سے باہر آگئے۔ ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے باوجود جب قوم کی اکثریت نے حضرت نوحؑ کی تکذیب ہی کی اور انھوں نے محسوس کرلیا کہ ان کے ایمان لانے کی کوئی امید نہیں تو انھوں نے اپنے رب کو پکارا: ’’اللہ میں مغلوب ہوں، میری مدد فرما۔‘‘ چنانچہ نوحؑ کی دعا اللہ نے قبول فرمائی اور ان کی قوم کو طوفان بھیج کر تباہ کردیا۔
مسلمانوں سے کہا گیا کہ تم یوں دعا کیا کرو: ’’اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائیں ان پر گرفت نہ کر۔ اے مالک! ہم پروہ بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے، پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرماء، ہم پر رحم کر تو ہمارا مولیٰ ہے۔ کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔‘‘ (البقرۃ: ۲۸۶)
جب بھی دعا مانگی جائے تو پورے ایمان اور یقین اور اس پختہ عقیدے کے ساتھ مانگی جائے کہ اللہ تعالیٰ میری التجا کو سن رہا ہے اور میری دعا قبول کرنے پر قادر ہے اور یہ پختہ یقین ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ میری دعا ضرور منظور فرمائے گا۔ دعا میں بے صبری اور ناشکری کا اظہار کبھی نہیں کرنا چاہیے اور اللہ کریم سے گلے شکوے نہیں کرنے چاہئیں۔ نبی پاکﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ ’’دل سے مانگی ہوئی دعا کبھی رد نہیں ہوتی، لیکن اس کی مقبولیت کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ بعض دعائیں آخرت کا ذخیرہ بن جاتی ہیں۔ لیکن یہ بات مانگنے والے کی سوچ سے بالاتر ہوتی ہے۔ اگر دعا اسی وقت منظور نہ ہو تو اس میں مانگنے والے کی کوئی نہ کوئی بھلائی ہوسکتی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کی حمد و ثنا بیان کرکے پھر اس سے دعا مانگی جائے تو اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے دعا مانگتے وقت خشوع وخضوع کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔
دعا مانگنے کے لیے ضروری ہے کہ دل میں اس ذات خداوند کا خوف موجود ہو مانگتے وقت دل کی گہرائیوں سے دعا کی جائے اور دعا دل سے ٹکرا کر زبان پر آئے۔ رقت طاری ہو اور آنکھوں میں دو قطرے پانی کے آجائیں تو سبحان اللہ کیا خوش نصیبی کی بات ہے۔
دعا مانگتے وقت رو رو کر اور گڑگڑا کر دعا مانگنی چاہیں کہ رونا نہ آئے تو کم از کم رونے والی شکل بنالی جائے تو یہ عمل بھی ایک پسندیدہ عمل ہے اور اپنے اندر اثر رکھتا ہے۔
حدیث پاک میں ہے کہ ہر سچے مسلمان کو خشوع وخضوع سے دعا مانگنی چاہیے کیونکہ دعا نہ مانگنا تکبر کی علامت ہے نبی پاک ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ اپنی دعاؤں کو قبول ہونے کا یقین رکھتے ہوئے سچے دل سے دعا کی جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسی دعا قبول نہیں کرتا جو غافل اور بے پرواہ دل سے نکلی ہو۔
——