اے میری پیاری بیٹی!
جان لو کہ ریگ زار حیات میں شادی ایک سرسبزو شاداب پیڑ کے مانند ہے۔ وہ ایک نغمہ ریز گلشن ہے جس میں ہر طرف محبت و مودت، رحمت اور سکون و اطمینان کی جوت جھلکتی ہے۔ اور یہ پُرکیف سما ہر دیکھنے والی آنکھ کو خوش کردیتا ہے۔ اور جب اس میں ذریت صالح (نیک اولاد) کے پھل لگتے ہیں تو گویا اُن کے ذریعے ہمارے لیے دنیا و آخرت میں آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان مہیا ہوجاتا ہے۔ نکاح ایک ایسا معاہدہ اور پختہ عہد و پیمان ہے کہ جس کے نتیجے میں دولہا اور دلہن دونوں پر کچھ حقوق و واجبات (Rights & Duties) مترتب ہوتے ہیں۔ اور اس معاہدے کی قوت اور مضبوطی کی حفاظت اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم اُن حقوق اور اُن کی ادائیگی کے بارے میں جان کاری حاصل کریں۔ لیکن اگر اس پاکیزہ ازدواجی معاہدے پر مادیت کا رنگ چڑھ جاتا ہے اور مال، ملازمت اور سماج میں مرتبہ و مقام حاصل کرنا پیمانہ اور مطمح نظر بن جاتا ہے تو اِن کے علاوہ رشتہ ازدواج کے جو شیریں ثمرات اور نمایاں خصوصیات ہوتی ہیں وہ سب دب کر رہ جاتی ہیں۔ اور نتیجتاً شوہر و بیوی کے درمیان دراڑ ظاہرہونے لگتی ہے اور یہ دن بدن وسیع ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس طرح خاندان کمزور ہوجاتا ہے پھر خاندان کے کمزور ہونے سے معاشرہ بھی کمزور ہوجاتا ہے۔
میری پیاری بیٹی اور میری آنکھ کی ٹھنڈک!
اب تم زندگی کے ایک نئے مرحلے میں قدم رکھنے والی ہو۔ تم ایک نئے گھر میںمنتقل ہونے والی ہو، جو ایک دوسراگھر ہوگا۔ اور اگر میں تم سے یہ کہوں تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ تم وہاں ایک نیا کھانا کھاؤگی اور ایک نئی زندگی کا سامنا ہوگا۔ اس نقلِ مکانی و زندگانی کے ساتھ تمہارا کھانا پینا، سونا جاگنا، تمہارا لباس اور تمہارا منظر، تمہاری فرصت و مشغولیت کے اوقات سب یکسر بدل جائیں گے۔ تم یاد کرو اس دن کو جب تم نے اپنا روز مرہ کا لباس اتار کر شادی کا جوڑا زیب تن کیا تھا تو تم نے درحقیقت اسی روز اپنی ماضی کی زندگی سے ناطہ توڑ کر نئی زندگی سے رشتہ جوڑ لیا تھا۔ تم نے تنہائی کی زندگی کو اتار پھینکا تھا کہ تم کسی کو اپنی زندگی کا شریک بنالو اور اس وقت تم نے ارادہ کرلیا تھا کہ اپنی اکیلی زندگی کو دوکیلی بنادوگی۔
اے میری لاڈلی بیٹی! اب ہوش کے ناخن لو اور ان متوقع تبدیلیوں کے باوجود یہ جان لو کہ دونوں زندگیوں کا اپنا ایک خاص لطف، مزہ اور حسن ہوتا ہے۔ اس لیے اپنی نئی زندگی اور اس کے تقاضوں کے مطابق گزارہ کرنے کی عادت ڈالو اور اپنے آپ کو اُس نئے ماحول سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرو اور اُنہی تبدیلیوں کے ساتھ اپنے آپ کو خوش رکھو۔
اے میری پیاری بیٹی! اللہ تعالیٰ کی حکمت سے شادی کے ذریعہ نسبی اور سسرالی رشتے بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’اُسی نے انسان کو پانی سے پیدا کیا اور اس کے لیے نسبی اور سسرالی رشتے بنائے اور تیرا رب ہی قادر ہے۔‘‘ تم اپنے شوہر کے ساتھ شادی کے بعد اُس کے اہلِ خانہ کے لیے بیٹی ہوگئی ہو تو تم کوشش کرو کہ اُن کے لیے بہترین بیٹی ثابت ہو اور اپنے نئے گھر میں ایک ایسی فضا بناؤ کہ نہ تم کسی پر ظلم و زیادتی کرو اور نہ تمہارے ساتھ ظلم ہو اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کا یہ رویہ بہت پسند ہے کہ وہ بڑوں کی بڑائی تسلیم کریں۔ اگر تم شوہر کے گھر والوں کے ساتھ حسنِ سلوک کروگی تو وہ تمہیں اپنے جگر کاٹکڑا دے دیں گے اور تمہیں ایسا قیمتی ہدیہ دیں گے کہ جسے نہ مال سے خریدا جاسکتا ہے اور نہ سونے سے تولا جاسکتا ہے۔ اب تمہیں چاہیے کہ اپنے آپ کو ہدیہ قبول کرنے کے لائق بناؤ اور اپنے حسنِ اخلاقِ، اچھے رکھ رکھاؤ اور شیریں کلامی سے اُس ہدیے پر اُن کا شکریہ ادا کرو۔ اور اس ہدیہ کی بہتر طریقے سے حفاظت کرو اور جس نے وہ ہدیہ دیا ہے ہمیشہ اُس کی ممنونِ خاطر رہو۔
اے دلہن بیٹی! ماشاء اللہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا اچھا شوہر دیا ہے جو واقعی معنوں میں اچھا ہے۔ میری تمنا تم دونوں کے لیے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا میں تقویٰ اور ایمان کا بلند مرتبہ عطا فرمائیں اور آخرت میں بلند درجات سے نوازیں۔ اب تمہاری ذمہ داری ہے کہ اپنے اچھے شوہر کے لیے اچھی بیوی بنو، اپنے اوپر اُس کے حق کو پہچانو اور اُس کے تعلق سے اپنی ذمہ داری کو محسوس کرو۔ اگر ایسا کروگی تو تم ہمیشہ اس کے ساتھ خوش نصیبی کی زندگی گزارو گی اور تمہارا گھر ایک خوش بخت گھر ہوگا۔ پھر اللہ کی اطاعت و بندگی میں ایک طویل عمر گزارنے کے بعد آخرت میں بھی تمہارا انجام بہتر ہوگا۔ اور اللہ کی رحمت سے تمہیں فردوسِ اعلیٰ میں مقام ملے گا۔
سنو اے پیاری بیٹی! یہ بات بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ بعض بیویاں زوجیت کے حقوق میں سے صرف اپنے حق سے واقف ہوتی ہیں اوریہ بھول جاتی ہیں یا اس بات سے غافل رہتی ہیں کہ اُن کے شوہروں کے تئیں اُن پر کیا حقوق ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت شوہر سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتی رہتی ہیں اور شوہر کے تعلق سے اُن پر جو ذمہ داریاں ہیں وہ ادا نہیںکرتی ہیں۔ اور کتنی بری ہے وہ بیوی جو لینا جانے اور دینا نہ جانے اور افسوس کی بات ہے کہ یہ گھٹیا معاملہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ کرتی ہے جو گھر در، کھانے پینے، سونے جاگنے اور اٹھنے بیٹھنے غرض یہ کہ ہر کام میں اس کا شریک ہے اور وہ اس کے جذبات و احساسات اور اس سے پیار و محبت کا ہر وقت خیال کرتا ہے۔ شوہر اور بیوی کی حقیقی قربت و تعلق کی تصویر کشی اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کی ہے: ’’عورتیں تمہارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے لباس ہو۔‘‘
لیکن پیاری بیٹی! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم انتہائی نیک اور خوش بخت بیوی بنو۔ اپنی ازدواجی زندگی کے سارے کاموں کی انجام دہی میں اپنی نیت کو خالص اللہ کی رضا و خوشنودی کو مقصد بناؤ اور کسی کام کو لوگوں کو دکھانے یا اُن کی واہ واہی کے لیے مت کرو۔ کیوں کہ جنت کی مالک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکت ہے اور ہر حال میں اسی کی رضا ہمارا مقصود ہونا چاہیے۔
بیٹی! جہاں تک تم سے ہوسکے اپنے اقوال و افعال، اپنی تقریبات اور اپنے سارے معاملات میں سنتِ رسولؐ کی پابندی کرو۔
اور بیٹی اپنی نمازوں کی حفاظت کرو اور خاص طور سے نمازِ فجر سے غفلت نہ برتو۔ غسل و طہارت (پاکیزگی حاصل کرنا) کو سورج نکلنے تک مت ٹالو۔ کیونکہ یہ انتہائی بری عادت ہے اور اس کے نتیجے میں کسلمندی پیدا ہوتی ہے۔
کوشش کرو کہ ہر وقت اللہ کا ذکر تمہاری زبان پر جاری رہے۔ خاص طور پر صبح و شام اور سونے کے وقت کے ذکر کی پابندی کرو۔ تلاوتِ قرآن کریم کی پابندی کرو اور خاص طور پراپنے روز مرہ کے وظیفہ کے طور پر قرآن کی جو سورتیں (یٰسین و رحمن) وغیرہ پڑھتی ہو اُن کا پڑھنا نہ بھولنا۔ یاد رکھو! دنیا کی مشغولیت تمہیں آخرت سے غافل نہ کردے اور چھوٹے چھوٹے معمولی کام تمہیں بڑے کاموں سے غافل نہ کرنے پائیں۔
اپنی اردو زبان کی حفاظت کرنا، اپنے شوہر اور بچوں نیز تمام اہلِ خانہ سے اردو ہی میں بات کرنا۔ بولتے وقت اپنے لب و لہجہ کا بھر پور خیال رکھنا۔ کیوں کہ آج کل ہندی میڈیم اسکولوں میں پڑھنے کے سبب ہمارے معاشرے کے لوگوں کے تلفظ بالکل بگڑ گئے ہیں اور لوگ بڑی بے تکلفی سے ظفر کو جفر اور منظور کو منجور بولتے ہیں۔ اور اس قلبِ ماہیئت کا ہرگز انھیں احساس نہیں ہوتا ہے۔
تمام لوگوں سے اچھے اخلاق سے پیش آنا۔ خاص طور پر اپنے شوہر اور اُس کے اہلِ خانہ نیز اس کے عزیز و اقارب کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا اور اپنے قریبی رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔
اپنے گھر اور اپنی چھوٹی سی مملکت کے کاموں کو کمال سلیقے اور اچھے ڈھنگ سے انجام دینا اور اسی میں زندگی گزارنے کے لیے عمدہ سازوسامان مہیا کرو۔ اپنے شوہر کے مال کی حفاظت کرو کیونکہ وہ تمہارے اور تمہارے بچوں کے کام آئے گا۔
اور تم حدیثِ نبویؐ کے مطابق وہ نیک عورت بنو جس کے بارے میں آپؐ نے فرمایا ہے: ’’نیک خاتون وہ ہے جسے جب اس کاشوہر دیکھے تو خوش ہوجائے۔ اور جب اُسے کوئی حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور اگر وہ کہیں دور چلا جائے تو وہ اس کے گھر بار اور مال و اسباب کی حفاظت کرے۔‘‘ (یہ حدیث کتاب ’’سنن ابو داؤد‘‘ میں ہے) اور اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر قدم نہ نکالو اُس کی اجازت کے بغیر نفل روزے بھی نہ رکھو۔
بیٹی! ہمیشہ شوہر کی عزت کرو، یہ بات تمہیں یاد رکھنی چاہیے کہ نیک شوہر دنیا کے سارے خزانوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ وہ اگر تم سے محبت کرے گا تو تمہیں عزت دے گا۔ اور اگر تمہیں ناپسند کرے گا تو بھی تم پر ظلم ہرگز نہ کرے گا۔ کیونکہ وہ اللہ سے ڈرنے والا ہوگا۔ اس لیے ہر وقت اپنے شوہر کا خیال رکھو۔ تمہارے اوپر تمہارے شوہر کا بڑا عظیم حق ہے اس کی ادائیگی میں ہرگز کوتاہی نہ کرو۔ اور نبی ﷺ کا فرمان ذرا دھیان سے سنو اور غور کرو کہ تم اس کے مطابق کس مقام پر ہو۔ آپؐ نے فرمایا: ’’تمہارا شوہر تمہاری جنت اور تمہاری جہنم ہے۔‘‘ (مسلم شریف)
تم اس کے ساتھ نرم برتاؤ کرو اور ایک نرم مزاج ساتھی بنو۔ اُس کی معمولی معمولی لغزشوں پر گرفت کرنے سے بچو۔ اُس کے ساتھ انتہائی محبت کرنے والی اور جان نچھاور کرنے والی بیوی بنو۔ نبی ﷺ کا فرمان غور سے سنو، آپؐ نے فرمایا: ’’تمہاری جنتی عورتیں بہت زیادہ محبت کرنے والی، بہت زیادہ بچہ جننے والی اور ہر وقت شوہر کا خیال کرنے والی ہیں اور ان کا حال یہ ہو کہ جب انہیں اپنے شوہر کے مزاج میں کسی طرح کی ناگواری اور غصہ محسوس ہو تو اپنا ہاتھ اُس کے ہاتھ میں دے کر کہیںکہ جب تک آپ راضی نہ ہوں گے مجھے نیند نہ آئے گی۔‘‘
جب شوہر گھر میں داخل ہو تو خوشدلانہ مسکراہٹ سے اس کا استقبال کرو اور اس پر پیاربھری نگاہ ڈالو ۔ اس کے ذریعے اس کا سارا پسینہ اور تھکن دور ہوجائے گی۔ اور جب وہ گھر سے باہر جائے تو اس کے لیے نیک دعائیں کرو۔
اپنے شوہر کے ساتھ اچھا رہن سہن رکھو اور ہمیشہ اُس کے ساتھ رہنے کی کوشش کرو، اس سے دونوں کے دل ایک دوسرے سے جڑیں گے اور دونوں ایک دوسرے کے حقوق کما حقہ ادا کریں گے۔ اپنے شوہر کے عزیزو اقارب بالخصوص اُس کے والدین کا بھر پور احترام کرو۔ اُن کی بات کو اپنے شوہر سے نہ بیان کرو کہ تمہاری ماں نے یہ کہا اور یہ کیا اور تمہارے باپ نے یہ کہا اور یہ کیا۔ بلکہ سب کے لیے ایک نیک اور اطاعت گزار بیٹی بن کر رہو۔
اپنے شوہر کا راز فاش نہ کرو اور تمہارے اور شوہر کے درمیان جو خصوصی معاملات ہیں ان کو کسی دوسرے سے بیان نہ کرو۔ اپنے گھر کو ڈرامہ کا اسٹیج نہ بناؤ کہ جو چاہے جب چاہے داخل ہوجائے۔
اپنے شوہر کے ساتھ زندگی کے معاملات میں بھر پور تعاون کرو اور اس کا ہاتھ کبھی نہ چھوڑنا تاکہ وہ تمہارے ساتھ عہد ِ وفا نبھاتا رہے۔ اور یہ وہ عہد ہے جو اس نے نکاح کے وقت تم سے کیا تھا۔ لعن طعن سے بچو اور اس کے حسنِ سلوک کی ناشکری نہ کرو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے: ’’میں نے جہنم کو دیکھا تو اس میں عورتوں کی کثرت تھی۔‘‘ عورتوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایسا کیوں ہوگا؟ آپ ؐ نے فرمایا: ’’عورتیں لعن طعن بہت کرتی ہیں اور شوہروں کے حسنِ سلوک کی ناشکری کرتی ہیں۔‘‘
اپنے شوہر کی خوشی و غم میں شریک رہو۔ اور خوش حالی و بدحالی میں اس کا ہاتھ بٹاؤ جہاں تک ہوسکے تم دونوں ایک دوسرے سے خوش رہو۔ تم شوہر کے ساتھ ہمیشہ خوش اخلاقی سے پیش آؤ تاکہ تمہارا ایمان مکمل ہوجائے۔ اپنے باطن اور اندرون کو تقویٰ وپرہیزگاری سے آراستہ کرو اور اپنے ظاہر کو اچھے اخلاق اور نیک اعمال سے سجاؤ۔ نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’بلا شبہ کامل ایمان والا مومن وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔‘‘
اپنے شوہر سے اُس کی طاقت سے زیادہ خرچ کا مطالبہ مت کرو اور قناعت (تھوڑے پر راضی ہونا) سے کام لو۔ اور اس سے وہ کہو جو نیک بیویاں اپنے شوہروں سے کہتی ہیں: ’’ہمیں ہمیشہ حلال کھلانا، ہم بھوک پر صبر کرلیں گے مگر جہنم کی آگ پر صبر نہیں کریں گے۔‘‘ اگر تمہارے پاس کچھ مال ہو اور تمہارا شوہر ضرورت مند ہے تو بخل مت کرو بلکہ خوشی خوشی اس پر خرچ کرو۔ یہ تمہاری جانب سے فیاضی اور شرافت کا معاملہ ہوگا۔ اور اللہ کے یہاں تمہیں بڑا اجر ملے گا۔
کبھی شوہر بیمار ہوجائے تو تم اس کے لیے نفسیاتی معالج بن جاؤ اور اپنی محبت و شفقت اور لطف و مہربانی سے اس کے مرض کو ہلکا کرنے کی کوشش کرو۔ درحقیقت یہ کسی بھی مرض کے علاج کا ایک بڑا حصہ ہے۔
جب تمہارا شوہر گھر میں موجود ہو تو ٹیلی فون پر بہت زیادہ بات کرنے سے بچو۔ اپنے حقوق و واجبات میں توازن سے کام لو ۔ بری مجلسوں اور چغلی و غیبت سے دور رہو۔
اپنے شوہر کے بارے میں بدگمانی سے کام نہ لو اور اس کے پوشیدہ معاملات کے چکر میں نہ پڑو۔ تمہارے اور اس کے درمیان اعتماد کی جو لمبی دیوار ہے اس کی حفاظت کرو، کہیں اس کے ڈھانے کا تم سبب نہ بن جاؤ کہ پھر تمہیں لوگوں سے لعن طعن سننا پڑجائے۔
اگر شوہر سے کبھی کوئی الجھن ہو تو ’’مجھے طلاق دے دو‘‘ کے کلمہ کوزبان پر لانے سے بچو اور شوہر کو دھمکی دینے کے لیے کبھی یہ نہ کہنا کہ جاؤ دوسری شادی کرلو بلاوجہ بھی ہنسی مذاق میں یہ بات تمہاری زبان پر ہرگز نہ آنے پائے۔ اپنے رفیقِ حیات اور شریکِ زندگی سے معاملہ کرنے کا سلیقہ سیکھو اور کوشش کرو کہ تمہارے ہاتھ وہ قریب ترین راستہ اور افضل طریقہ لگ جائے جس کے ذریعہ تم اپنے شوہر کے دل میں اترجاؤ۔
——