کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ کمرے میں داخل ہوں اور ایک دم سکتہ کی سی کیفیت میں آجائیں یہ سوچ کر کہ آ پ وہاں کیوں آئے تھے! یا پھر آپ کہیں سے گزر رہے ہوں اور کسی اجنبی کے دوستانہ سلام کا جواب دینے کے بعد یہ یاد نہ کرسکیں کہ وہ کون ہے؟
اگر یہ علامات پائی جائیں توزیادہ تر لوگوں میں انہیں بڑھاپے کا شکار قرار دے دیا جاتا ہے بالکل اسی طرح جیسے سر پر ایک سفید بال یا پھر بڑا سا چشمہ لگ جانے کے بعد سمجھا جاتا ہے۔ ایسا کہنا بالکل غلط ہے کہ یہ دماغی بیماری بڑھاپے کی نشانی ہے یا پھر آپ بوڑھے ہوگئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج کی دنیا میں ہماری سرگرمیوں اور مصروفیات کا دائرہ اتنا وسیع ہوگیا ہے کہ ہم بہت سی اہم باتوں کو یاد رکھنے سے قاصر ہوگئے ہیں۔ آئن اسٹائن جو کہ سائنس کی دنیا میں ایک عظیم ہستی مانی جاتی ہے، ایک بار اپنے ساتھی کے ساتھ گھر سے یونیورسٹی جارہے تھے۔ کافی باتوں کے بعد اپنے ساتھی سے پوچھا کہ بھئی میں آخر کس طرف جارہا تھا جب تم مجھے ملے؟ جب انہیں معلوم ہوا کہ ساتھی گھرسے نکلنے کے بعد راستے میں ملے تو جواب دیا: ’’اس کا مطلب ہے کہ میں کھانا کھا چکا ہوں۔‘‘ آئن اسٹائن کی یادداشت بری نہیں تھی۔ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اس جینئس نے اپنے حیران کن کارنامے اس دنیا کو دکھائے اور نت نئی تحقیقات سے اجاگر کیا۔ ہاں آئن اسٹائن بھلکّڑ تھا لیکن اس کی سائنسی تحقیق پر اس کا کچھ اثر نہیں پڑا، کیونکہ اس کی زندگی کا مقصد وہی تھا۔
بالکل اسی طرح ایک عام آدمی جب ایسے واقعات یا چیزیں دیکھتا یا سمجھتا ہے جس میں اسے دلچسپی نہ ہو تو وہ اس کے سامنے ہوتے ہوئے بھی غائب ہوجاتی ہیں۔ یہی ساری باتیں اس کے روز مرہ کاموں پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے لوگ اس کو ’’بھلکّڑ‘‘ کا خطاب دے دیتے ہیں۔
یقینا فکر، ذیابیطس، احساسِ کمتری، ڈپریشن جیسی بیماریاں بھی اس دماغی مسئلے کا سبب بنتی ہیں۔ جب کہ نشہ کرنا اور شراب نوشی بھی اس کی اولین وجوہ میں سے ہیں۔ لیکن اگر ان طبی مسائل سے ہٹ کر آپ اس بھولنے کے مرض سے دوچار ہیں تو چند تراکیب کے ذریعے اسے حل کیا جاسکتا ہے۔
جدید تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ مستقل کام اور مصروفیت بھولنے کا باعث بن سکتے ہیں، کیونکہ مستقل فکر ہمارے دماغی خلیات کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ جب ہم پر بہت زیادہ کام کا دباؤ ہوتا ہے تو ہمارا دماغ ٹرینکوئیل ایلفا، تھیٹا اوکسیلیشن اور بیٹا اوکسیلیشن جیسے کیمیکلز زیادہ مقدار میں پیدا کرنا شروع کردیتا ہے جو کہ یاد کرنے اور توجہ دینے کے عمل کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ زیادہ کام کرنے کے نتیجے میں بھی ایسا ہوتا ہے جس کی زیادتی ہمارے دماغی خلیات کو کچھ عرصے میں بالکل ناکارہ بنادیتی ہے۔ ایک اور سائنسی تحقیق کے مطابق جن لوگوں کے خون میں کارٹیزون کی مقدار پائی گئی اُن کی یادداشت کا امتحان خاصا خراب رہا اور ان کی یاد رکھنے کی صلاحیت عام لوگوں سے چودہ فیصد سست تھی۔ یہ بھی دیکھا گیا کہ مستقل کام اور ’’بھولنے کی فکر‘‘ ایسے متاثر لوگوں کی بیماری کو اور شدت دے رہی ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ ہم خود کو کچھ ایسی مصروفیات میں مگن کر لیں جو ہمیں سکون دینے کا باعث بنیں۔ تلاوتِ قرآن،پڑھنا، چہل قدمی یا پھر اپنی پسند کی تفریح گاہ جانا ، سر اور جسم کا مساج، اور کپڑے بننا بھی سکون فراہم کرنے والے مشاغل ہیں۔ جسم کے دوسرے حصوں کی طرح ہمارے دماغ کو بھی صحیح ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی ورزش جو ہمارے دماغ کو جاگنے پر مجبور کردے۔ ایک تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ جن لوگوں کو دماغی یا پھر شدید دماغی چوٹ لگی تھی انھوں نے ورزش اور ان سرگرمیوں کے ذریعے اپنی یادداشت کافی بہتر اور تیز بنائی۔
ہمیشہ جستجو میں رہیں۔ نئی جگہ، نئے لوگوں اور نئی چیزوں سے گھبرانے کے بجائے انہیں جاننے کی کوشش کریں۔ آپ جتنی معلومات اپنی یاد کرنے والی چیزوں کے بارے میں جمع کریں گے اتنا ہی اچھا ہوگا۔
روزانہ تھوڑے تیل کی مالش بھی آپ کی فکر اور پریشانیوں کو کم کرتی ہے اور آپ کے دماغ کو سکون پہنچاتی ہے۔ اپنی پیشانی پر دونوں ہاتھوں کی دو انگلیاں اور کنپٹی پر انگوٹھا رکھ کر گولائی میں ملنے سے بھی بہت سکون ملتا ہے۔
اچھی غذا کا یقینا آپ کی یادداشت سے گہرا تعلق ہے۔ جدید تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ آئرن، زنک،اور برونز کی کمی سے یادداشت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ اس لیے دھیان رکھیں کہ آیا آپ کی خوراک ان ضروریات کو پورا کررہی ہے یا نہیں۔
مچھلی، اخروٹ اور سبزی کا استعمال بھی یادداشت کے لیے بہت مفید ہے۔ اپنے ڈاکٹر کے مشورے سے وٹامن سی، بی سکس (B6)، بی ٹویلو (B12) اور فولک ایسڈ (Folic Acid) سے بھی آپ اپنی یادداشت کو بہتر بناسکتے ہیں۔
بھولنا بیماری نہیں ہے۔ اچھی غذا، اچھا رہن، سہن اور صحیح ورزش آپ کی یادداشت کو کئی سال تک تروتازہ رکھ سکتی ہے۔ ——