دادی اماں نے قرآن مجیدکوایک طرف رکھ دیااوربہوبیگم کوآوازدی۔’’جی۔تھوڑی دیرمیںحاضر ہوتی ہوں۔‘‘ذاکرہ بیگم نے رسوئی سے جواب دیا۔
دادی نے آنکھوںسے چشمہ اُتارااُس کو دوپٹے کے پلوسے صاف کیااوربکس میںرکھ دیا۔ پھر دونوںہاتھوںکی ہتھیلیوںپر چہرارکھ کر کسی سوچ میں کھوگئیں۔
آدمی زِندگی بھرکندھے ڈھونڈتارہتاہے، تاکہ اس پر اپنا سررکھ کراِطمینان کی سانس لے سکے، جب یہ کندھے دھیرے دھیرے اُس سے جداہوتے جاتے ہیں،تب خداکے سواکوئی سہارانہیں ہوتا۔ اگر اِنسان کشاکش دُنیامیںپہلے ہی سے خداکی طرف مائل ہوجائے توسکون حاصل ہوتاہے۔
پتہ نہیںسوچ کے دائرے اُنھیںکہاںسے کہاںکی سیرکراتے کہ ذاکرہ بیگم نے آکراُنھیںاپنی طرف متوجہ کیا۔
’’اماںجی،آپ نے ہمیں بلایا تھا۔‘‘ اُنھوں نے کہا۔
دادی اماںنے اپناچہرااوپراُٹھایااورچندلمحے چپ چاپ اُن کی طرف دیکھتی رہیں،پھردریافت کیا۔
’’اِقبال حسن کہاںہیں۔‘‘اُن کی آنکھیں اپنے بیٹے کو تلاش کرنے لگیں۔
’’وہ ابھی تک مسجدسے نہیںلوٹے ہیں۔‘‘ ذاکرہ بیگم نے جواب دیا۔
’’جب آئیںتو کہناہم سے مل لیں۔‘‘دادی اماں نے کہا۔پھردھیمی آوازمیںگویااپنے آپ سے کہا۔ ’سلمیٰ کی شادی کی بہت ساری تیاریاںکرنی ہیں۔‘
’’اچھا۔اماں جی۔‘بہوبیگم نے کہااورسلمیٰ کے کمرے کی طرف اپنے قدم بڑھادئیے۔‘
دادی اماں پھرسے کسی سوچ میںڈوب گئیں۔کیادن تھے وہ،کتنے روشن،کتنے عمدہ،کتنے مسرت بھرے۔اُنھیں اُن کا بچپن یادآگیاتھا۔ گائوں کے درمیان وسیع میدان اورمیدان کے درمیان پیپل کا گھنادرخت،درخت کی چھائوںمیںبستی کے بزرگ عصرکے بعد سے شام تک گفتگو میںمحورہتے تھے۔ گائوںکے کچے پکے مکانات،مکانات کے پیچھے باغ، کھیت اورتالاب۔کھیتوںمیںہرنی کی طرح دوڑ لگانا، باغوںمیںساون کے جھولوںمیںجھولنا۔سر شام گھرکو لوٹنا—مرغیوںکو جھانپ میںبندکرنا،بکریوںکو کھونٹے سے باندھنا۔چراغوںکو روشن کرنا،راتوںکو قصے کہانیاں سننا،چھیڑنا،شرمانا،مسکرانا،…پتہ نہیں دادی اماںکوکون سی بات یادآگئی تھی کہ اُن کے لبوںپر مسکراہٹ پھیل گئی۔
اُن کی سوچ کا دھارااُس وقت ٹوٹاجب اِقبال میاںنے آکراُنھیںسلام عرض کیا۔ماں نے چونک کربیٹے کی طرف دیکھاوردُعائیںدیں۔’’کہیے امی جان،ہم حاضر ہیں۔‘‘اِقبال حسن نے کلام کا سلسلہ شروع کیا۔’’اِتنی دیرکیوںلگادی؟،سلمیٰ کی شادی کی تاریخ قریب آرہی ہے،مہمانوںکی فہرست تیارکرنی ہے۔‘دادی اماں نے پیارسے ڈانٹ سنادی۔ ’’مسجد میںایک اہم میٹنگ تھی۔‘‘اِقبال میاںنے سرجھکا کرکہا۔’’کیاتھی؟روانی میںدادی اماں نے پوچھ لیا۔
’’میت خانہ تعمیرکرنے کے سلسلہ میں بات چیت ہوئی تھی۔‘‘اُنھوںنے کہا۔’’کیاکہا،میت خانہ!‘‘دادی اماں نے حیرت سے سوال کیا۔
’’جی ہاں۔‘‘اِقبال حسن کہنے لگے اُن کا لہجہ سمجھانے کاتھا۔امی جان،اِن دِنوںمکانات تنگ ہوتے جارہے ہیں،بہت سارے گھروںمیںمیت کورکھنے کے لیے اورنہلانے کے لیے بھی مناسب جگہ نہیںہے۔اسی لیے اس سلسلہ میں غوروخوض کیا جارہا ہے کہ ایک عمارت تعمیرکی جائے تاکہ لوگوں کے لیے آسانیاں پیداہوں…وہ اوربھی کچھ کہنے لگے تھے، دادی اماں منہ کھولے حیرت سے اُن کی طرف تکتی رہیں۔پھرچونک کراُنھوںنے کہا۔
’’عجب زمانہ آگیاہے،دِلوںسے محبت اُٹھتی جارہی ہے،پہلے شادی خانے بنے،مہمان دور ہوئے۔ اب میت خانے بنیںگے توایثارکہاںرہے گا۔‘‘اُن کے لہجے میںتاسف بھراتھا۔
’’امی جان، زمانہ بدل رہاہے، قدریں تبدیل ہورہی ہیں۔‘‘اِقبال حسن نے بات آگے بڑھائی۔
’’قدریں تواٹل ہونی چاہئیں۔وقت سے اُن کا کیاتعلق؟ہمارے زمانے میں شادی کی تقریبات ہفتہ بھرچلتی تھیں۔گھرمہمانوںسے بھرارہتاتھا۔ لوگوں کو ملنے ملانے کے بہانے چاہئیں۔سال بھرمیں مختلف ناموںسیکئی کئی تقریبات منعقد ہوتی تھیں۔دل ملتے تھے، شادیاں آسان ہوا کرتی تھیں۔ بجلی کیا آئی دوریاں آگئیں…اُنھوںنے افسوس ظاہرکیا۔
’’یہ توکمپیوٹر کازمانہ ہے۔‘‘اِقبال حسن نے کہناچاہالیکن یہ دیکھ کر کہ ماں ناراض ہوجائیں گی، اُنھوںنے خاموشی اختیارکرلی اوراُنھیں اِس بات کا اِحساس تھاکہ آج کل لوگ دورسے دورہوتے جارہے ہیں۔سب سے زیادہ نقصان تہذیب کوپہنچاہے۔لوگ اپنی اپنی دُکان کھولے بیٹھے ہیں۔
شادی کی تیاریاں ہورہی تھیں۔سلمیٰ کی چند سہیلیاں آگئی تھیں۔اقبال میاںباہرکے کام دیکھنے کے لیے اِجازت لے کر اُٹھ گئے۔
ذاکرہ بیگم رسوئی میںمصروف ہوگئی تھیں۔
سلمیٰ اوراُس کی سہیلیوںنے دادی اماںکو گھیرلیا۔اُنھیں دادی اماں کوچھیڑنے میںلطف آتا تھا۔دادی اماں کی پیاربھری جھڑکیاں اُنھیں پسند تھیں۔ اب پچھلی باتیں سناکرذہنی واخلاقی تربیت دینے کی فرصت کسے ہے۔سرسے کسی کا دوپٹہ ڈھلک گیا تو غضب ہوگیا۔حیاکی چادرمیںلپٹ کرنسوانیت کی پاس داری کی جاتی تھی۔خداکی نرم ونازک تخلیق،خداکے بتائے ہوئے راستے پرچلتی ہے توکتنی معصوم لگتی ہے، چار سو خوشیاں ہی خوشیاں پھیل جاتی ہیں۔
اگرکسی لڑکی کے ہاتھ مہندی سے خالی ہوتے تواُنھیں غصہ آجاتاتھا۔وہ کہتیں۔’’ہائے اللہ!اِن کے ہاتھ دیکھو،اب لڑکااورلڑکی کے ہاتھوںمیںفرق کیارہ گیاہے۔مہندی اورچوڑیاں نسوانیت کی علامت ہیں،اُنھیں دیکھ کر مردوںکو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا اِحساس پیداہوتاہے۔
گھرکے کام کاج میںہاتھ بٹانے کے لیے بی خاتون بھی آگئیںاورلڑکیوںکوہلکاسااِشارہ کیاکہ وہ وہاںسے کھسک جائیں۔لڑکیاں مسکراتی ہوئی وہاں سے چلی گئیں۔
بی خاتون،دادی اماں کی آرام کرسی کے قریب بیٹھ گئیںاورپان دان کو اپنے قریب کرلیا۔
’’ہاںتوعالیہ بیگم‘‘…بی خاتون نے دادی اماں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔’’اب توسلمیٰ بیٹی شہرچلی جائے گی۔
’’کیاکہاجاسکتاہے‘‘…دادی اماں گویا ہوئیں۔‘‘اِقبال حسن کو اللہ میاںنے چاربیٹیاں عطاکی ہیں،کب تک اِنتظارکیاجاسکتاہے،یہ رِشتہ تھوڑا مناسب لگا۔ناصرشہرکی کسی کمپیوٹرکمپنی میںسروِس کرتا ہے،جہیزکا مطالبہ نہیںہے…وہ اِتناہی کہہ پائی تھیں کہ درمیان ہی میںبی خاتون نے کچھ کہنا چاہا — ’’پھربھی…‘‘
’’ہاں،ہاں،میںسمجھ گئی‘‘…دادی اماں نے بات کو جاری رکھا۔پھربھی جوڑے کی رقم دولاکھ روپیے اداکیے ہیں۔‘‘
’’ہاں،میںیہی کہنے جارہی تھی‘‘…خاتون بی نے کہا۔
’’ٹھیک ہے،ہرلڑکی کاباپ چاہتاہے کہ بیٹی کی زِندگی خوش گوار بن جائے،آگے خداکی مرضی،— پھردادی اماں نے آرام کرسی کی پشت سے سرلگاکر آنکھیں بندکرلیں۔
شادی کے دن قریب آتے آتے وہ گھڑی آہی گئی جب سلمیٰ اپنے ابوکے مکان سے نکل کر شوہرکے گھرمیں داخل ہوگئی۔
آج کل شہرکافی تبدیل ہوگئے تھے۔اونچی نیچی عمارتوںکا جنگل۔موٹرگاڑیوںکا سیلاب،جگہ کی قلت،ہرکوئی ہروقت دوڑتارہتاہے۔دن اوررات کی تمیزختم ہوگئی تھی۔
جس عمارت میںسلمیٰ لائی گئی تھی وہاں قطار میںچندکمرے تھے۔ہرکمرے میںایک خاندان بسا ہواتھا۔یہاں لوگ کمرے کوگھرکہتے ہیں۔
سلمیٰ کمرے سے باہرنکل آئی۔بازوکے کمرے سے ایک عورت نکل کرباہرآئی،سلمیٰ کی طرف دیکھا،کچھ نہیںکہا،پھراندرچلی گئی۔
ایک ملازمہ تھی جو اُن گھروں میںکام کاج کیاکرتی تھی،وہ سلمیٰ کے قریب آئی اورکہا۔
’’بی بی۔یہ دروازہ آٹومیٹک ہے،اِس کی چابی صاحب کے پاس ہے،آپ اندرسے بندکرلو،وہ کھول لیںگے،کسی چیزکی ضرورت ہوتومجھے بلالینا، میں قریب ہی میںرہتی ہوں۔‘‘
سلمیٰ کمرے کے اندرداخل ہوئی۔ایک طرف میزکے اوپراِسٹول رکھاہواتھا۔قریب ہی فریج میںکھانے کی اشیارکھی ہوئی تھیں۔
ناصرکام کے لیے نکل گیاتھا۔جاتے جاتے اُس کے ہاتھ میںموبائیل فون تھماکرکہہ گیاتھاکہ اُس کے کام کے اوقات مقررنہیںہیں،اِس لیے کبھی ایمرجنسی کی صورت میں رابطہ کرسکتی ہو۔
شادی کے بعد دودِن گائوںمیں رہ کر وہ شہرآگئے تھے۔
پنجروںمیںبسے لوگ،آٹومیٹک دروازے، ایک ہی قطارایک ہی ڈگرمیںکھسکتی ہوئی زِندگی،آدمی ساتھ ساتھ لیکن جداجدا۔وقت توہے لیکن اُس کا مصرف حصولِ زندگی کے بجائے زِندگی قائم رکھنے کے لیے ہے۔کیاپایاکیاکھویا،کون جانے،ایک بے معنی ڈور،صرف ڈور…۔
سلمیٰ نے کھڑکی سے باہردیکھا،یہ کھڑکی عمارت کے عقب میںکھلتی تھی،جہاں ایک نالہ تھاجس کو شہروالے ندی کہتے ہیں۔اِس گندے نالے کے ساتھ ساتھ جھونپڑیوںکی ایک قطارتھی،ٹن کی چھت،پلاسٹک کے برتن،دھول میںاَٹے کالے کلوٹے بچے، چھینا جھپٹی اوراُچھل کود کررہے تھے۔
کسی بچے نے کھڑکی کی طرف دیکھااورایک پتھراُس کی طرح پھینکا۔سلمیٰ نے فوری اپنا سرجھکا لیا لیکن پھربھی وہ پتھراُس کے کان کو چھوگیا۔
اُس نے اپنے کان کو ہاتھ سے سہلایاپھراُن کی طرف دیکھا۔بچے لگاتارغل مچارہے تھے، ایسا لگتا تھاجیسے اُن کے والدین کو اُن سے کوئی سروکارہی نہیںہے۔
سلمیٰ کمرے سے نکل کر سڑک پرچلی آئی۔ بچے آپس میںلڑجھگڑرہے تھے۔اُس نے لڑکے کی طرف دیکھاجس نے اُس کی طرف پتھرپھینکاتھا۔اُس نے اُس کو اپنے قریب بلایا۔دوسرے بچے ایک دم خاموش ہوگئے اورحیرت سے سلمیٰ کی طرف دیکھنے لگے۔شایدوہ سوچ رہے ہوںکہ یہ کون،نئی مخلوق ہے جو اُن کے درمیان آگئی ہے۔
وہ سانولی رنگت کا بچہ سڑک پارکرکے اُس کے قریب آیا—سلمیٰ نے اُس کے سرپرہاتھ پھیرا۔ پھراُس کے گال تھپتھپائے۔پرس سے ٹافی نکال کر اُس کے ہاتھ میں رکھی۔پھراُس کے گال چوم لیے۔
بچے نے اپنی بڑی بڑی آنکھوںسے اُس کی طرف دیکھا،اُس کے چہرے پر کئی طرح کے تاثرات آئے اورچلے گئے۔پھراُس نے اپنے ساتھیوںکی جانب دوڑلگائی۔
سلمیٰ چندلمحے وہیں رُکی رہی اوراُس نے دیکھاکہ بچہ اپنے ساتھیوںسے اُس کی طرف اُنگلی سے اِشارہ کرتے ہوئے کہہ رہاتھا۔
’’وہ آنٹی بہت ہی اچھی ہیں۔ہم سے پیارکرتی ہیں۔‘‘
اُسی وقت اُس کے موبائیل فون کی گھنٹی بجی۔فون پر اُس کے ابو تھے۔وہ دریافت کررہے تھے کہ وہ کیسی ہے اورکیاکررہی ہے۔
سلمیٰ نے فون پرکہا۔
’’ابومیںاچھی ہوں،یہاں لوگوں کوچاہت کی ضرورت ہے۔‘‘
پھراُس نے آسمان کی طرف دیکھا۔بارِش کے آثارنظرآنے لگے تھے اوربونداباندی شروع ہوگئی اورمٹی نم ہونے لگی۔ ——