تعمیر شخصیت: چند عملی پہلو

ڈاکٹر بدر الاسلام

ہماری موجودہ حالت ہمارے ماضی کی وجہ سے ہے۔ ہمارا مستقبل وہ ہوگا جس کے لیے ہم آج کوشش کریں گے۔ ماضی جاچکا، مستقبل نامعلوم ہے اور صرف حال ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ناکامی کی کچھ عمومی تاویلیں اس طرح ہیں جنھیں ہم حقیقت جان کر اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں اور خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں: ٭ میں قابل نہیں ہوں ٭ میری قسمت خراب ہے ٭ میں دوسروں کے لیے قربانیاں دیتا گیا مگر بدلے میں کیا ملا؟ ٭ میں کسی کو ’نہیں‘ نہیں کہہ سکتا٭ میں اپنی کمزوریوں پر قابو پانا چاہتا ہوں مگر محنت کون کرے؟
ان تاویلات کے علی الرغم دیکھیں کہ : میری موجودہ حالت کا ذمہ دار کون ہے؟ قسمت، حالات، رشتہ دار، خاندان، اساتذہ، معاشی حالات یا میں خود! حقیقتِ واقعہ یہ ہے کہ میں آج جو کچھ ہوں، اس کے لیے میں خود ذمہ دار ہوں۔ لہٰذا اپنی دگر گوں حالت پر تاویلات کا پردہ مت ڈالیے۔ جواں ہمت بنیے۔ اچھی اور بری، ہر طرح کی باتوں کے لیے اپنی ذمہ داری قبول کیجیے۔ جب ہم اپنے آپ کو ذمہ دار قرار دے کر نتائج قبول کرتے ہیں تو ہمارا نقطۂ نظر بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ ہمیں ذہنی تحفظات کے دائرے سے باہر نکلنا ہوگا۔ انتخاب آپ کو خود کرنا ہے۔ ماضی سے چمٹے رہنا بڑی بھول ہے۔ مستقبل پر نظر رکھ کر حال میں سخت محنت کیجیے۔ اس ضمن میں چند عملی پہلوؤں پر توجہ کی ضرورت ہے۔
خود اعتمادی
خود اعتمادی سے حیران کن کام انجام دیے جاتے ہیں۔ خود اعتمادی سے محروم لوگ ناکامیوں کا رونا روتے ہیں۔ چھوٹے بچے کو چلنے میں مدد کرتے وقت کی مثال پر غورکریں۔ ہم اس کی ہمت افزائی کرتے ہیں۔ اس سے یہ نہیں کہا جاتا کہ تم چل نہیں سکتے بلکہ اس کے گرنے اورچوٹ کھانے کے بعد بھی اس کی ہمت بڑھا کر اسے چلنے کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔
غلطی کے خو ف سے کام نہ کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ ناکامی کے خوف سے ابتدا ہی نہ کرنا،سب سے بڑی ناکامی ہے۔ یہ سوچنا کہ سائیکل سے گرجاؤں گا یا تیرنے میں ڈوب جاؤں گا، اس لیے سائیکل چلانا یا تیرنا ہی نہ سیکھیں، یہ سب سے بڑی غلطی ہوگی۔ کامیابی کا ایک فارمولا یہ بھی ہے : ۲۵ فیصد منصوبہ بندی + ۷۵ فیصد سخت محنت= کامیابی۔ کوئی بھی کام ابتدا میں پہلی بار ہی ہوگا۔ اس کے بعد ہی آپ کمال کی جانب بڑھیں گے۔ اگر آپ کام ہی نہ کریں تو وہ لمحہ زندگی میں کبھی نہیں آئے گا جب آپ کوئی کام اچھی طرح انجام دیں گے۔ مشق اور تجربے سے ہی کمال کی طرف سفر ہوگا اور منزل ہاتھ آئے گی۔ مشق، مہارت میں اضافہ کرتی ہے۔
عمل کا آغاز
حسن البناء شہیدؒ عوامی خطابات سے پہلے اس دعا کا اہتمام کرتے تھے: خدایا! ہمارے منصوبوں اور عمل کے درمیان فاصلہ گھٹا دے۔ گویا منصوبے اور اس پر عمل درآمد کے درمیان وقت کی دیوار حائل نہ ہونے پائے۔ کام کے انجام (ناکامی) سے خوف زدہ ہوکر ہم کام چھوڑ دیتے ہیں۔ انجام کا خیال ضروری ہے مگر اسے منفی نہیں ہونا چاہیے۔ فیصلہ کیجیے اور اقدام کیجیے۔ کسی بھی شخص کو وہی کچھ حاصل ہوتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔
دوسروں کے بجائے خود کو بدلیے
یہ سب سے مشکل کام ہے۔ دنیا کا سب سے آسان کام دوسروں کو نصیحت کرنا ہے۔ دوسروں کے بدلنے یا اصلاح سے اپنی ترقی کو مت جوڑئیے۔ یہ سوچنا کہ میں دوسروں کے فائدے کے لیے ان میں تبدیلی لانا چاہتا ہوں۔ بجا ہے لیکن کیا یہ آپ کے اختیار میں ہے؟ جو آپ کے اختیار میں ہے، وہ ہے آپ کی ذات، اسے بدلیے۔
تبدیلی اچانک نہیں ہوگی۔ اس کے لیے وقت درکار ہوگا۔ مایوسی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر آپ نے درخت جڑ سمیت دوسری جگہ لگادیا تب بھی کچھ بنیادی خصوصیات تبدیل نہیں ہوںگی۔ اس حقیقت کو سمجھیں کریں۔ ابھی، اسی وقت، میرے سامنے میں جیسا چاہتا ہوں ویسا… اس طرح کی انتہا پسندانہ سوچ سے تبدیلی نہیں آئے گی۔ جہاں تک ممکن ہو اپنے اندر تبدیلی لائیے۔ کچھ باتیں چھوڑ دیجیے جو آپ کے دائرہ اختیار میں نہیں ہیں، مثلاً رنگ، قد، وزن وغیرہ نہیں بدل سکتا۔ وہاں تبدیلی لائیے جو آپ کے بس میں ہے، مثلاً اندازِ گفتگو، اخلاق، کردار وغیرہ۔ ’ضد‘ اور انتہا پسندی کو حکمت سے دور کریں۔ آپ اپنے دائرئہ اختیار کے اندر باہر کے معاملات کا بے لاگ جائزہ لیجیے۔ اپنی ذات، جذبات اور احساسات و خیالات کی نفی مت کیجیے۔ انھیں بھی احترام اور عزت دیجیے۔ ذاتی فیصلوں کے اچھے برے یا مثبت و منفی اثرات کا تعین کیجیے۔
صدفیصد کامیابی یا مکمل کامیابی ناممکن ہے۔ کمال کا حصول کبھی نہ ختم ہونے والا سفر ہے، لہٰذا ترقی کے لیے محنت کیجیے نہ کہ کمال کے حصول کے لیے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی چیز کامل نہیں ہے۔ ہم ترقی کی منزل کے راہی ہوسکتے ہیں مگر منزل ہر بار دور ہوتی جاتی ہے۔ اس لیے اس کی فکر میں دبلا ہونا فضول ہے۔ ترقی پر نظر رکھئے۔ شاہ راہِ ترقی پر گامزن رہنا ہی کامیابی ہے۔
کیا نہیں کرنا ہے
خود کواور دوسروں کو مطعون نہ کریں۔ اپنے آپ اور دوسروں سے شکایت اور ان پر الزام دھرنا چھوڑیں۔ خود کو اور دوسروں کو ’لیبل‘ نہ لگائیں (میں… ہوں ، فلاں… ایسا ہے) اپنے دائرئہ اختیار سے باہر کے معاملات پر منحصر نہ رہیں۔ دل ہی دل میں کڑھئے مت۔ مسائل کے حل میں نئے مسائل کو جنم مت دیجیے۔ (مثلاً صحت سے متعلق مسائل کے حل میں عدم صحت کے نقصانات کا خوف طاری کرلینا)۔ فیصلوں پر جلد بازی میں نظر ثانی کرنا مناسب نہیں ہے۔ وقت دیجیے، صبر سے کام لیجیے اور ناگزیر ہو تو تبدیلی کیجیے۔ اپنی ذات سے ضرورت سے زیادہ پیار نہ کریں۔ حقائق سے منہ مت موڑئیے بلکہ ان کاسامنا کیجیے۔ ’سب چلتا ہے‘ انداز مت اختیار کیجیے۔ وہ افراد جو ناامیدی کا شکار ہیں، ان کے قریب بھی مت جائیے۔ کسی بھی بات کو سہل انداز میں قبول مت کیجیے۔ کسی دوسرے شخص کو اپنے آپ پرقبضہ مت دیجیے۔
زبانِ حال (Body Language)
جھکی کمر، مایوس چہرہ، بے نور آنکھیں، سلوٹ بھری پیشانی، بہکے بہکے قدم، بے دم گفتگو… اس طرح کے کئی افراد سے آپ کا سابقہ پیش آتا ہے۔ ایسے افراد مقابلے سے قبل ہی اپنی شکست تسلیم کرلیتے ہیں۔ میدان میں اترنے سے قبل ہی ہار مان لیتے ہیں، اور مقابلے سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔ ہر کام میں’نہیں‘ احساسِ کمتری کے شکار اور قسمت کے شاکی۔ یاد رکھیے مایوسی متعدی ہوتی ہے۔ اسی طرح عزم و استقلال اور جوش بھی متعدی ہوتاہے۔ ایسے مایوس افراد سے مایوسی اور کم ہمتی ہی فروغ پائے گی۔ ان سے ہوشیار رہیے۔
ایک دوسری تصویر دیکھیں: پرعزم، روشن آنکھیں، چال میں وقار، گفتگو میں جان اور بحیثیت مجموعی ایک فاتح ہونے کا احساس … وجہ صاف ظاہر ہے۔ ایسے اشخاص زبانِ حال، یعنی ’اپنے ظاہر‘ سے آدھا مقابلہ پہلے ہی جیت چکے ہوتے ہیں۔ ان کے ظاہر سے ان کی قابلیت اور صلاحیت گویا چھلکتی ہے۔ ہاں میں یہ کرسکتا ہوں، میں یہ ضرور کروں گا، میں جیت سکتا ہوں، میں ضرور فتح پاؤں گا، میں قابل ہوں، مزید قابل بن سکتا ہوں… اللہ بھی ایسے ہی بندوں کی مدد کرتا ہے۔
تقدیر پر ایمان کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ہاتھ پاؤں نہ ہلائیں اور تقدیر پر تکیہ کیے رہیں۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی پوری توانائی اور قابلیت لگادیں اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ ہتھیلی کی لکیریں آپ کے مستقبل کا تعین نہیں کریں گی، بلکہ آپ کی منزل کا تعین آپ کے مضبوط بازوؤں سے ہوگا۔ تقدیر کو اپنی کم عملی یا بے عملی کے لیے جواز مت بنائیے۔ اللہ بھی ان ہی کی حالت بدلتا ہے جو خود اپنی حالت بدلنا چاہتے ہیں۔
غلطی معاف کرنا
غلطیاں کس سے نہیں ہوتی ہیں؟ جو لوگ کام نہیں کرتے صرف ان سے ہی غلطیاں نہیں ہوتیں۔ غلطیاں ہی آدمی کو سدھارتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم غلطیوں پر غلطیاں کریں اور اپنے آپ کو معاف کرتے چلے جائیں۔ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے ہم معاملات میں بہتری لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور ہمارا یہ بہتری اور ارتقا کا سفر ہمیں نقطۂ کمال کے قریب لے جاتا ہے۔ غلطیوں کے ذریعے ہی ہم صحیح تک پہنچتے ہیں تاکہ خطرات سے بچ کر صحیح سلامت منزلِ مقصود تک پہنچ سکیں۔ غلطی کا خمیازہ بھگتنے کے بعد ہم دوبارہ اس غلطی کا اعادہ نہیں کرتے اور معاملات کو زیادہ چوکنّے ہوکر انجام دیتے ہیں۔ دوسروں کی غلطیوں پر ناراض ہونا، فطری امر ہے۔ ہم اپنی ناکامی کو بھی اوروں کے سر تھوپ کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ کیا ہم یہی رویہ اپنی ذاتی غلطیوں پر بھی اپناتے ہیں؟ بسا اوقات ہم دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں مگر اپنی ذاتی غلطیوں کی سزا خود کو مسلسل دیتے رہتے ہیں۔ اس سے ہماری کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ خود کو بھی معاف کیجیے۔ غلطیوں سے سبق حاصل کیجیے اور اپنا رویہ بہتر بنائیے۔
اپنی ذات سے باہر نکل کر دیکھئے
ہم اکثر’میں‘ ، ’میرا‘،’مجھے‘ ہی تک محدود ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں کچھ نظر نہیں آتا۔ اس کے باہر کی دنیا میں جھانک کر تو دیکھئے۔ اس کائنات میں بیشمار چھوٹی بڑی خوشیاں آپ کے استقبال کو تیار ہیں۔ کچھ لوگ دوسروں کی خوشی میں اپنا غم، دوسروں کی کامیابی میں اپنی ناکامی، اور دوسروں کی ترقی میں اپنی تنزلی دیکھتے ہیں: اسے یہ سب مل گیا مجھے کیوں نہیں ملا؟ مجھ میں کیا کمی ہے؟ اس کے بجائے اس سب کا میں زیادہ حق دار تھا، وغیرہ۔ اس طرزِ عمل کے بجائے اگر دوسروں کی خوشی میں اپنی خوشی تلاش کریں، ان کی کامیابی میں اپنی کامیابی کو دیکھیں تو یہ مثبت اندازِ فکر ہے۔ یہ کامیابی کا اہم زینہ ہے۔
کامیابی جدوجہد میں ہے
کہا جاتا ہے کہ کم ہمت، فتح نہیں پاتے۔ کیا آپ نے کسی میدان سے راہِ فرار اختیا رکرنے والے کھلاڑی کو مقابلہ جیتتے ہوئے دیکھا؟ ہرگز نہیں۔ جب آپ میدان ہی چھوڑ دیں گے تو ہار کا سوال پیدا ہوگا نہ جیت ہی کا۔ ناکامی کے خوف سے فی الفور نجات پائیے۔ ہمیشہ میدان میں فتح و کامرانی کے عزم کے ساتھ قدم رکھئے۔ ان شاء اللہ جیت آپ ہی کی ہوگی۔ اگر کسی وجہ سے متوقع کامیابی نہ ملے تو جائزہ اور بھر پور تیاری کے ساتھ دوبارہ مقابلہ کیجیے۔
جو شخص چیلنج کا سامنا کرتا ہے، حالات و واقعات سے دودو ہاتھ کرتا ہے اور تجربات سے گزرتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے۔ میدان کارزار میں اترنے سے گریز ہی سب سے بڑی کمزوری اور ناکامی ہے۔ فاتح یا کامیاب شخص کسی بھی حالت میں میدان سے بھاگتا نہیں۔ حالات کتنے ہی کٹھن ہوں، کتنی ہی مصیبتیں آئیں، وہ میدانِ عمل میں ڈٹا رہتا ہے۔ یہ تاریخ کی بہت بڑی سچائی ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب آزمائشیں، حالات اور مشکلات اس مردِ آہن سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجاتی ہیں۔
آئیے مقابلہ کیجیے! کامیابی نظر نہ بھی آئے تب بھی میدان سے پیٹھ پھیر کر مت بھاگئے۔ ہوسکتا ہے کہ مقابلے میں آپ تھک کر چور ہوجائیں، لہولہان ہوجائیں مگر اسی جدوجہد میں آپ کی کامیابی پوشیدہ ہو۔ کامیابی ضرور آپ کے قدم چومے گی۔ عزم راسخ ہوگا، ارادہ مضبوط ہو اور ساتھ میں عملی کوششیں ہوں تو اللہ کی رحمت بھی دست گیری کرتی ہے اور بالآخر منزلِ مراد ہاتھ آتی ہے۔

——

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146