سورج ہماری زمین کے لیے روشنی اور حرات کا سب سے بڑا منبع ہے جس کے بغیر کرئہ ارض پر نباتاتی، حیوانی یا انسانی کسی بھی قسم کی زندگی کا کوئی تصور ممکن نہیں۔ دراصل یہ معمولی درجے کا ایک ستارہ ہے، یہ باقی ستاروں کی نسبت ہم سے زیادہ قریب واقع ہے، اس لیے وہ ہمیں بہت بڑا اور گرم دکھائی دیتا ہے اور دن کو اس کرئہ ارضی پر چھا جانے والی روشنی میں دور دراز کے ستارے نظر آنا بالکل بند کردیتے ہیں۔ سورج کی روشنی ہمارے لیے زندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ سورۃ یونس میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ’’وہی ہے جس نے سورج کو روشنی (کامنبع) بنایا۔‘‘
سورۃ نوح آیت نمبر ۷۱ میں ارشادِ ربانی ہے: ’’اور سورج کو (ایک روشن) چراغ بنایا ہے۔‘‘ سورج کی روشنی کا باعث اس کے اندر ہونے والے شدید ایٹمی دھماکے ہیں۔ سورج عام طور پر ہائیڈروجن اور ہیلیئم پرمشتمل ہے۔ یہ دونوں گیسیں ہیں۔ سورج کے مرکز میں ایک بڑا نیوکلیائی ری ایکٹر ہے۔ جس کا درجہ حرارت کم از کم 1,40,00,000سینٹی گریڈ 2,50,00,000 فارن ہائیٹ ہے۔ سورج نیوکلیئر فیوژن کے ذریعے توانائی کا یہ عظیم ذخیرہ پیدا کرتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے نیو کلیئر فیوژن کے ذریعے پیدا ہونے والی اس شدید حرارت کا ذکر یوں فرمایا ہے:’’اور ہم نے (سورج کو) روشنی اور حرارت کا (زبردست) منبع بنایا۔‘‘
سورج سمیت تمام ستاروں میں موجودہ مادہ کی مقدار کا بڑا حصہ ہائیڈروجن پر مشتمل ہے۔ ہائیڈروجن کے مسلسل خودکار ایٹمی دھماکوں سے روشنی اور حرارت کا وسیع تر اخراج ہوتا ہے، جس سے سورج چمکتا نظر آتا ہے۔ ایٹمی دھماکوں کا یہ عمل ہائیڈروجن کو ہیلئیم میں تبدیل کرتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے سورج میں ابھی اتنا ایندھن موجود ہے کہ وہ 4,50,00,00,000 سال مزید روشن رہ سکے۔
جب سورج کے مرکز میں واقع دس فیصد ہائیڈروجن نیوکلیئر فیوژن کے عمل سے گزر کرہیلیئم میں تبدیل ہوجائیں گے تو سورج کا مرکز اپنے بے پناہ دباؤ کے تحت مزید سکڑ جائے گا اور اس کا درجہ حرارت بے پناہ حد تک بڑھ جائے گا۔ ایسے میں ہیلئم بھی جلنا شروع کردے گی جس سے کاربن پیدا ہوکر سورج کے مرکز میں جمع ہونے لگے گی۔ ہائیڈروجن اور ہیلئیم کے جلنے کا یہ دوسرا عمل سورج میں شدید حرارت پیدا کردے گا جس سے زور دار دھماکوں کے ساتھ سورج کی بیرونی سطح پھول جائے گی اور اس کے بعد اس پھولی ہوئی سطح کا ٹمپریچر بھی نسبتاً کم ہوجائے گا۔
کسی بھی ستارے کے پھول کر اپنی اصل جسامت سے کئی گنا بڑھ جانے کو فلکیاتی سائنس کی اصطلاح میں Red Giantکا نام دیا جاتا ہے۔ سورج جب Red Giantمیں تبدیل ہوگا تو وہ پھول کر نہ صرف عطارد بلکہ زہرہ کے مدار تک آ پہنچے گا جس سے لامحالہ دونوں قریبی سیارے سورج میں گر کر اس کی کمیت کا حصہ بن جائیں گے۔ زمین زیادہ فاصلے پر ہونے کی بنا پر سورج میں گرنے سے بچ جائے گی مگر سورج کا پھول کر زمین سے اس قدر قریب تک چلے آنا زمین کے درجہ حرارت کو بے انتہا بڑھا دے گا۔ جس سے کرئہ ارض پر واقع کروڑوں اربوں اقسام کی انواعِ حیات جھلس کر تباہ ہوجائیں گی اور ہر سو قیامت چھا جائے گی۔
سورج کے پھول کر زمین سے اس قدر قریب چلے آنے سے زمین پر قیامت برپا ہونے کے ضمن میں تاجدارِ کائنات ﷺ سے بہت سی احادیث مروی ہیں۔ تاجدارِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے روز سورخ مخلوق سے انتہائی قریب آن پہنچے گا۔‘‘ (بخاری، جامع الترمذی، مسند احمد بن حنبل)
فلکی طبیعات کی قرآنی آیات کے ساتھ کافی گہری مطابقت پائی جاتی ہے۔ دنیا کے سائنسدانوں کو یہ دعوت دی جاتی ہے کہ وہ قرآنِ مجید کا سائنسی نقطۂ نظر سے مطالعہ کریں اور ان آیات کریمہ پر بطورِ خاص غوروفکر کریں جو انہیں یقینا حیران کردیں گی اور بالآخر وہ اس حتمی سچائی یعنی اسلام کے پیغام کی طرف آجائیں گے۔
——