حسن نے کنکھیوں سے عمر کی طرف دیکھا جو ہنوز کتاب پر نظریں جمائے ہوئے تھا، مگر صاف محسوس ہورہا تھا کہ اس کا دماغ کہیں اور ہے۔ رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے اور عمر بظاہر اسٹڈی کررہا تھا۔ حسن اس کی تنہائی کے خیال سے اسی کے کمرے میں سونے لگا تھا۔ اس وقت وہ کمپیوٹر پر بیٹھا اپنا کچھ کام کررہا تھا، جبکہ عمر دوسری جانب اسٹڈی ٹیبل پر کہنیاں ٹکائے بیٹھا تھا۔ حسن اسے مسلسل دو گھنٹوں سے دیکھ رہا تھا۔ کمپیوٹر پر اپنا کام کرتے کرتے وہ ایک نظر عمر پر بھی ڈال لیتا مگر عمر ایک ہی حالت میں بیٹھا ہوا تھا۔ نظریں کہیں اور دماغ کہیں اور… اپنا کام روک کر وہ اٹھا اور عمر کے قریب جاکر اس کی کتاب بند کردی۔ عمر بری طرح چونک کر سہمی سہمی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
’’تم کافی دیر سے اسٹڈی کررہے ہو… رات بہت ہوگئی ہے۔ اب سوجاؤ صبح جلدی اٹھ کر پڑھ لینا…‘‘ حسن نے نرم لہجے میں اس سے کہا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بیڈ پر لاکر بٹھادیا۔
’’لیٹ جاؤ۔‘‘
عمر چپ چاپ لیٹ گیا۔ حسن نے اسے کمبل اوڑھایا اور لائٹ آف کرکے پھر کمپیوٹر پر مصروف ہوگیا۔
عمر کی یہ حالت تھی گویا کسی نے اسے اپنے پسندیدہ شغل کی اجازت دے دی ہو۔ وہ آنکھیں موندے فوراً اس حسین وادی کا سفر کرنے لگا جہاں اس کا پیارا علی تھا۔
عمر حیرت سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ اسے کسی طرح یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنی خوبصورت جگہ کھڑا ہے۔ وہ بے حد حسین وادی تھی۔ جہاں نظر ڈالو خوشنما مناظر تھے۔ ایسے کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی ذہن میں اس کا خیال ہی گزرسکتا تھا…اس حسین باغ میں علی چہکتا پھر رہا تھا۔ نیچے کی طرف جھکی شاخوں والے درختوں سے پھل توڑتا اور کھاتے ہوئے کھیلنے لگتا۔ اس خوبصورت باغ کے حسن نے عمر کو مسحور کردیا تھا۔ معطر فضا میں لمبی لمبی سانسیں لیتے ہوئے وہ ساری خوشبو محسو س کرتے ہوئے اسے اپنے اندر اتار رہا تھا۔ ایسی خوبصورت جگہ کا تصور کسی نے کیونکر کیا ہوگا۔ اس باغ کی مٹی مشک و عنبر و کافور کی تھی اور چاروں طرف گویانور برس رہا تھا۔ علی اسے کھیلنے کے لیے مسلسل بلا رہا تھا، مگر عمر دم بخود سب دیکھے جارہا تھا۔ اس وادی کے حسن نے اس پر سحر طاری کردیا تھا۔
’’یہ مجھے اللہ نے انعام دیا ہے۔‘‘ اسے علی کی آواز سنائی دی۔ ’’مگر آپ کے بغیر میرا دل نہیں لگ رہا ہے۔… میں یہا ںبہت خوش ہوں… بے انتہا… مگر آپ کے بغیر کبھی کبھی اداس ہوجاتا ہوں آپ بھی جلدی آجائیے… پھر ہم مل کر کھیلیں گے۔‘‘
عمر رشک سے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’میں یہاں اندر نہیں آسکتا۔ پلیز علی تم میرے ساتھ نیچے چلو ہم وہاں کھیلتے ہیں۔‘‘
’’نیچے۔‘‘ علی کا چہرہ اتر گیا۔ ’’اتنی اچھی نعمتوں کے بعد میرا نیچے دل نہیںلگے گا… میں کچھ دن آپ کا انتظار کرلیتا ہوں آپ آجائیں پھر ہم یہاں خوب مزے کریں گے۔ مگر جلدی آئیے گا، میں آپ کا انتظار کررہا ہوں…‘‘کہہ کر علی پلٹ پڑا۔ اسے جاتا دیکھ کر عمر گھبرا گیا۔
’’علی رکو تو…میری بات تو سنو…‘‘ وہ اسے پکار رہا تھا۔ ’’علی ایک منٹ رک جاؤ پلیز… علی…‘‘
عمر کو نیند میں چلاتے دیکھ کر حسن تیزی سے کرسی سے اٹھ کر ا سکے قریب آیا۔
’’عمر‘‘ وہ اس پر جھک گیا۔ عمر مسلسل چلارہا تھا۔ ’’علی رک جاؤ۔‘‘
’’عمر‘‘ حسن نے اسے جھنجھوڑ کر اٹھا دیا۔ ’’کیا ہوا؟‘‘
’’کیا…‘ ‘ عمر نے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے اسے دیکھا پھر متلاشی سے نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔’’علی چلا گیا؟‘‘ اس نے امید و بیم کی کیفیت میں گھر کر حسن سے پوچھا-
حسن گہری سانس لے کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔
’’ہاں، چلا گیا… بہت دور… کبھی نہ آنے کے لیے۔‘‘
’’وہ مجھے بلارہا ہے…‘‘ عمر نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔ ’’اس کا اس خوبصورت باغ میں میرے بغیر دل نہیں لگ رہا ہے۔ وہ اداس ہے… اور میرا انتظار کررہا ہے۔‘‘
’’عمر‘‘ حسن نے اس کا ہاتھ تھپتھپایا۔ ’’سوجاؤ‘‘
مگر عمر نے گویا سنا نہیں۔ وہ آہستہ سے اٹھا اور اسٹڈی ٹیبل پر جاکر بیٹھ گیا۔
حسن اسے جانچتی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
عمر نے ڈائری کھولی اور کچھ لکھنا شروع کیا۔ حس نے پریشانی سے گھڑی کو دیکھا۔ آدھی رات کا عمل تھا۔ علی کی شہادت کے بعد عمر کا معمول بن گیا تھا، وہ رات کو بے چین ہوکر دو تین مرتبہ جاگ جاتا تھا۔ اسی لیے حسن نے اس کے ساتھ سونا شروع کردیا تھا۔ اسے وقت پر دوا کھلانا اس کی اسٹڈی پر دھیان دینا وغیرہ۔
حسن نے نیند کی گولی پانی میں گھول کر گلاس عمر کی ٹیبل پر لے جاکر دیا۔
’’پانی پی لو عمر‘‘ عمر نے خاموشی سے پانی پی لیا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ غنودگی کی حالت میں تھا۔ حسن نے اسے بیڈ پر لٹا کر لحاف اوڑھا دیا۔
٭٭
بچپن سے خوشیوں کے ہنڈولے میں جھولتے ہوئے وقت کے ہر لمحے سے مسرت کشید کرتے ہوئے اس نے کبھی ایک پل کے لیے بھی نہیں سوچا تھا کہ زندگی اس طرح کا امتحان بھی لے گی۔ دل یہ یقین کرنے کے لیے بالکل رضا مند نہیں تھا کہ علی اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ اسے یہ سب کچھ بالکل خواب کی طرح لگتا… بھلا ایسے کیسے ہوسکتا تھا کہ اس پر اتنا بڑا سانحہ گزرجائے اس کا سب سے چھوٹا بھائی اس سے چھن جائے اور وہ چلتی پھرتی، سانس لیتی اس دنیا میں ہی رہے۔ بے قرار روح کی طرح وہ اپنے کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھی… گھر میں موجود جس چیز پر نظر ڈالو وہ علی کی یاد دلاتی تھی… گھر سے آخر جائے کہاں… سب نے ایک قیامت دیکھی تھی… گھر میں سب ایک دوسرے سے نظریں چرائے ہوئے تھے جہاں ایک کی نظر دوسرے سے ٹکرائی وہیں دونوں کے نین گیلے ہونے لگے۔ ضحی کو بہت سخت چپ لگ گئی تھی… آج صبح سے اس کے لبوں سے صرف دو لفظ نکلے تھے۔ جب ناشتہ کرتے ہوئے عباس بھائی نے اس سے پوچھا تھا۔
’’کالج نہیں جانا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ کافی دقّت سے اس کے لب کھلے تھے۔ قبل اس کے کہ وہ ’’کیوں؟‘‘ پوچھتے وہ جواب دے کر فوراً وہاں سے اٹھ گئی۔
دوپہر میں حسن نے جب گھر آتے ہی اس کے کمرے میں جھانک کر اس سے دریافت کیا تھا:’’کھانا کھایا؟‘‘
اس نے بس اثبات میں سر ہلادیا تھا۔
’’طبیعت کیسی ہے؟‘‘
’’ٹھیک…‘‘ اس نے اسے جواب دے کر اپنی وارڈ روب کھول لی تھی، جس پر حسن خاموشی سے واپس پلٹ گیا تھا۔
ٹہلتے ہوئے پیر دکھنے لگے تو وہ کھڑکی میں آکھڑی ہوئی۔ سامنے ہی کیاری میں لگی جوہی کی بیل پر نظر پڑی۔ اس نے ایک با رکہا تھا کہ اسے جوہی کی خوشبو بہت پسند ہے تو علی نے بطورِ خاص اسی کے لیے ٹھیک اس کی کھڑکی سے وہ بیل لگائی تھی۔ اس کی یاد سے بچنے کے لیے وہ ادھر ادھر نظریں بھٹکانے لگی ، وسیع آسمان، اس پر اڑتے ہوئے پرندے، سامنے سڑک پر کھیلتے ہوئے بچے… کوئی چیز اس کا ذہن بٹا نہ سکی اور آنکھوں سے آنسو جھر جھر بہتے رہے۔
زندگی کا سب سے پہلا صدمہ تھا وہ بھی اتنا اچانک کے نہ اسے ذہن بنانے کا موقع ملا نہ سنبھلنے کا۔ مسلسل ٹینشن کا نتیجہ شدید بخار کی صورت میں نکلا اور وہ بے دم ہوکر ہفتے بھر بستر پر پڑی رہی۔ بخار میں پھنکتے ہوئے کمزور اور لاغر جسم میں گویا زندگی باقی ہی نہیںبچی تھی۔ سارا خون جیسے کسی نے نچوڑ لیا تھا۔
اس کی سہیلیاں روز آتی تھیں۔ چھٹے دن مریم نے اس کی طبیعت کو قدرے ٹھیک محسوس کیا تو اس سے یہ کہہ کر چلی گئی کہ کل تیار رہنا میں کالج کے لیے آؤںگی۔
اگلے دن میں بھی اس نے غائب دماغی سے سارے لیکچرز اٹینڈ کیے… کالج میں ELTکے نئے پروفیسر کا تذکرہ تقریباً تمام طلبہ کے لبوں پر تھا۔ پتہ نہیں ایسی کونسی شخصیت تھی جو آتے ہی سب کے دل و دماغ پر چھاگئی تھی۔ ان کی آمد ضحی کی غیر موجودگی میں ہوئی تھی۔ اس لیے وہ نئے لیکچرر سے قطعی نا آشنا تھی…
دوسرے لیکچر کے بعد پندرہ منٹ کا وقفہ تھا۔ وہ سب لان میں بیٹھی تھیں۔ مریم اور دیگر کلاس فیلوز اس کا ذہن بٹانے کے لیے ادھر ادھر کی باتیں کررہی تھیں۔ ادھرادھر کی کیا گھوم پھر کر وہی نئے پروفیسر صاحب کا ذکر چھڑجاتا… ذہن تو ضحی کا واقعی بٹ گیا تھا، مگر نئے پروفیسر کی اس قدر تعریف سے اب اسے چڑ ہونے لگی تھی۔ ایسی بھی کیا شخصیت پرستی… تھے تو انسان ہی … وہ انتہائی کوفت کے عالم میں جویریہ کو دیکھ رہی تھی جو پروفیسر کے اخلاق، کردار، انداز، وقار، سنجیدگی اور آداب وتہذیب میں رطب اللسان تھی۔
’’وہ ایک پروفیسر ہیں… تو کیا اس مقام و مرتبہ پر آکر بھی ان کے اندر یہ خوبیاں نہ ہوں۔‘‘ اس نے قدرے چڑ کر جویریہ کو دیکھا تھا… یہ پہلا طویل جملہ تھا جو ان سب نے علی کی شہادت کے بعد ضحی کے منہ سے سنا تھا۔ ’’اور وقار و سنجیدگی کی کیا بات ہے بڑھاپے میں کوئی بھی انسان شوخ و شنگ نہیں ہوتا۔‘‘ وہ بیزاری سے کہہ رہی تھی۔
’’بڑھاپا۔‘‘ ان سب نے حیرت سے اسے دیکھا پھر جو ہنسنا شروع کیا تو ہنستی چلی گئیں۔
’’اس میںہنسنے کی کیا بات ہے؟‘‘ ا سنے قدرے خفگی سے کہا۔
’’تم بڑھاپا کہہ رہی ہو، ضحی ابھی تو ان کی شادی بھی نہیں ہوئی۔‘‘ مریم نے بمشکل ہنسی کنٹرول کرکے کہا۔
ضحی کو بہت حیرت ہوئی، جتنے پروفیسرز اسے پڑھاتے تھے، ان میں کوئی ینگ تو کیا ادھیڑ عمر بھی نہ تھا۔ سب ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچ رہے تھے۔ اور ELT کے پروفیسر بھٹّی کا تو دو ماہ قبل ہی ریٹائرمنٹ ہوا تھا، جس کی وجہ سے ان لوگوں کا کورس مکمل ہونے سے رہ گیا تھا۔ سر بھٹّی بیمار بھی بہت رہتے تھے، اس لیے ان لوگوں کا بے حد نقصان ہوا تھا۔ اب جیسے جیسے امتحان قریب آرہے تھے، ان کی پریشانی بھی بڑھتی جارہی تھی۔ ان حالات میں تو نووارد گویا ان کے لیے نوید مسرت بن کر نمودار ہوا تھا۔ اور پڑھانے کے اسٹائل سے سبھی اسٹوڈنٹ بے حد خوش تھے۔
’’تو اب وہ سال کے اخیر میں کیوں آئے ہیں نقصان تو ہمارا ہو ہی چکا۔‘‘ وہ قدرے تلخی اور ناگواری سے کہہ رہی تھی۔
ان کے بینچ کے پیچھے درختوں کے قریب سے گزرتے ہوئے اچانک ہی کسی کے قسم ٹھٹکے تھے۔
’’سر بھٹّی تو ہمیں بیچ منجدھار میں چھوڑ کر داغِ مفارقت دے گئے تھے۔ پروفیسرصاحب کی آمد یوں سمجھو کہ موسمِ خزاں میںنوید بہار کی مانند ہے۔ ان کے پڑھانے کے انداز سے تو اب ہمیںیہ یقین آنے لگا ہے کہ ہم ڈوبنے والے تو بہرحال نہیں ہیں۔‘‘ مریم مسکرا کر کہہ رہی تھی۔
’’اللہ کی ذات پر اعتماد رکھنے والے کبھی ڈوبتے نہیں… جبکہ غیر اللہ پر بھروسہ رکھنے والوں کے ڈوبنے کا خدشہ بہرحال ہوتا ہے… حد ہوتی ہے شخصیت پرستی کی بھی…‘‘
ضحی بیزاری سے بڑبڑارہی تھی۔ مریم بھونچکا رہ گئی اس نے اس پیرائے میں بات ہرگز نہیں کہی تھی جس انداز میں ضحی نے اسے لیا تھا۔ جبکہ درختوں کے پیچھے کھڑا یحییٰ ازحد حیران تھا کہ اس لڑکی کو بھلا اس سے کیا پرخاش ہے۔ جو اس کے ذکر پر اس قدر انگارے چبارہی ہے۔ پتہ نہیں کون تھی… خیر دیکھ لیں گے لیکچر میں۔‘‘ وہ سر جھٹک کر آگے بڑھ گیا۔
وہ سب ضحی کی حالت سمجھ رہی تھیں کہ بیماری کی وجہ سے اس کا مزاج چڑچڑا ہورہا تھا…
مریم نے ہولے سے اس کا ہاتھ دبایا اور ملائمت سے بولی ۔
’’لیکچر کا وقت ہوگیا ہے… چلو۔‘‘ ضحی کو اپنے رویے کا احساس ہوگیا تھا اس نے شرمندگی سے سرجھکا کر دھیمے لہجے میں کہا: ’’آئی ایم سوری مریم‘‘۔ مریم نے مسکراکر سرہلایا۔
’’دو لیکچر کرنے سے ہی سر دکھنے لگا ہے تم لوگ جاؤ میں یہیں بیٹھتی ہوں۔‘‘ اس نے اپنا ہاتھ مریم سے چھڑالیا تو وہ اسے سلام کرکے لیکچر کے لیے چلی گئیں۔
ریشماں تیز قدموں سے لیکچر کے لیے جارہی تھی۔ ضحی کو لان میں بیٹھے دیکھ کر لیکچر اٹینڈ کرنے کا ارادہ ترک کرکے اس کے قریب آگئی۔ وہ ضحی اور مریم کی کلاس فیلو تھی۔ پچھلے دنوں شہر سے باہر رہنے کی وجہ سے علی کی تعزیت نہیں کرسکی تھی… ضحی نے بہت مشکلوں سے خود کو سنبھالا تھا۔ مگر علی کی بابت ریشماں کے استفسار پر وہ خود پر قابو نہیں رکھ سکی تھی۔ آنسو ضبط کرنے کی کوشش میں اس نے اپنے لبوں کو کچل ڈالا تھا … مریم وغیرہ جب لیکچر روم میں پہنچیں تو یحییٰ و ہاں پہلے سے موجود تھا۔’’مے آئی کم ان سر؟‘‘
’’یس پلیز!‘‘ یحییٰ نے دروازے کی طرف رخ موڑ کر انھیں اجازت دی اور مریم کے گروپ پر نظر پڑتے ہی اسے کچھ دیر قبل والی لڑکی یاد آگئی۔ اس نے کھوجتی نگاہ ان سب پر ڈالی۔ ان میں کوئی بھی نئی لڑکی نہیں تھی۔ پھر اس نے سر جھٹک کر پڑھانا شروع کردیا۔ سارے اسٹوڈنٹ بغور لیکچر سن رہے تھے۔ جو چیپٹر آج وہ پڑھارہا تھا مریم کے گروپ نے اسے اسٹڈی کرر کھا تھا وہ اس قدر بور اور دماغ پکا دینے والا سبق تھا کہ ان لوگوں نے اسے ڈراپ کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ بقول جویریہ ’’یہ اس صدی کا بور ترین چیپٹر ہے۔‘‘ مگر اس لیکچر میں انھیں ایک الگ ہی تجربہ ہوا تھا۔ یحییٰ نے اسے اتنے دلچسپ انداز میں پڑھایا کہ وہ سبق ان لوگوں کے لیے انتہائی آسان اور دلچسپ بن گیا۔ لیکچر کے اختتام کے بعد جویریہ خوش ہوکر کہہ رہی تھی کہ اس چیپٹر کے ففٹین مارکس تو کہیں نہیں گئے۔ بالکل پکے۔
کلاس سے باہر نکلتے ہوئے مریم کی نظر اچانک ہی یحییٰ کے ہاتھوں میں موجود اس کتاب پر پڑی جو اس نے ان سے مانگی تھی۔ یحییٰ اسٹاف روم کی طرف بڑھ رہا تھا۔
’’ایکسکیوزمی سر!… سر آپ نے کل یہ کتاب دینے کو کہا تھا۔‘‘
’’اوہ ہاں… یہ میں آپ کے لیے ہی لایا تھا۔‘‘ یحییٰ نے کتاب اسے دے دی۔
’’کب تک لوٹائیں؟‘‘
’’جب تک آپ کی اسٹڈی مکمل نہ ہوجائے اور اگر سمجھنے میں دشواری ہو تو مدد کے لیے تو میں موجود ہی ہوں۔‘‘ یحییٰ کو ان سب کی کمزوری معلوم ہوگئی تھی۔ امتحان سے وہ سب چونکہ بہت ڈر رہے تھے اس لیے اس کی ہمہ وقت یہی کوشش ہوتی کہ وہ امتحان کے تعلق سے ان کے دلوں سے ڈر نکال دے اور کورس ان کے لیے آسان کردے۔
انھوں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور واپس اپنی مخصوص جگہ کی جانب چل پڑیں۔ وہاں ضحی اور ریشماں بیٹھی ہوئی تھیں۔ یہ لوگ ذرا قریب پہنچیں تو ضحی کو آنکھیں خشک کرتے پایا۔ مریم وغیرہ وہیں ٹھٹک گئیں اور ریشماں سے اشارے سے پوچھا ’’کیا ہوا؟‘‘
ریشماں نے کچھ ایسے انداز میں جواب دیا کہ وہ سمجھ نہ سکیں۔ مریم نے اس کو SMSکیا ’’علی یاد آرہا ہے؟‘‘ میسج پڑھ کر ریشماں نے اثبات میں سر ہلادیا۔ مریم نے گہری سانس لی اور ضحی کے پاس آگئی جس کے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔
اسٹاف روم میں داخل ہوتے ہی یحییٰ کو اچانک یاد آیا کہ گھر سے نکلتے وقت امی نے تاکید سے بجلی کا بل اسے دیا تھا، جسے وہ مسلسل تین دن سے بھول رہا تھا۔ اور ان سے وہ بل لے کر اس نے اسی کتاب میں رکھ دیا تھا جو ابھی مریم لے گئی تھی۔ وہ الٹے پیروں واپس پلٹ پڑا۔ اسے مریم گروپ کی مخصوص جگہ پتہ تھی۔ اسٹاف روم سے وہ سیدھا ادھر ہی چلا آیا۔
’’ایکسکیوز می مس مریم!‘‘ ان سے قدرے فاصلے پر رک کر اس نے اسے آواز دی۔ وہ سب الرٹ ہوگئیں۔ مریم بھی حیران ہوکر اٹھ کر آئی۔ یحییٰ نے اسے بل کے بارے میں بتایا اور کتاب سے بل نکال کر مریم کو لوٹاتے ہوئے غیر ارادی طور پر اس کی نظر ضحی پر پڑی۔
’’وہ لڑکی رو کیوں رہی ہے؟‘‘
’’سر وہ… ہماری سہیلی ضحی ہے… اصل میں…‘‘ مریم نے افسردگی سے سرجھکا دیا۔ پھر قدرے توقف کے بعد بولی: ’’اصل میں کچھ دن قبل ان کے چھوٹے بھائی کی deathہوئی ہے…‘‘
’’اوہ…‘‘ اس سے پہلے کہ یحییٰ کچھ کہتا ضحی پوری قوت سے چیخ اٹھی تھی۔
’’مریم‘‘ یحییٰ اور مریم نے چونک کر اسے دیکھا۔
’’تم نے یہ کیوں کہا کہ میرا بھائی مرگیا ہے۔‘‘ وہ مریم کے سر پر آکھڑی ہوئی۔ مریم بری طرح بوکھلاگئی۔
’’میرا بھائی شہید ہوا ہے… سنا تم نے‘‘ اس نے چلا کر کہا’’تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو کہ وہ مرگیا ہے…‘‘ وہ روتے ہوئے مریم سے شکوہ کررہی تھی۔ ’’اس نے شہادت پائی ہے اور وہ زندہ ہے زندہ… میرا علی… اپنے رب کے یہاں … رزق پارہا ہے۔‘‘
وہ جس طرح آئی تھی اسی طرح روتے ہوئے چلی گئی۔ مریم بہت شرمندہ ہوگئی تھی اور یحییٰ؟… اس کا دماغ تو کہیں اور ہی سفر کررہا تھا۔