حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
إن اللّٰہ یرضیٰ لکم ثلاثاً و یسخط لکم ثلاثاً یرضی لکم ان تعبدوہ ولا تشرکوا بہ شیئا وان تعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعاً وان تناصحوا من ولاہ اللّٰہ امرکم ویکرہ لکم قیل و قال کثرۃ السؤال واضاعۃ المال۔
’’اللہ تعالیٰ تمہاری تین باتوں سے خوش ہوتا ہے اور تین کو ناپسند کرتا ہے۔خوش اس سے ہوتا ہے کہ تم کسی قسم کا شرک کیے بغیر اس کی عبادت کرو۔ اور یہ کہ اللہ کی رسّی کو مل جل کر مضبوط پکڑو۔ اور یہ کہ جسے بھی اللہ نے تم پر حاکم بنادیا ہے، اس کی خیر خواہی کرو۔ اور ناخوش ان باتو ںسے ہوتا ہے کہ خواہ مخواہ غپ لڑاؤ، مانگنے کو اپنا مشغلہ بنالو اور مال کو غلط طور پر ضائع کرتے رہو۔‘‘
پسندیدہ تین اُمور میں جس امر کو سب سے پہلے رکھا گیا وہ ہے مخلصانہ عبادت۔شرک اللہ تعالیٰ کو نہایت ناپسند ہے۔ اس کے بارے میں وہ اعلان کرچکا ہے کہ معاف ہی نہیں کروں گا۔
ایسے خطرناک اور شدید جرم سے بچنا ظاہر ہے کہ مقدم ہونا ہی چاہیے۔ جو مسلمان غلط قسم کے تصوف و طریقت کے زیر اثر مشرکانہ تصورات میں گرفتار ہیں یا تصورات تو ان کے مشرکانہ نہیں مگر بعض اعمال اس نوع کے ہیں جو اعمالِ شرک سے مشابہت و مماثلت رکھتے ہیں۔ مثلاً بزرگوں کے مزارات کو اس انداز میں جھک کر بوسہ دینا کہ سجدے کی ہیئت پیدا ہو یا تعظیم میں اس طرح کمر جھکا کر کھڑے ہونا کہ رکوع سے مشابہت پیدا ہوجائے۔ یا مصیبت کے وقت بجائے اللہ کے کسی ولی کو پکارنا۔ ایسے تمام مسلمان بھائیوں کو غور کرنا چاہیے کہ وہ کتنا بڑا خطرہ مول لے رہے ہیں۔ اللہ شرک پر جتنا بھی ناراض ہو کم ہے۔ آخر اس سے بڑی وجہِ ناراضگی اور کیا ہوسکتی ہے کہ جو تمام کائنات کا مالک ہو۔ خالق ہو، فرماں روا ہو، جس کی اجازت کے بغیر نہ فرشتے کچھ کرسکتے ہوں نہ انبیاء و اولیاء۔ جو ہر وقت ہر شخص کی فریاد سنتا ہو۔ جو دلوں کے احوال جانتا ہو، اسے تمام سفید و سیاہ کا مالک سمجھنے کے بجائے بندہ کسی اور کو بھی کسی درجے میں بااختیار تصور کرنے لگے۔
دوسرا امر پسندیدہ یہ ہے کہ سب مسلمان مل جل کر اللہ کی رسّی کو پکڑلیں۔ یہ عین قرآن کا حکم ہے۔ اس کامطلب ہے باہمی اتفاق، اتحاد، بھائی چارہ، دوست داری۔ یہ حکم طاقت و عزت کی کلید ہے۔ آج ہم نفاق و شقاق، انتشار، کشاکش اور نفسانفسی کی جس منزل میں قیام کیے ہوئے ہیں وہ اس تعلیم کی مکمل ضد ہے۔ سوچ لیجیے کہ اللہ کو ہماری یہ حالت کس قدر ناپسندہوگی اور کس طرح وہ ہم سے راضی ہوگا جب کہ ہم کھلم کھلا اس کی ناراضگی کا سامان پیدا کررہے ہیں۔ اللہ کی رسّی کو مضبوط پکڑنے کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ ہر مسلمان صرف حق کے لیے محبت اور حق کے لیے نفرت کرے۔ اللہ کی رسّی اس کا دین ہی تو ہے۔ دین کی فلاح و ترقی اور ملّت کی بہی خواہی کے میدانوں میں سب مسلمانوں کو بھائیوں کی طرح مل جل کر آگے قدم بڑھانا چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے— اور آج وہ ایسا نہیں کررہے ہیں تو ظاہر ہے کہ اللہ کی مدد ان کے شریکِ حال کیسے ہوگی۔
یہاں سے یہ بھی پتہ چلا کہ انفرادی طور پر نماز، روزہ اور طرح طرح کی نفلی عبادتیں پوری طرح مؤثر نہیں ہوسکتیں جب تک مسلمان اپنی اجتماعی شیرازہ بندی اور اتحاد و تعاون پر پوری توجہ نہ دیں۔
تیسرا امر پسندیدہ یہ ہے کہ اللہ کی مشیت نے جسے بھی تمہارا حاکم بنادیا ہے اس کی خیرخواہی کو اپنا فریضہ سمجھو۔ حتیّٰ کہ اگر کافر و مشرک بھی تمہارا حاکم ہے تو اس کے بدخواہ مت بنو۔ کوشش کرو کہ وہ رعایا کے ساتھ انصاف کرے اور ظلم سے اس کا دامن داغدار نہ ہو۔ اگر ظلم کرتا ہے تو اس کی خیرخواہی یہ ہے کہ ظلم سے باز رکھنے کی کوشش کی جائے۔ دین کی دعوت پہنچانا بھی خیرخواہی ہے۔ ناانصافی پر ٹوکنا بھی خیرخواہی ہے۔ غرض مسلمان کوہر حال میں خدا کا مخلص اور بندوں کا ہمدرد ہونا چاہیے۔ خصوصاً حاکم کی خیرخواہی اس لیے ضروری ہے کہ فتنہ و فساد نہ پیدا ہوں۔
ناپسندیدہ امور میں سے پہلا امر یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمان غپ شپ میں وقت برباد کرے۔ وقت جیسی قیمتی چیز کو ضائع کرنا ظاہر ہے نہایت احمقانہ فعل ہے۔ اعتدال کے ساتھ تفریح اور حلال و حرام کا لحاظ رکھتے ہوئے خوش وقتی الگ بات ہے۔ اعتدال سے متجاوز ہوکر چرب زبانیاں کرتے رہنا اللہ کو ناخوش کرتا ہے۔
دوسرا امرِ ناپسندیدہ یہ ہے کہ آدمی دستِ سوال دراز کرنے کو معمول بنالے۔ یعنی خودداری و غیرت کو بالائے طاق رکھ کر بھکاری جیسا بن جائے۔
’’کثرتِ سوال‘‘ کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بات بات میں کیوں اور کیسے کی عادت ڈالنا۔ یہ عادت خراب ہے۔ عملی حضرات اس عادت سے دور رہتے ہیں۔
تیسرا امرِ ناپسندیدہ ’’اضاعتِ مال‘‘ کو بتایا گیا ہے۔ یعنی اسراف، فضول خرچی۔ خدا نے جسے فاضل مال دیا ہے وہ اسے اچھے کاموں میں لگائے تو یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ جیسے حضرت عثمانؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ دونوں بہت مالدار تھے۔ آج کی اصطلاح میں انھیں ’’سرمایہ دار‘‘ کہا جاسکتا ہے، لیکن انھوں نے اپنا سرمایہ دین و ملّت کی بیش از بیش خدمت میں لگایا۔ نمود و نمائش اور اسراف سے واسطہ نہیں رکھا۔ لہٰذا یہ سرمایہ ان کی آخرت کے لیے خیر ہی خیر بن گیا۔
اعتدال کے ساتھ اچھا کھانا، اچھا پہننا، اچھا رہن سہن رکھنا گناہ نہیں ہے۔ حضورﷺ نے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ بات پسند نہیں کرتا ہے کہ بندے کو جو نعمت اس نے دی ہے اس کا اثر سامنے آئے۔ چنانچہ کوئی مسلمان اگر اچھا کھانے، پہننے کی استطاعت رکھتا ہے، لیکن پھٹے حالوں رہتا ہے اور پیسہ پیسہ بچا بچا کر رکھتا ہے تو وہ اللہ کی نظر میں پسندیدہ نہیں اسراف اور کنجوسی دونوں گناہ ہیں۔
آج ہم مسلمانوں نے شادی بیاہ اور دیگر سماجی تقریبات میں دولت پانی کی طرح بہانے کا جو رواج نکال لیا ہے، یہ بدترین قسم کا اسراف ہے۔فضول ہزاروں قمقمے جلانا، مہنگے سے مہنگے تمبوڈیرے لگانا، آتش بازیاں چھوڑنا، بینڈ بجانا اور اسی نوع کی دیگر فضول خرچیاں کرنا اللہ کو سخت ناپسند ہیں۔ یہ روپیہ دین و ملت کی فلاح میں لگے تو ایک طرف دین و ملت کے لیے دنیادی عزت و وقار کی راہ پیدا ہو اور دوسری طرف روپے کے مالک کو آخرت میں کم سے کم دس گنا نفع ملے۔
واقعی اللہ کے سچے رسولؐ کی ایک ایک حدیث ایسی ہے کہ اس پر عمل ہو تو دین اور دنیا کی فلاح کے خزانے اس میں موجود ہیں۔ ’’کوزے میں دریا‘‘ کی کہاوت حضورﷺ کے ارشادات سے بڑھ کر کس انسان کے کلام صداقت نظام پر صادق آسکتی ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلّم!
حضرت ابوالعبیدین نے حضرت عبداللہ ابن عباس سے پوچھا کہ مبذرین (فضول خرچ) کون ہیں؟ ابنِ عباسؓ نے جواب دیا: وہ لوگ جو ناحق صرف کرتے ہیں۔