’’شادی کے تین روزبعد دولہانے نو بیاہتا دُلہن کو موت کے گھاٹ اُتاردیا۔وجہ یہ تھی کہ دُلہن اپنی شادی پر خوش نہ تھی جس سے دولہاکو شک ہوگیا کہ میری بیوی کسی اورکو پسندکرتی ہے۔‘‘
’’شوہرنے دوبچوں کی ماں(اپنی بیوی)کو اس کے کردارپر شک کی بناپر کلہاڑیوں کے وارکرکے ہلاک کردیا۔‘‘
’’نوجوان بیٹے نے باپ کو محض اس شک کی بنا پر قتل کردیاکہ اس کا باپ کسی دوسری عورت کے ساتھ مراسم رکھتاہے۔‘‘وغیرہ
اس قسم کی خبریںتقریباًہرروزاخبارات کے صفحات پر پڑھنے کو ملتی ہیں،جنھیںپڑھتے ہوئے اکثر ایک لمحے کے لیے توجسم میں سنسنی سی دوڑجاتی ہے۔ اگرغورکیاجائے کہ اس قسم کے واقعات یا جرائم میں روزبروز تیزی سے اِضافہ کیوں ہورہاہے تواُس کی زیادہ تر ایک ہی وجہ نظر آتی ہے اور وہ ہے شک۔ دراصل حسد و شک اِنسانی فطرت کا حصہ ہیں، لیکن ایک حد تک۔ اوراس حقیقت سے بھی ہر اِنسان واقف ہے کہ کسی بھی چیز کی زیادتی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق شک رفتہ رفتہ ایک نفسیاتی بیماری کی صورت اختیار کر جاتاہے۔ تحقیق سے یہ بات سامنے بھی آئی ہے کہ مردوں کی نسبت عورتیں شک جیسی نفسیاتی بیماری کا زیادہ شکارہوتی ہیں۔ 90% عورتیں اور75%مرد شک جیسی بیماری کے شکار ہیں لیکن یہ بھی کہاجاتاہے کہ شک کی بناپر مرد سنگین جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں جب کہ عورتیں سنگین صورتِ حال تک پہنچنے سے گریز کرتی ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق اس کا جواب یہ ہے کہ قدرت نے مرد کی نسبت عورت میں برداشت کا مادّہ زیادہ رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ اگرچہ خواتین کی اکثریت حسدوشک جیسی نفسیاتی بیماری کی شکار ضرور ہے لیکن وہ بہت کم اپنے شدید ردّعمل کا اِظہار کرتی ہیں۔ ویسے ہی مشرقی عورت اندرہی اندر کڑھنے کے سبب دیگر بیماریوں میں تومبتلاہوجاتی ہیں لیکن محض شک کی بناپر اِنتہائی سنگین قدم اُٹھانے سے گریز کرتی ہیں۔مثلاًاگر ایک بیوی کو اپنے شوہر پر یہ شک ہوجاتاہے کہ اس کے شوہر کی توجہ گھر کی بجائے باہر کی طرف زیادہ مبذول ہورہی ہے اورآہستہ آہستہ اس میںبیوی بچوں کی پرواہ کم ہورہی ہے اورشوہر کی حرکات وسکنات میںفرق آرہا ہے توپہلے توبیوی اُسے سمجھانے کی کوشش کرتی ہے۔ اگریہ بات اس کے بس سے باہر ہوجاتی ہے توزیادہ سے زیادہ نوبت لڑائی جھگڑوں تک پہنچ کر طلاق پر آکر ختم ہوجاتی ہے یادوسری صورت میں بیوی محض اپنے بچوں کی خاطر اس قسم کے حالات سے سمجھوتہ کرلیتی ہے لیکن اندرہی اندرکڑھنے سے اس کی اپنی شخصیت بے کار ہوکررہ جاتی ہے کیوںکہ کوئی بھی عورت اپنے شوہر کی باہر دلچسپی کو زیادہ دیر تک برداشت نہیںکرسکتی۔محض چند فیصد خواتین ہی ایسی ہوتی ہیں جو محض شک کی بنا پر خطرناک قدم اُٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتیں جس کے نتیجے میں کئی سنگین واقعات رونماہوجاتے ہیں۔ گھر اُجڑجاتے ہیں،بچے لاوارِث ہوکروقت کی دھول میں گم ہوجاتے ہیں یاپھر جرائم پیشہ بن جاتے ہیں۔ دوسری طرف اگرمردوں کو دیکھاجائے تویہ بات سامنے آتی ہے کہ خواتین کی نسبت مردزیادہ پختہ سوچ کے مالک ہوتے ہیں۔شک کی بیماری جلد اُنھیں اپنی لپیٹ میں نہیں لیتی ہے۔لیکن اگر وہ شک میں مبتلا ہو جائیں تو اس بیماری سے ان کا چھٹکارا بہت مشکل ہے اور ویسے بھی مردوں میں برداشت کا مادّہ کم پایا جاتا ہے۔ محض شک میں مبتلا ہوکر وہ معمولی باتوں کو بھی اپنی انا اورغیرت کا مسئلہ بنالیتے ہیں اوربڑے سے بڑاقدم اُٹھانے سے گریز نہیں کرتے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق شک ذہنی سوچ کی اِختراع کے نتیجے میں جنم لیتاہے یعنی یہ اِنسانی سوچ کے نتیجے میں وقوع پذیرہوتاہے جب اِنسانی دماغ پر منفی سوچ حاوی ہوجائے توپھر اُسے ہر بات غلط لگنے لگتی ہے کوئی بھی شخص ٹھیک اورمخلص نظرنہیںآتا۔
رفتہ رفتہ اس سوچ کا رُخ کسی بھی فرد کی طرف منتقل ہوناشروع ہوجاتاہے اوروہ فرددوسروں کو شک کی نظرسے دیکھتاہے۔اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہر بات میںشک کا پہلونکالے۔یہی طرزِعمل اُسے شک جیسی نفسیاتی بیماری میںمبتلاکردیتاہے جس کے نتیجے میں کئی سنگین واقعات جنم لیتے ہیں۔شک ایک دیمک کی مانند ہے جو رفتہ رفتہ ہماری معاشرتی و ازدواجی بنیادوں کو کھوکھلا کردیتاہے اوریہی وجہ ہے کہ اب اِنسانی زِندگی سے خوشیوں اورمحبتوں کی چمک ختم ہوکررہ گئی ہے۔اوراس کاسب سے زیادہ اثرازدواجی رِشتوں پرپڑاہے۔جس سے ازدواجی مسائل پیدا ہوتے ہیں اورکئی گھرانے اس شک کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
شک اپنے اثرات کے اعتبارسے نہایت سنگین نتائج کا حامل ہوتاہے۔اس سے ازدواجی زندگی بھی متاثرہوتی ہے اورخاندان بھی۔اوراگریہ سماج میں سرایت کرجائے توسماج ومعاشرہ بھی ٹوٹ پھوٹ اور عدم اِعتماد کا شکارہوجاتاہے۔دہشت گردی کے خوف نے سماج کے افراد کو ایک انجانے خوف اورایک شک کی کیفیت میںمبتلا کردیاہے۔آئے دن پیش آنے والے واقعات کے سبب ہر آدمی اجنبی کوشک کی نظر سے دیکھتاہے۔پڑوسی اپنے پڑوسی پر شک کرتا ہے۔ افراد افرادکوشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔کوئی تعلیم یافتہ یا ضرورت مندلڑکی اگرملازمت کرتی ہے تواسے شک کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے اوراُسے اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اس کے بارے میںطرح طرح کی باتیں بنائی جاتی ہیں اوراس کے کردار کو شک کی بناپر غلط سمجھاجاتاہے۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں ہمارے اردگرد موجودہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں اس بیماری نے کس قدر برے اثرات چھوڑنے شروع کردئیے ہیں۔ اگر ہراِنسان اپنی سوچ اورطرزِ عمل میںتبدیلی پیدا کرے تو شک جیسی نفسیاتی بیماری کے ساتھ ساتھ کئی اخلاقی بیماریوں سے چھٹکارا ممکن ہے۔شک کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے سب سے اہم چیزاعتماد ہے مگر افسوس آج کے دورمیں جو چیز کم یاب ہوتی جارہی ہے وہ اعتماد ہے۔شوہربیوی پر اِعتماد نہیںکرتااوربیوی شوہر پر۔ماں بیٹے پر اِعتماد نہیںکرتی۔بھائی بہن کو قابل اِعتبارنہیں سمجھتاجس کی بناپر خوش گوار زِندگیوں میںمسائل پیداہونے لگتے ہیں۔
اِسلامی زِندگی اوراللہ ورسول کی تعلیمات نے رشتوں،تعلقات اورسماج کو مضبوط بنانے کے لیے جو تعلیمات دی ہیں ان میںاہم ترین بات یہ ہے کہ لوگوں کے بارے میں اچھا گمان رکھاجائے۔اورجب تک کوئی واضح بات سامنے نہ آئے کسی کے بارے میں شک یا بدگمانی کا شکارنہ ہواجائے۔یہ وہ تعلیم ہے جو اِنسان کو مثبت سوچ کے لیے آمادہ کرتی ہے۔
قرآن نے واضح طورپر کہہ دیا ہے:(اے ایمان والو!)بہت زیادہ گمان لگانے سے بچو،کیوںکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کی ٹوہ میںپڑنے اورایک دوسرے کی غیبت کرنے کو سخت برائی قراردیاہے۔فرمایاگیاہے:’’لوگو!ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ پڑواورنہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔‘‘ گھر کے لوگ آپس میںایک دوسرے کے سلسلہ میں برے خیالات اورشک کا شکارنہ ہوں۔
ہم اس برائی سے بچ سکتے ہیں۔اگر اس بات کو بخوبی سمجھ لیاجائے کہ ہر فرد اپنی ذات میںکبھی مکمل نہیں ہوتااس میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیاں بھی ہوتی ہیں اوربلاوجہ کسی پر تنقیداورشک اخلاقیات کے لحاظ سے بھی درست نہیں۔اِنسان کو اپنی سوچ میں ممکن حد تک ہی رہناچاہیے۔تاکہ اِنسانی زِندگی کی گاڑی اپنی منزل کی جانب مضبوط بنیادوں پررواں دواں رہے۔ جہاں تک خواتین کا تعلق ہے انہیں چاہیے کہ اپنے گھر کے ماحول اورزِندگی کو پرسکون رکھنے کے لیے اپنے آپ کو ممکن حد تک شک جیسی بیماری سے بچائیں۔ میاںبیوی ایک دوسرے پر اِعتماد کریں کیوں کہ شک کا زہر نہ صرف اِنسان کی زندگی کی بنیادوں کو کمزور کر دیتاہے بلکہ رشتوں،خاندانوں اورسماج و معاشرے کو بھی تباہ کردیتاہے۔
——