لورین بوتھ کے قبولِ اسلام کا سفر

.....

[لورین بوتھ نے جو ایک معروف تجزیہ نگار اور سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی نسبتی بہن ہیں،حال ہی میں اسلام قبول کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کا ایک انٹرویو قدرے اختصار سے پیش ہے، جو انھوں نے پریس ٹی وی کے پروگرامFace To Face میں محمد سعید بھامن کو دیا۔ ترجمہ اویس احمد نے کیا ہے۔ قارئین حجاب کے لیے ہم اسے ترجمان القرآن سے بہ شکریہ نقل کررہے ہیں۔]

قبولِ اسلام کا سفر کیسا رہا… آپ کا وہ روحانی سفر کب شروع ہوا تھا جو آج سے چھے ہفتے قبل اسلام کی قبولیت پر منتج ہوا؟
٭… یہ سفر بہت دل چسپ رہا۔عام طور پر جب آپ سفر پر نکلتے ہیں تو آپ کے علم میں ہوتا ہے کہ آپ سفر میں ہیں اور آپ کہاں جارہے ہیں۔ مجھے تو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ میں اسلام کی طرف محوِ سفر ہوں، پھر اچانک چھے ہفتے قبل منزل مقصود پر پہنچ بھی گئی۔ اس لیے مجھے اندازہ لگانا ہوگا کہ میرے سفر کی ابتدا کہاں سے ہوئی تھی کیوں کہ اس کے بارے میں شروع میں بالکل لا علم تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ جب میں نے پہلی بار فلسطین میں قدم رکھا تھا تو وہ علاقہ مجھے اپنا اپنا سا لگا تھا، میں نے اس علاقے میں کوئی خاص بات محسوس کی تھی۔ آپ کو کسی علاقے سے انسیت محسوس ہوا اور وہاں کے لوگ بھی اپنے لگیں تو یہ بلاوجہ نہیں… اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ وہی میرے سفر کی ابتدا تھی۔
کسی دوسرے علاقے میں رہتے ہوئے آپ کے لیے یہ محسوس کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ مسلمانو ںکا رہن سہن کیسا ہے، حالانکہ اس مقدس سرزمین میں عیسائی بھی رہتے ہیں اور ہمیشہ سے رہتے آئے ہیں۔ وہ بھی آپ کو اسی طرح خوش آمدید کہتے ہیں جو اپنے آپ میں ایک مضبوط تعلق ہے۔ میں نے فلسطین آنا جانا شروع کیا اور خصوصاً مسلمانوں کے گھروں میں گئی وہاں جو کچھ دیکھا اسے اُس تصور سے بالکل مختلف پایا، جو مسلمانوں کے بارے میں مغربی نقطۂ نظر سے لکھا اور بیان کیا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پہلی بار جب میں فلسطین گئی تو سوچ رہی تھی کہ انگریز نسل سے تعلق کی بنا پر مجھے نفرت اور تذلیل کا سامنا کرنا پڑے گا اور مغرب سے ہونے کے باعث مجھے شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا، لیکن میرے شکوک یکسر غلط ثابت ہوئے بلکہ جو کچھ ہوا وہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ میں پہلی بار فلسطین گئی تو مجھے وہاں کے بارے میں کتنا کم علم تھا اس کا اندازہ اس بات سے کریں کہ میں جنوری میں وہاں گرم موسم کے لباس میں چلی گئی۔ اس لیے کہ یہ تک نہیں جانتی تھی کہ اس موسم میں وہاں سخت سردی پڑتی ہے۔ میں وہاں پہنچی تو اسرائیلیوں نے میرا سامان قبضے میں لے لیا، چوں کہ میں فلسطینی علاقے میں جارہی تھی۔ اسرائیلیوں کو اگر پتا چل جائے کہ آپ ویسٹ بینک یا غزہ جارہے ہیں تو یہ ایک عمومی کارروائی ہوتی ہے۔ غزہ پہنچی تو بارش ہورہی تھی۔ میں ایک پینٹ شرٹ میں کھڑی کانپ رہی تھی اور ارد گرد بہت سارے عرب مسلمان آجارہے تھے۔ ایک عرب خاتون میرے پاس آئی اور مجھے اپنے گھر چلنے کی دعوت دی۔ اس نے کپڑے بدلنے کے لیے اپنی بیٹی کے کپڑوں سے بھرا ایک سوٹ کیس مجھے پیش کردیا۔ اسے لوگ کچھ بھی سمجھیں، لیکن یہ واقعہ میرے لیے مسلمانوں کی اس سخاوت کاایک خوبصورت تعارف تھا، جس کا اس کے بعد مجھے اکثر مسلمان علاقوں میں تجربہ ہوتا رہا۔
آپ کو مسلمانوںکے اچھے برتاؤ نے اسلام کی طرف مائل کیا یا اس کا محرک کچھ اور بھی تھا؟
٭…مجھے علم نہیں تھا کہ میں اسلام کی طرف کھچی چلی جارہی ہوں۔ میں صرف یہ سوچ رہی تھی کہ فلسطینی بہت اچھے لوگ ہیں۔ ان کا دوستانہ انداز اور ان کی وسعتِ قلبی میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ پھر میری اس سوچ کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا۔ میں دوسرے مسلمان علاقوں میں بھی گئی اور خود برطانیہ میں بھی۔ جب میں غزہ کے بارے میں کسی تقریر کے دوران اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتی تھی اور خاموش ہوجاتی تھی (تو اکثر صحافی اسے پیشہ ورانہ روایات کے خلاف سمجھتے تھے) لیکن یہ میرے اختیار میں نہیں تھا۔ ایسا ہی جب مسلمان سامعین کے سامنے ہوا تو میں نے عجیب منظر دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ مرد بغیر شرمائے اپنے آنسو پونچھ رہے ہیں اور خواتین گرم جوشی سے مجھے گلے لگا لیتی ہیں۔ ان کی یہ گرم جوشی اس سے پہلے میرے لیے وجود ہی نہیں رکھتی تھی اور مجھے ان کا یہ انداز بہت ہی پیارا لگا۔
ہمیں کچھ اس روحانی لمحے کے بارے میں بتائیں جب آپ نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا؟
٭… اسلام قبول کرنے کا فیصلہ میں نے نہیں کیا۔ ہوا کچھ یوں کہ میں ستمبر ۲۰۱۰ء میں القدس ریلی کی رپورٹنگ کے لیے ایران گئی اور وہاں آٹھ دن تک رکی۔ اپنی صحافتی ذمہ داریوں کے بعد آخری دن مجھے تاریخی شہر اصفہان کی سیر کا موقع ملا۔ میری ایک مقامی ساتھی نے کہا: ہم کچھ دیر گھر پر رک جاتے ہیں اور شام کو شہر کی سیر کے لیے نکلیں گے جب شہر کا نظارہ زیادہ خوبصورت ہوگا۔ شام کے وقت میں ایک خانقاہ دیکھنے گئی، وہاں میں نے دیکھا کہ بہت ساری خواتین دیوار کی جالیوں کو پکڑے رو رہی ہیں۔ انھیں یوں دیکھ کر مجھے لگا شاید ان کے گھر میں کوئی بیمار ہے یا پھر انھیں کوئی اور مسئلہ درپیش ہے۔ پھر میںنے چند ادھیڑ عمر خواتین کو دیکھا، ان کے آنسو گالوں پر بہہ رہے تھے، مگر ان کے چہرے دمک رہے تھے، امن و سکون ان کے چہروں سے عیاں تھا۔ میں بھی ان جالیوں کے ساتھ کھڑی ہوگئی اور آنکھیں بند کرکے میں نے سوچا تیرا شکر ہے اللہ تونے مجھے اس سفر کا موقع عطا کیا۔ میں تو اس کی توقع نہیں رکھتی تھی۔ میں وہاں مسجد میں بیٹھ گئی۔ سوچا تھا کہ کچھ دیر رک کر چلی جاؤں گی، لیکن جب میں بیٹھ گئی تو مجھے خوشی، امن اور سکون کے ایسے جذبے نے گھیر لیا کہ اب میں وہاں سے ہلنا بھی نہیں چاہ رہی تھی۔ میں ساکت بیٹھی فرش پر نگاہیں گاڑے سوچ رہی تھی کہ درد بھی کوئی چیز ہے؟ کیوں کہ مجھے کبھی زندگی میں اس قدر خوشی اور سکون محسوس نہیں ہوا تھا۔
اسی دوران ایک نوجوان ایرانی لڑکی میری ساتھی کے پاس آئی اور اس سے پوچھنے لگی کہ مجھ سے پوچھے کہ کیا میں اس وقت سکون کی حالت میں ہوں؟ مجھے یاد ہے کہ میں نے سوچا کہ کتنا عجیب سوال ہے، میں سکون کی حالت میں ہی تو ہوں۔ سکون کے علاوہ بھی دنیا میں کچھ ہے؟ اس نے کہا: ہاں۔ میں جانتی ہوں۔ میں نے تمھیں مسجد میں دیکھا تھا اور مجھے تمہاری کیفیت محسوس ہورہی تھی۔ اس نے پوچھا: کیا میں تمہارے ساتھ بیٹھ سکتی ہوں؟ میں نے کہا: ہاں، کیوں نہیں۔ وہ میرے سامنے بیٹھ گئی۔ کچھ دیر میں اس کی دیگر ساتھی لڑکیاں بھی میرے گرد دائرے میں بیٹھ گئیں۔ ہم وہاں کافی دیر بیٹھے رہے… خاموش۔ مجھے نہیں پتا کتنی دیر گزری ہوگی۔ ہم نے مزید کوئی بات نہیں کی، بس بیٹھے رہے۔ پھر اس نے میرے ساتھ تصویر بنوائی کہ وہ اپنے خاوند کو دکھائے گی کہ مسجد میں میرے ساتھ کیا کیفیت گزری۔ کافی دیر بعد میری ساتھی نے کہا کہ اب ہمیں کھانا کھانے جانا ہوگا۔ میں کھڑی ہوگئی اور سوچ رہی تھی کہ اب وہ کیفیت ختم ہوجائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، میری کیفیت برقرار رہی۔ کچھ کم ضرور ہوئی جب ہم ادھر ادھر چلے پھرے، لیکن خوشی کا وہ احساس اور ہلکا پھلکا پن ساتھ رہا۔ ہم نے کھانا کھایا اور مسجد کے دوسرے حصے دیکھے، لیکن میں اس دوران واپس اسی جگہ جانے کے بارے میں سوچتی اور اپنی ساتھی سے پوچھتی رہی کہ ہم وہیں واپس جارہے ہیںنا۔ میری ساتھی نے بتایا کہ ہمیں واپس اصفہان ہوٹل میںجانا ہے۔تم کیا کرنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا: میں اسی جگہ فرش پر سونا چاہتی ہوں۔ کیا ایسا ممکن ہے؟ اس نے کہا: ہاں، بالکل ممکن ہے۔ ہم واپس گئے، قرآن پاک پڑھتے رہے اور وہیں اسی فرش پر باقی تمام رات سوتے جاگتے گزاردی۔
کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوئی چیز آپ کو اندر سے کھینچ رہی تھی امن اور سکون کی طرف، جسے بعد میں آپ نے سمجھا کہ آپ کو ایک نئے دین کی طرف جانا ہے؟
٭… اگلے دن جب ہم اٹھے تو میں نے اسی مسجد میں فجر کی نماز ادا کی اور وہ میرے لیے واقعی ایک عجیب تجربہ تھا۔ مجھے نماز ادا کرنے کا طریقہ آتا تھا۔ میں نے پہلے سے نماز کا طریقہ سیکھ رکھا تھا کیوں کہ میں برسوں سے مسجدوں میں جاتی رہی تھی اور میں نے جذبۂ احترام کی نیت سے نماز کا طریقہ سیکھ لیا تھا، لیکن اس دن نماز کی ادائیگی نے مجھے حیران کردیا کیوں کہ میں نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ میں اسلام قبول کروں گی۔ نماز کے بعد جب ہم مسجد سے نکلے تو میں ایک ہی چیز کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ مجھے اس کیفیت سے نجات حاصل کرنی ہے، کیوں کہ میں جانتی تھی کہ اسلام قبول کرنا بہت مشکل کام ہے اور اگر میری یہ کیفیت جارہی رہی تو میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہوگا۔ میرے اندر سے ایک اور آواز نے کہا کہ تم اس کیفیت سے نجات کیوں حاصل کرنا چاہتی ہو؟ کیا تم عام دنیا والی اس بھاگ دوڑ والی کیفیت میں واپس جانا چاہتی ہو؟ نہیں… میں نے فیصلہ کرلیا کہ نہیں، میں اسی کیفیت میں رہنا چاہتی ہوں۔
گویا اس کیفیت نے آپ کی روح کو جکڑ لیا تھا… لیکن کیا وہ کیفیت اب بھی باقی ہے؟
٭… ہاں کچھ نہ کچھ تو ہر وقت رہتی ہے اور کبھی بڑھ بھی جاتی ہے۔ ایران سے واپس جانے کے تقریباً ایک ہفتے بعد تک میں خوف زدہ تھی۔ میں اپنے اندر کی آواز کو دبا رہی تھی اور کلمۂ شہادت پڑھنے سے اپنے آپ کو روک رہی تھی۔ میں خوف کا شکار تھی، میں بہت پریشان تھی کیوں کہ میں نہیں جانتی تھی کہ میرے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ پھر ایک دن میں نے غزہ میں مقیم الکفانہ نامی عرب خاندان سے ’اسکائیپ‘ (بذریعہ کمپیوٹر) رابطہ کیا۔ میں جب غزہ میں تھی تو میں اس خاندان کے ساتھ مقیم رہی تھی۔ وہاں میری ایک بہت پیا رکرنے والی ماں ہے، ایک بھائی یاسر اور بھابی ہیں۔ میں نے یاسر سے کہا کہ میرے ساتھ یہ کیفیت ہورہی ہے اور میں اسلام قبول کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔ میں ویب کیم پر دیکھ رہی تھی کہ وہ اور اس کی بیوی خوشی سے اچھل پڑے۔ اس نے کہا: جو بھی کرنا ہے سکون سے کرو کیوں کہ تم پر کوئی زبردستی نہیں کررہا۔
کیا آپ نے اپنے قبولِ اسلام کے ردِ عمل کے بارے میں سوچا تھا جو یہاں برطانیہ میں ہوگا۔ لورین بوتھ صحافتی دنیا میں ایک بڑا نام ہے۔ وہ اسلام قبول کرلے گی تو میڈیا کا کیا ردِ عمل ہوگا؟
٭… ایران میں ہونے والی اس خصوصی کیفیت کو دبانے کی کوشش میں اس خوف کا حصہ بھی تھا، لیکن ساتھ ساتھ میرے اندر کی آواز دبتی بھی نہیں تھی۔ مجھے نماز کے درست الفاظ نہیں آتے تھے لیکن میں تین چار مرتبہ نماز پڑھتی تھی۔ صرف سبحان اللہ اور اللہ اکبر کہتی تھی اور رکوع و سجود کرتی جاتی تھی، کیوں کہ مجھے اس کی طلب ہوتی تھی، ہر روز رات کو بھی۔
جہاں تک ردِ عمل کا تعلق ہے اُس وقت تک میں میڈیا کے بارے میں پریشان نہیں تھی لیکن میں سوچتی تھی کہ اگر میں مذہب تبدیل کرتی ہوں تو مجھے کس حد تک تبدیل ہونا پڑے گا۔ مغربی معاشرے سے اسلامی معاشرت کا سفر بہت بڑی تبدیلی کا متقاضی ہوگا۔ میں جانتی تھی کہ اسلام قبول کرنے کے بعد مجھے کس حد تک اندرونی اور بیرو نی طور پر تبدیل ہونا ہوگا۔ مجھے اسی کا خوف تھا کہ لوگ کیا کہیں گے، میرے دوست کیا کہیں گے اور اسی وجہ سے میں اپنے آپ کو روک رہی تھی۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے وہ بعد کی بات تھی کیوں کہ جب آپ اتنے بڑے مقصد کے لیے جاتے ہیں تو پھر آپ کے پاس زیادہ راستے نہیں ہوتے۔
قبولِ اسلام پر آپ کو اپنے گھر والوں، دوستوں اور رشتے داروں کی طرف سے کس قسم کے ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا؟
٭… سب سے اہم تو میرا خاندان تھا۔ اس لیے میں نے قبولِ اسلام سے پہلے اپنی ماں اور بہن سے بات کرلی تھی۔ میں نے اپنی والدہ کو اس رات مسجد میں اپنے اوپر طاری ہونے والی کیفیت کے بارے میں بتایا تو وہ انتہائی جذباتی ہوگئیں جیسے کہ وہ میری اس کیفیت کو سمجھ رہی ہوں۔ میری بہن نے اس پر یہ کہا کہ تمہارے دل میں مسلمانوں کے لیے جو عزت اور احترام ہے یہ کیفیت اسی وجہ سے ہے۔ لیکن اگلے ہفتے جب میں واپس گھر میں داخل ہوئی تو میں نے سر پر اسکارف لیا ہوا تھا۔ ماں نے حیرانی سے پوچھا، تو میں نے کہا: میں نے آپ کو بتایا تھا ناں کہ میں مذہب تبدیل کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہوں، تو میں نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ ان کا ردِ عمل شدید تھا۔ ان کے لہجے میں حیرت اور غصے کا امتزاج تھا۔ ’’اسلام؟ ارے میں تو سمجھی تم بدھ مت کی بات کررہی ہو۔‘‘ وہ بہت غصے میں تھیں۔ پھر میں نے اپنی والدہ کو بڑی نرمی سے اسلام کے بارے میں بتایا اور مسلمانوں کے اپنے ساتھ رویے کے بارے میں بھی بات کی۔ اس کے بعد وہ کافی حد تک پرسکون ہوگئیں، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ وہ اب بھی میرے نئے مذہب کے بارے میں تذبذب اور شک میں مبتلا ہیں۔
چند سال پہلے آپ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ایک تصور رکھتی تھیں، اب جب کہ آپ خود دائرۂ اسلام میں داخل ہوچکی ہیں، تو وہ نظریہ اور تصور کس حد تک تبدیل ہوا؟
٭… میں نے اس سے پہلے اس موضوع پر بات نہیں کی، لیکن یہی وہ بات تھی جس نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ اسلام کس قدر روحانی خوبصورتی کا حامل دین ہے۔ باہر سے دیکھنے والے کے لیے دن میں پانچ وقت نماز ادا کرنا جنونیت، پاگل پن، مشکل اور خوف ناک نظر آتا ہے۔ نماز کے بارے میں میرا نظریہ بھی کچھ اسی قسم کا تھا۔ میں سوچتی تھی اسلام اور مغرب کے درمیان رابطے کے لیے ایک ڈکشنری ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ جب مسلمان اللہ اکبر کہتے ہیں تو سننے والے غیر مسلم اس کا فوری مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم تمہیں قتل کردیں گے، ہم تم سے نفرت کرتے ہیں، کیوں کہ تم لادین ہو۔ حالانکہ جب مسلمان اللہ اکبر کہتا ہے تو وہ دراصل کہہ رہا ہوتا ہے کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ یہ اپنے اندر ایک انتہائی خوبصورت بات ہے کہ ایک اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں۔ یہ احساس اور ایمان ہمیں اتنا پرسکون کردیتا ہے کہ دنیا ایک بہت پرسکون جگہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ نہ جانے مغرب میں بیٹھے ہوئے ہمیں یہ کیوں سنائی نہیں دیتا؟ اسی نے اسلام کے بارے میں میرا تصور مکمل طور پر تبدیل کردیا ہے۔
کیا آپ سمجھتی ہیں کہ آپ اسلام کا پیغام دوسروں تک پہنچاسکتی ہیں، جو اسلام کے بارے میں غلط تصور رکھتے ہیں لیکن وہ اس پیغام کی سچائی کو سمجھنے والا دل رکھتے ہیں؟
٭… میرے خیال میں اُن بہت سارے لوگوں تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے جو کھلا دل رکھتے ہیں اور بات سننا اور اسلام کے بارے میں اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتی ہوں بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جو اس دنیا میں اس قدر مگن ہیں اور ان کے دل نفرت سے اس قدر بھرے ہوئے ہیں کہ میں ان کے بارے میں کچھ زیادہ پرامید نہیں۔ وہ کبھی یقین نہیں کریں گے کہ ہم مسلمان اس طرح خوش و خرم زندگی بھی گزار سکتے ہیں۔ میں یہاں کہنا چاہتی ہوں کہ گزشتہ ۴۸ گھنٹوں میں مجھے میرے فیس بک، موبائل اور فون پر ۶۰۰ کے لگ بھگ پیغامات موصول ہوئے۔ تقریباً سب کے سب کا آغاز ایک خوبصورت فقرے سے ہوتا ہے: ’’السلام علیکم‘‘ … اسلام میں خوش آمدید… ہم سب تم سے بہت محبت کرتے ہیں … تمہارے قبولِ اسلام سے ہمیں بہت خوشی ہوئی ہے۔‘‘ یہ وہ زبان ہے جو ہم نے کبھی بھی استعمال نہیں کی… اپنے گھر کے افراد میں بھی نہیں اور ہمیں … برطانیہ اور امریکہ میں رہنے والوں کو اس کا استعمال کس قدر مشکل لگتا ہے۔ میں اسے بچوں جیسی معصوم شفقت کہوں گی، کیوں کہ یہ بچوں جیسا معصوم، نازک اور خوبصورت اظہار ہے۔
قبولِ اسلام کے بعد آپ کا اپنی ذات کا تجربہ کیا رہا؟ کیا روحانی محسوسات رہے؟
٭…میں ایران سے واپس آئی، تو شروع کے دنوں میں جب میں سو کر اٹھتی تھی تو میرے ذہن میں بہت سارے سوالات سر اٹھاتے تھے، مثلاً میں مسلمان ہوں ، اس لیے آج کے دن کے لیے میری زندگی کا مقصد کیا ہو؟ میں کیا پہنوں؟ ایک ماں ہونے کے ناطے میرا عمل کیسا ہونا چاہیے؟ یہ سوال خاص طور پر اس وقت ابھرتے جب میں نیند سے جاگتی تھی، لیکن جلد ہی مجھے احساس ہونے لگا کہ میری زندگی کی ڈگر خود بخود درست ہوچلی ہے۔ مجھے اپنا آپ ہلکا پھلکا لگنے لگا۔ خود بخود میرا رجحان زیادہ حیادار لباس کی طرف ہوگیا۔ میں ساری زندگی شراب پیتی رہی ہوں، اسے یکسر چھوڑ دیا، اور اس وقت میں زندگی کے اس موڑ پر پہنچ چکی ہوں کہ میں شراب اپنے ہونٹوں سے چھونے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ ایک رات میں دوستوں کے ساتھ تھی، ان کے ساتھ میں نے بھی شراب کی ایک بوتل خرید لی لیکن جب میں نے پہلا گھونٹ لیا تو میں برداشت نہیں کرسکی اور اسے تھوک دیا۔ صرف اس لیے نہیں کہ وہ حرام تھی بلکہ اب میں اسے پینا ہی نہیں چاہتی تھی۔ میرے خیال میں میرے اندر یہ ایک بڑی تبدیلی تھی… اور یہ تبدیلی ایسے آئی جیسے سرے سے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
آپ کے بچوں کا مذہب کی تبدیلی پر کیا ردِ عمل تھا؟
٭… میری دو پیاری بچیاں ہیں۔ وہ مجھ سے فلسطین کے بارے میں بہت کچھ سنتی رہتی تھیں۔ ہم تینوں آپس میں بات چیت کرتے تھے کہ غزہ میں کیا ہورہا ہے؟ فلسطینیوں کے ساتھ کیا مظالم ہورہے ہیں؟ اس لیے وہ میری ملازمت کی زندگی کے حوالے سے کافی حد تک پہلے سے آگاہ تھیں۔ اب جب گزشتہ دنوں میں ایران سے واپس آئی اور اپنے تجربے کے بارے میں ان کو بتایا تو انھیں بھی بہت خوشی ہوئی۔ لیکن جب میں نے ان سے پوچھا : ’’اگر میں مسلمان ہوجاؤں تو؟‘‘ اس پر انھوں نے کہا: ’’ٹھیک ہے، لیکن ہمارے کچھ سوالات ہیں۔‘‘انھوں نے بہت سنجیدگی سے میرا انٹرویو لیا۔ انٹرویو کا ماحصل یہ تھا کہ مسلمان ہونے کے ناطے میں کیسی ماں ثابت ہوں گی۔ پہلا سوال یہ تھا: کیا آپ شراب پئیں گی؟ میں نے کہا : نہیں۔ اس پر انھوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا۔ دوسرا سوال: سگریٹ پئیں گی؟ میں نے جواب دیا: میں یہ بری عادت ترک کرنے کی بھی کوشش کروں گی۔ اس پر ان کی خوشی دیدنی تھی، تیسرا سوال یہ تھا کہ آیا میں تنگ مغربی لباس پہنا کروں گی؟ میں نے پوچھا: کیا مسلمان ایسا لباس پہنتے ہیں؟ تو میری بیٹیوں نے کہا: نہیں۔ لیکن آپ پہنتی رہی ہیں اور ہمیں یہ بالکل اچھا نہیں لگتا۔ میں نے کہا کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے میں ہمیشہ با حیا لباس پہنوں گی اور یہ میرا تم سے وعدہ ہے۔ اس پر دونوں نے مل کر نعرہ لگایا: We love Islam (ہمیں اسلام سے پیا رہے)۔ اب میری سات سالہ بیٹی فجر کی نماز کے لیے صبح چھے بجے اٹھتی ہے۔ ویسے ان کے لیے اسلام کوئی بالکل نئی چیز نہیں تھا۔ ان کی ماں بہت عرصے سے مسلمان علاقوں میں جاکر کام کرتی تھی اور انھیں پتا تھا کہ وہاں کوئی خطرے کی بات نہیں، بلکہ ان کی ماں وہاں جانے کے باعث ایک بہتر ماں بن گئی ہے اور اس سے بڑھ کر انھیں کیا چاہیے تھا۔
ایک عیسائی کے طور پر بھی انسانیت کے لیے آپ کی خدمات قابلِ قدر ہیں۔ اب جب کہ آپ مسلمان ہوچکی ہیں تو آپ کے ذہن میں کیا نقشہ ہے کہ ایک مسلمان کے طور پر آپ کیا کرنا چاہیں گی؟
٭… میں سوچتی ہوں اللہ مجھے ہمت دے کہ میں فلسطین کی وہ کہانی دنیا کے سامنے لاؤں جو ۱۹۴۸ء سے اب تک دنیا سے پوشیدہ ہے۔ کیوں کہ فلسطینیوں کی کہانی تب سے اب تک کسی نے نہیں سنی، کسی نے نہیں چھاپی اور نہ دنیا ہی اسے ہضم کرنے کو تیار ہے۔
برطانیہ میں بہت سارے اہم اور اچھے مسلمان رہنما موجود ہیں جو بہت اہم کام کر بھی رہے ہیں۔ ہمارے پاس بہت سے اچھے مسلمان ماہرین تعلیم، علما، سیاست دان اور پارلیمنٹ کے اراکین موجود ہیں۔ برطانیہ میں مسلمانوں کے بارے میں معلومات کی کمی ہے۔ میری کوشش ہوگی کہ میں برطانوی عوام کو یہ باور کراسکوں کہ مسلمان کوئی عجیب قبیلے کے لوگ نہیں ، نہ ان کے ہاں کوئی خوفناک قسم کی چیزیں ہورہی ہیں۔ وہ تو ایک اچھے خاندان کی مانند ہیں اور اسلام ایک قدرتی دین ہے جو ساری دنیا کو خوش رکھ سکتاہے۔ بس یہی وہ چیز ہے جو مجھے کرنی چاہیے۔
کیا آپ پہلے سے مذہبی رجحان رکھتی تھیں؟ کیا آپ اللّٰہ پر ایمان رکھتی تھیں یا یہ سب اچانک ہوگیا؟
٭…میں نے جس گھرانے میں پرورش پائی ہے وہ کچھ زیادہ مذہبی گھرانہ نہیں تھا۔ میرا باپ کیتھولک عیسائیت چھوڑ چکا تھا اور میری ماں کسی حد تک خدا کے وجود پر یقین رکھتی تھی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے میں بہت زور و شور سے دعائیں مانگا کرتی تھی۔ جب میں سونے کے لیے لیٹتی تھی تو میں اہتمام سے دعائیں مانگتی تھی اورمجھے ہمیشہ سے یقین تھا کہ خدا کہیں موجود ضرور ہے۔ مجھے ایک واقعہ یاد ہے کہ میں نے ’’براؤنیز‘‘ نامی ایک عیسائی کلب میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ایک دن میں چرچ میں صلیب کے نشان کے پاس گئی اور پھر ایک دم ایسے پیچھے ہٹ گئی جیسے میں کسی عظیم ہستی کے سامنے موجود ہوں۔ جیسے سب عیسائی کرتے ہیں۔ اس نظریے کا اسلام میں کوئی وجود نہیں۔ یہ عیسائیت کا حصہ ہے، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ میرے اندر ابتدا ہی سے ایک عظیم ہستی کے وجود کا احساس تھا۔
کیا آپ کو اپنائیت کا احساس ہوتا ہے کہ آپ مسلم امہ کا حصہ بن گئی ہیں، کیوں کہ آپ نے کہا ہے قبولِ اسلام سے پہلے آپ کا مسلم معاشرے کے بارے میں نظریہ کچھ اور تھا؟
٭… میرے خیال میں تو یہی حقیقت میں اصل امت اور اصلی معاشرہ ہے۔ جب میں ایران کی مسجد میں تھی اور مجھ پر سکون کی کیفیت طاری تھی اور ایک نوجوان لڑکی جس نے میری کیفیت کو بھانپ لیا اور مجھ سے ملی، جانے سے قبل مجھ سے گلے ملی اور مجھے کہا: I Love You(میں تم سے محبت کرتی ہوں) میں اس سے پہلے کبھی اس سے نہیں ملی تھی اور جب میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تو مجھے لگا کہ وہ میری بیٹی ہے، میرے لیے سب کچھ ہے اور ہم ایک ہیں۔ میں کہوں گی کہ ہم ایک امت کا حصہ تھے… ایک اصل امت کا۔ ہمارے درمیان جس محبت کا اظہار ہورہا تھا اس نے میرے اندر احساس پیدا کیا کہ میں سیر کرنے آئی ہوئی، بیرونی دنیا کی انسان نہیں، اسی امت کا حصہ ہوں۔
مغرب میں اسلام فوبیا، اسلام کے خلاف نفرت کے رویے کو کم کرنے یا اسے ختم کرنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟
٭… میرے خیال میں مغرب میں جس اتحاد کا مظاہرہ بہت سارے جلسوں جلوسوں میں کیا گیا ہے، جیسے عراق جنگ کے خلاف مارچ میں جس میں لگ بھگ ۱۰ لاکھ لوگوں نے شرکت کی تھی اور وہ مختلف مذاہب، رنگوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے، میرے خیال میں اسی قسم کا اتحاد تبدیلی لائے گا۔ اس کے علاوہ ان سیاست دانوں کے خلاف حمایت حاصل کی جائے جو مسلمانوں کو نشانہ بنانے میں زیادہ تیزی دکھاتے ہیں، جیسے اس نظریے کے تحت کہ مسلمان نوجوان دہشت گرد ہوسکتا ہے، روکو اور تلاشی لو، جیسے قوانین میں مسلمانوں کو نشانہ بنانا وغیرہ۔ اگر ہم ایسے لابی گروپ بنالیں یا ان میں شمولیت اختیار کریں اورمتحد ہوکر کہیں کہ پارلیمنٹ کو صرف شہری حقوق پر زور دینا چاہیے، صرف انسانیت کو فوقیت دی جائے، آئیں! اس غیر انسانی رویے کو روکیں، یہاں صرف انسانی حقوق کی بات ہونی چاہیے، تو ہم کافی تبدیلی لاسکتے ہیں۔
ترقی پسند اور کامیاب برطانوی خواتین کیوں اسلام قبول کررہی ہیں؟ آپ اس پر کیا تبصرہ کریں گی؟
٭…میرے خیال میں یہ اُس مغربی سوچ سے بغاوت اور تردید ہے جو عورت کی آزادی کا مطلب یہ لیتی ہے کہ اسے حق ہے کہ وہ ہر ممکن حد تک، ہر ممکن موقعے پر ممکن حد تک مختصر لباس پہنے۔ ہم نے اپنے آپ کو ایسا ہی بنالیا ہے۔ یہ رجحان ۵۰ کی دہائی میں پھیلنا شروع ہوا جب عورتوں نے کارکن طبقے میں شامل ہونے کافیصلہ کیا۔ پھر اگلے دو عشروں میں گلیمر آگیا۔ اس کے بعد جنسی انقلاب آگیا۔ اس عمل میں خاندان کا ادارہ بہت حد تک پسِ منظر میں چلا گیا اور اس سارے عمل نے ماں کے کردار کو بری طرح متاثر کیا۔ کیوںکہ اگر ہم اپنے ایک معاشرتی ستون کے کردار کو چھوڑیں گے تو اس کا مطلب ہے ہم دراصل کسی اور کردار کو اپنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ مغرب میں جو دوسرا کردار ہم نے اختیار کیا، بلکہ مکمل طور پر اپنالیا اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم جب اور جہاں تک ممکن ہو مردوں کے لیے جاذبِ نظر دکھائی دیں اور جب تک ممکن ہو اپنی ملازمتوں میں کامیابیاں حاصل کرتی رہیں۔ یہ سب کچھ حاصل کرتے کرتے ہم نے اپنے خاندان کے ادارے، اپنی ذاتی زندگیوں اور اپنے معاشرے کو غیر اہم بنادیا ہے۔ اس لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کل بہت ساری خواتین اس مصنوعی زندگی کے دائرے سے نکل کر اپنے اصلی کردار کی طرف آرہی ہیں۔
مغرب میں حجاب کسی حد تک خواتین کے لیے تعلیم کے حصول یا زندگی میں آگے بڑھنے اور ترقی میں رکاوٹ ہے، آپ کی رائے کیا ہے؟
٭… یہ بہت اہم سوال ہے۔ ہمارے ملک میں موجود قوانین، خصوصاً وہ جو مختلف مذاہب اور کلچر کے لوگوں کو مغربی معاشرے میں ضم کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں، با حجاب خواتین کے لیے مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ میں اگر اپنا تجربہ بیان کروں تو اپنے ۱۳؍سالہ صحافتی تجربے کے باوجود میں پچھلے ایک ہفتے میں دو ملازمتیں صرف اس وجہ سے کھوچکی ہوں کہ میں حجاب لیتی ہوں۔ میں اس پر مزید تبصرہ نہیں کروں گی کیوںکہ مجھے ابھی اسے ثابت کرنے میں وقت لگے گا، لیکن مجھے ان دو اداروں نے ملازمت سے فارغ کردیا ہے جن کے ساتھ میں لمبے عرصے سے کام کررہی تھی، کیوں کہ میں نے حجاب لینا شروع کردیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ معاشرہ حجاب قبول کرنے سے انکاری ہے؟
٭… ہمارے معاشرے میں باپردہ خواتین کے بارے میں دو نظریات ہیں: ایک تو یہ کہ مسلمان خواتین اپنے گھروں میں دباؤ والے ماحول کی وجہ سے دبی ہوئی اور شرمیلی ہوتی ہیں۔ دوسرا یہ کہ اپنے اسلامی پس منظر کی وجہ سے دہشت گرد اور خطرہ سمجھی جاتی ہیں۔ تاہم مجھے نوکری سے نکالنے کے لیے بہانہ یہ بنایا گیا کہ معلوم نہیں تمھیں دیکھ کر ہمارے قارئین کس ردِ عمل کا اظہار کریں۔ مجھ سے کہا گیا کہ وہ ’پیغام‘ جو تم دے رہی تھیں اب بدل گیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ دراصل مذہبی نفرت اور مذہبی تعصب کا اظہار ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ رکاوٹ اس وجہ سے ہے کہ اللہ نہیں چاہتا کہ ہم یہ کام کریں اور جو نئے دروازے ہمارے لیے کھلیں گے وہی اس کے پسندیدہ ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ میں کہوں گی کہ اس ملک میں یہ تعصب موجود ہے اورمیں اس کی گواہ ہوں۔
آپ باحجاب خواتین کو کیا مشروہ دیں گی کہ وہ اس صورت حال سے کیسے نمٹیں؟
٭… میرا پہلا مشورہ تو یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حجاب لینے والی خواتین سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ وہ حجاب کیوں پہنتی ہیں؟ خواتین جواب نہیں دیتیں یا ایسے لوگوں سے کتراتی ہیں کہ یہ ایسے فضول سوال کیوں کررہے ہیں، کیوں کہ آپ خود جانتی نہیں کہ آپ ایسا کیوں کررہی ہیں۔ دراصل یہ لوگ ہمیں اور ہمارے حق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں، تاہم یہ چاہتے ہیںکہ انھیں اصل بات پتا چلے۔ میرے خیال میں انھیں مطمئن کیا جانا چاہیے۔ مسکرا کر پورے اعتماد سے انھیں جواب دینا چاہیے۔ یہ ایک بات چیت سارا ماحول تبدیل کرسکتی ہے۔ وہ آپ سے پوچھیں گے کہ آپ کیا کرتی ہیں، تو آپ انھیں بتائیے کہ آپ یونیورسٹی جاتی ہیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں وغیرہ۔ پھر وہ آپ سے مزید سوال کریں گے اور یوں معاشرے میں وہ تبدیلی آئے گی جو اس وقت رابطہ کی کمی کی وجہ سے ممکن نہیں ہے اور میڈیا کی غلط سلط معلومات کی وجہ سے ایک غلط تاثر عام ہوچکا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ وہ بے چارے برطانوی لوگ جو مسلمانوں کے بارے میں شدید رویہ رکھتے ہیں سارے شدت پسند نہیں، بلکہ کنفیوزڈ ہیں اور ان کا کنفیوژن دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں تعصب ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کوشش ہی نہ کریں۔ ہمیں ملازمتوں کے لیے کوشش کرنی چاہیے، ہوسکتا ہے کہ اس طرح ہم مسلمانوں کے بارے میں مغرب کا غلط تاثر ختم یا کم کرنے میں مددگار بن سکیں۔ یقینا آپ اپنی صلاحیت اور دانش مندی سے کسی نہ کسی کو تو مطمئن کرپائیں گے۔ اس لیے اپنا اعتماد بحال رکھیں، تعلیم حاصل کریں، لوگوں سے کھلے ذہن سے ملیں، آپ یقینا مجھ جیسے لوگوں تک پہنچ جائیں گے۔
آپ کے قبولِ اسلام پر مغربی میڈیا نے تنقید کی۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ آپ جیسی کامیاب خواتین کے قبولِ اسلام سے کوئی مثبت تبدیلی رونما ہوسکتی ہے؟
٭…ہاں، میرے قبولِ اسلام پر بہت سارے تبصرے سننے کو ملے۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ میری زندگی میں کچھ مسائل تھے اس لیے میں نے اسلام قبول کیا ہے، جیسے کہ شاید صرف وہی لوگ اسلام قبول کرتے ہیں جن کی زندگی مسائل کا شکار ہوجاتی ہے۔ بعض کا تبصرہ اس سے بھی زیادہ شدید تھا کہ یہ تو ہمیشہ سے ہی شدت پسند تھی، اسی لیے مشرقِ وسطیٰ کے دورے کرتی تھی اور فلسطین کے مسلمانوں کی کہانیاں لکھتی تھی۔ لیکن میں سمجھتی ہوں ایک بار جب ردِ عمل تھمے گا، گرد بیٹھ جائے گی اور اصل بحث کا آغاز ہوگا، تو عورتوں کا ہمارے غیر مسلم معاشرے میں مقام متعین ہوگا، تب میں کہوں گی کہ اپنے معاشرے پر نظرڈالو اور دیکھو کہ تم عورتوں کے ساتھ کیسا سلوک کررہے ہو۔ صرف برطانیہ میں اوسطاً ہر ہفتے دو خواتین شوہروں اور ساتھیوں کے ہاتھوں قتل ہوجاتی ہیں۔ یہ مسلمان تو نہیں کررہے، یہ تو ہم ہیں بلکہ مغربی معاشرہ ہے جس نے اس کی اجازت دے رکھی ہے۔ ساری دنیا میں عورتوں کے ساتھ زیادتی کے مقدمات میں سب سے کم سزائیں یورپ دے رہا ہے۔ کیا ہم اس بارے میں غور کرسکتے ہیں؟ کیا ہمیں عورتوں کے ساتھ اس زیادتی پر بھی غصہ آتا ہے؟ (بہ شکریہ جہاد کشمیر، راولپنڈی، دسمبر۲۰۱۰ء، جنوری ۲۰۱۱ء)
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں