قرآن مجید کی تبلیغ پوری اُمت کی دینی ذمہ اری ہے۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ کتاب اِلٰہی کو دوسروں تک پہنچائیں۔یہ ختم نبوت کا تقاضا ہے۔نبی کریمؐ کی بعثت تمام اِنسانیت اورتمام زمانوں کے لیے ہے۔اب قیامت تک کوئی بھی نبی یا رسول نہیں آئے گا۔لیکن پیغام قرآنی کی دعوت وتبلیغ کی ضرورت باقی رہے گی۔اس کو دوسروں تک پہنچانااس اُمت کے ذمہ ہے جو حامل قرآن ہے۔اُسی کے لیے آپ نے فرمایا: ترجمہ:’’پہنچائو میری جانب سے چاہے ایک ہی آیت ہو۔‘‘ایک اورحدیث ہے،جس کے راوی عبیدہ ملیکیؓ ہیں اوراسے امام بیہقی نے اپنی کتاب شعب الایمان میںدرج کیاہے۔
حضورفرماتے ہیں:ترجمہ:’’اے قرآن والو! قرآن کو بس اپنا تکیہ ہی نہ بنالو،بلکہ دن اوررات کے اوقات میں اس کی تلاوت کیاکروجیسااس کی تلاوت کا حق ہے۔اوراس کو(چہاردانگ عالم میں)پھیلائو۔
اوراس کو خوش الحانی سے حظ لیتے ہوئے پڑھا کرو،اوراس پر غوروفکر کرو۔تاکہ تم فلاح پائو۔‘‘اس حدیث میں آپ نے ہمیں’’اہل القرآن‘‘کہہ کر مخاطب فرمایا ہے۔ آج کل یہ لفظ ایک اعتبارسے بدنام ہوگیا ہے۔اس لیے کہ ہمارے معاشرے میں’’اہل القرآن‘‘کا لقب اُن لوگوں نے اختیارکیاہے جو درحقیقت حدیث وسنت کے منکرہیں۔وہ اپنے آپ کو ’’اہل قرآن‘‘کہہ کر یہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ دین میں اصل حجت قرآن ہے،سنت نہیں۔حالاںکہ جب وہ سنت کا اِنکارکرتے ہیں اورجب نبی کریم کو وہ مقام دینے کو تیار نہیںہوتے جو قرآن حکیم نے آپ کو دیا ہے تو حقیقت میں وہ قرآن کا بھی اِنکار کرتے ہیں،اُس کی واضح نصوص کی تکذیب کرتے ہیں۔ بہرکیف’’اہل القرآن‘‘کا خطاب نبی کریم نے اپنی پوری اُمت کو دیا ہے۔قرآن مجید میں تورات اورانجیل کے ماننے والوں کو ’’اہل کتاب‘‘کہاگیاہے۔وہ ان کتابوں کے نگہبان تھے۔اسی پس منظرمیں آپ نے ہمیں’’اہل قرآن‘‘کا خطاب عطافرمایااورہدایت دی کہ ’’قرآن والو! اس قرآن کو اپناتکیہ نہ بنالینا‘‘یہ بڑے بلیغ الفاظ ہیں۔ دیکھئے، تکیہ وہ ہوتاہے جس پر آپ سہارالیتے اور ٹیک لگاتے ہیں اورتکیہ پشت کے پیچھے ہوتاہے۔قرآن مجید نے یہود کا ایک بڑاجرم یہ بتایا کہ اُنھوںنے اللہ کی کتاب کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دیاتھا۔ یعنی اُسے نظرانداز کردیاتھا۔اللہ نے تویہ ہدایت دی تھی کہ اپنی چوبیس گھنٹے کی زِندگی اس کے مطابق گزارو،اوراسے لوگوں تک پہنچائو مگر اُنھوںنے ایسانہیںکیا۔
قرآن کو تکیہ بنالینے کا مفہوم یہ ہوگاکہ اُسے ذہنی سہارابنالیاجائے کہ ہم حامل قرآن ہیں،ہم سب سے اعلیٰ اوربہترین ہیں،اوریہ خیال کرکے عمل سے فارغ ہو جائیں کہ ہم توبخشے بخشائے ہیں۔
نبی اکرم نے اس سے منع فرمایا۔ ہمارا طرزِ عمل قرآن کے ساتھ وہ نہیںہوناچاہیے جو یہودیوں کا تورات کے ساتھ تھا۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ’’اس کی صبح وشام بکثرت تلاوت کرکے اس کا حق تلا وت اداکرو۔‘‘یعنی اگرتم واقعی اِس کتاب کا حق ادا کرنا چاہتے ہو اور اِس سے اپنا تعلق درست رکھناچاہتے ہو تو ضروری ہے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کا اِہتمام کرو۔ اور تلاوت کا مطلب ہے اس کے معنی و مطلب کو سمجھنا کہ بغیر سمجھے پڑھنا کہیں بھی پڑھنا نہیں کہلاتا۔ تیسری بات یہ فرمائی کہ’’ اس کتاب کو پھیلائو۔‘‘ اِس کی تعلیمات کو دُنیاتک پہنچانابھی تمہارے ذمہ ہے۔جب تم لوگوں تک یہ روشنی پہنچی ہے،تواب اُسے اپنے تک محدود نہ کرو۔بلکہ اس سے پورے عالم کو منورکرو۔
اس کے انوار سے عالم میں پھیلے کفروشرک کے اندھیروں کا خاتمہ کرو۔ اِنسانیت کو آسمانی ہدایت سے روشناس کرائو۔مسلمان ہندوستان میں صدیوں پہلے آئے اوران کی آمد سے ہندوستان کے بسنے والوں کو راہ نجات ملی۔سینکڑوںبزرگوں نے یہاں بسنے والوں کے درمیان قرآن کی تصویر بن کر جب زِندگی گزاری تو وہ ان کے اوراِسلام کے گرویدہ ہوتے گئے۔خواجہ معین الدین چشتی،حضرت نظام الدین اولیا جیسے بزرگوں نے یہاں کے عوام کے درمیان قرآنی زِندگی کا نمونہ پیش کیا توہزاروں اِنسانوں کو راہِ نجات میسر آئی۔لیکن جب لوگوں نے قرآن کو اپنی زِندگی میں اُتارنا اوراس کی دعوت کو لوگوں میں پہنچانا بند کردیا تو اُمت مسلمہ ایک طرف توخود اپنے خول میں سمٹنے لگی دوسری طرف ان کااِمتیازبھی ختم ہوگیا۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اورہرجگہ ایک داعی امت ہے۔دعوت اس کا فرض منصبی ہے۔ اوریہ اِسلام کی دعوت دراصل اِنسانوں کو قرآن کی طرف بلانا اوراُن کی زِندگیوں کو قرآن کے رِشتے سے جوڑناہے۔قرآن اللہ کی کتاب ہونے کی وجہ سے اِتنی مضبوط قوت اورتاثیررکھتی ہے کہ جوبھی اسے پڑھتاہے اس کے دل میں نفرت وعداوت کا جذبہ کندہوجاتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت عمر جو رسول اللہ کو قتل کرنے کے اِرادے سے نکلے تھے، قرآن کی چند آیات سن کر زندگی بدل بیٹھے اورہدایت کی روشنی سے ہم کنارہوئے۔کفارِمکہ دن میں قرآن کے ماننے والوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے مگر رات کو چپکے چپکے لوگوں کے گھروں سے آنے والی قرآن کی آواز کو سنتے تھے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آج ہندوستان میں مسلمانوں کو جو بھی سیاسی اورسماجی مسائل اس تکثیری سماج میں درپیش ہیں اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ ایک تو خود ان کی زندگیاں قرآنی تعلیمات سے خالی ہیںجس نے ان کے اِمتیاز کو ختم کردیا۔دوسری طرف صرف اس وجہ سے کہ یہاں پر بسنے والوں کی اکثریت قرآن کے پیغام سے ناواقف رہی،طرح طرح کی غلط فہمیاں اِسلام اور مسلمانوں کے سلسلہ میں ان کے دل میں گھر کرگئیں۔ اس کے دونقصان ہوئے۔ایک نقصان تویہ کہ ملک کی ایک بڑی آبادی قرآن کے پیغام سے ناواقف ہوکر ہدایت سے محروم رہی دوسری طرف ان کے اندراِسلام اور مسلما نوں کے سلسلہ کی بے شمار غلط فہمیاں پیداکردی گئیں جن کے سبب ان کے دِلوں میں اِسلام اور مسلمانوں کے لیے نفرت و عداوت کے جذبات پیداہوئے۔
یہ باتیں صرف کسی مفروضے کی بنیاد پر نہیں کہی جارہی ہیں بلکہ تجربہ،مشاہدہ اوران غیرمسلم افراد کی تحریریں اس پر شاہد ہیں جنھوںنے قرآن کا مطالعہ کیا اورجو قرآن کا مطالعہ کررہے ہیں۔مختلف دینی جماعتیں جو قرآن کی دعوت کا کام کررہی ہیں اور سلام سنٹر بنگلور جیسے اِدارے جو خاص طورپر اعلیٰ سطح کے غیرمسلم دانشوران اوراعلیٰ حکام کے درمیان قرآن پہنچانے کا کام کررہے ہیں اُنھیں بے شمارافراد کے خطوط حاصل ہوتے ہیں جو اس قسم کے جذبات کا اِظہار کرتے ہیں۔
غیرمسلم لوگوں کے اندرقرآن کو پڑھنے اور اسے سمجھنے کا شوق اس قدر ہے کہ اخبار میںچھوٹا سا اعلان آتاہے یاکہیں ہورڈنگ نظرآتی ہے تودئے گئے پتوں اورنمبروں پر سینکڑوں لوگ رابطہ کرتے ہیں۔یہ سلسلہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن میں زبردست قوت اور تاثیر ہے جو لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے اوریہ کہ اس وقت حالات نے قرآن کی ڈیمانڈ اس قدر بڑھادی ہے کہ لوگ یہ دیکھناچاہتے ہیں کہ آخر اس کتاب میںلکھاکیا ہے جو لوگ اس کی اس قدرمخالفت کر رہے ہیں۔
یہاں کچھ غیرمسلم افراد کے تاثرات دیکھ کر ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس وقت قرآن کے سلسلہ میںلوگوں کی رائے کیاہے۔بنگلورکے تعلیم یافتہ ایک شخص نے قرآن حاصل کرنے کے بعد اپنا تاثر درج کیا۔ (انگریزی سے ترجمہ)یہ دوسرے مذاہب کے افراد کے لیے اس بات کا عظیم موقع فراہم کرتاہے کہ اِسلام کے حقیقی چہرے کو دیکھ سکیں۔اِسلام کے خلاف غلط پروپیگنڈہ کاتوڑاِسی طرح ممکن ہے۔‘‘—سریش چندرا
وجیے نامی ایک نوجوان کاکہنا ہے :’’میں اس مذہب کے بارے میں مزیدمطالعہ کرناچاہتاہوں کیوں کہ ان دنوں اس دین کے بارے میںکافی غلط فہمیاں پیداکی جارہی ہیں۔‘‘
ایک بزرگ نے قرآن لے کر فرمایا:’’میں جانناچاہوںگاکہ قرآن ہے کیا اور میں اسے مکمل پڑھوں گا۔
اس طرح کے تاثرات ہر جگہ دیکھنے اورسننے کو ملتے ہیں۔خود مسلمان اس قسم کے تاثرات پر خوشی کا اِظہارکرتے ہیں مگر نہ جانے کیوں اُن کے اندروہ داعیانہ جذبہ اُمڈ کر نہیںآتاجو قرآن کے ماننے والوں کے اندر ہونا چاہیے۔شاید اسی جذبہ کی کمی نے اُنھیں پستی کے اس مقام تک پہنچایاہے اوریقینا یہی جذبہ اُنھیں بلندی کے اس اعلیٰ مقام تک لے جاسکتاہے جو اِسلام کے دوراوّل میں ان کے پاس تھا۔کیوںکہ اللہ تعالیٰ کاواضح فرمان ہے:’’بے شک اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعہ کچھ لوگوں کو بلندی عطاکرے گا اور کچھ لوگوں کو ذلیل کرے گا۔‘‘
وہ لوگ یقینا بلندمرتبہ ہوجائیںگے جو اسے پر بڑھ کر اپنی زِندگی میںنافذ کریںگے اوروہ لوگ یقینا ذلیل وخوار ہوںگے جو اس کے پیغام سے واقف ہونے کے باوجود اس سے دور رہیںگے یا اس کی مخالفت کریںگے۔
بہرحال قرآن ایک دعوت ہے اورقرآن کے ماننے والے داعی اُمت۔قرآن کا اپنے ماننے والوں پر حق ہے کہ وہ اس پر عمل کریں اور لوگوں تک اسے پہنچائیں۔ اوراگروہ ایسا نہیں کرتے تونہ صرف یہ کہ وہ قرآن کا حق ادانہیںکررہے ہیں بلکہ اپنے لیے اوراُمت کے لیے ذلت وخواری کی راہ ہموار کررہے ہیں۔ہمارے لیے یہ غوروفکر کا مقام ہے کہ ہم کس طرح قرآن کی دعوت کو عام کرسکتے ہیں۔ ——