کتابِ زندگی کے ورق برابر الٹ رہے ہیں، ہر آنے والی صبح ایک نیا ورق الٹ دیتی ہے۔ یہ الٹے ہوئے ورق برابر بڑھ رہے ہیں، اور باقی ماندہ ورق برابر کم ہورہے ہیں اور ایک دن وہ ہوگا جب ہم اپنی زندگی کا آخری وقت الٹ رہے ہوں گے۔ جوں ہی ہماری آنکھیں بند ہوں گی، یہ کتاب بھی بند ہوجائے گی اور ہماری تصنیف محفوظ کردی جائے گی۔
کبھی ہم نے غور کیا، اس کتابِ زندگی میں ہم کیا درج کررہے ہیں؟ روزانہ کیا کچھ لکھ کر ہم اس ورق کو الٹ دیتے ہیں۔ ہم کو شعور ہو نہ ہو، ہماری یہ تصنیف تیار ہورہی ہے اور ہم اس کی ترتیب و تکمیل میں اپنی ساری قوتوں کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ اس میں ہم سب کچھ عمل کے ذریعے لکھ رہے ہیں۔ جو ہم سوچتے ہیں، دیکھتے ہیں، چاہتے ہیں، کرتے ہیں، کراتے ہیں۔ اس میں وہی کچھ نوٹ ہورہا ہے، جو ہم نوٹ کررہے ہیں، کسی دوسرے کو ہرگز کوئی اختیار نہیں کہ بڑھایا گھٹا سکے۔ اس کتاب کے مصنف تنہا ہم ہیں، اور ہم ہی اپنی کوشش اور کاوش سے اسے ترتیب دے رہے ہیں۔ ذرا آنکھیں بند کیجیے اور سوچیے…’’کل‘‘… یہی کتاب ہمارے اپنے ہاتھ میں ہوگی اور شہنشاہِ واحد و قہار ہم سے کہے گا: ’’پڑھ اپنی کتاب زندگی، آج اپنے نامۂ عمل کا جائزہ لینے کے لیے تو خود ہی کافی ہے۔‘‘ (الاسراء) پھر سوچئے ان خوش نصیبوں کا کیا ٹھکانہ ہوگا جن کا دفترِ عمل ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اور ان مجرموں پر کیا بیتے گی جن کی کتابِ زندگی ان کے بائیں ہاتھ میں پکڑائی جائے گی!
آئیے کچھ دیر کے لیے تصور کی آنکھوںسے قرآن کے آئینے میں اس جھنجھوڑنے والے منظر کو دیکھیں:
’’وہ بھی کیسا دن ہوگا جب تم لوگ پیش کیے جاؤگے، تمہارا کوئی راز چھپا نہ رہ جائے گا، اُس وقت جس کا نامۂ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا، وہ کہے گا: لو دیکھو، پڑھو میرا نامہ اعمال۔ میں سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنا حساب ملنے والا ہے۔ بس وہ دل پسند عیش میں ہوگا، عالی مقام جنت میں ، جس کے پھلوں کے گچھے جھکے پڑ رہے ہوں گے۔ (ان سے کہا جائے گا) مزے سے کھاؤ پیو، اپنے ان نیک اعمال کے صلے میں جو تم نے گزرے ہوئے دنوںمیں کیے ہیں۔‘‘ (الحاقہ: ۱۸-۲۴)
’’اور جس کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا: کاش میرا نامہ اعمال مجھے نہ دیا گیا ہوتا اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے، کاش میری وہی موت (جو دنیا میں آئی تھی) فیصلہ کن ہوتی۔ آج میرا مال میرے کچھ کام نہ آیا۔ میرا سارا اقتدار ختم ہوگیا۔ (حکم ہوگا) پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو اور پھر اسے جہنم میں جھونک دو۔ پھر اس کو ستّر ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑدو۔ یہ نہ اللہ بزرگ و برتر پر ایمان لاتا تھا اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کے لیے ابھارتا تھا۔ لہٰذا آج نہ یہاں اس کا کوئی یار غم خوار ہے نہ زخموں کے دھوون کے سوا اس کے لیے کوئی کھانا، جسے خطا کاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا۔‘‘
(الحاقۃ:۲۵-۳۷)
ساتھیو! کبھی ہم نے غور کیا کہ اپنی کتابِ زندگی کس ہاتھ میں لینے کی تیاری کررہے ہیں، دائیں ہاتھ میں یا بائیں ہاتھ میں؟
سنجیدگی سے سوچنے کی بات ہے کہ ہمارے نبیؐ مہربان نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر شخص نگراں ہے، ہر شخص سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ تم میں سے جو مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار بنایا گیا اور اس نے ان کی خیر خواہی نہ کی اور اُن کے لیے خود کو اس طرح نہ تھکایا جس طرح وہ اپنی ذات کے لیے خود کو تھکاتا ہے، اس کو اوندھے منہ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘
ہم نے جو ذمہ داری اپنی مرضی سے قبول کی ہے، کتنے ذہن ہمارے ہاتھ میں ہیں؟ یہ اللہ کی طرف سے ہمارے پاس امانت ہے، اس امانت کی احسن ادائیگی کا ہم سے تقاضا ہے کہ ہم اس ذمہ داری کا اس کی پوری وسعتوں اور گہرائیوں کے ساتھ فہم وشعور پیدا کریں اور عمل کے لیے اپنے اندر تڑپ پیدا کریں، شب و روز کی دوڑ دھوپ میں وہ کتاب مرتب کریں جو ہمیں سیدھے ہاتھ میں دی جائے۔ یہی ہماری آرزو ہے۔ ——