رشتہ

عظیمہ ممتاز

آگ کی طرح یہ خبر سارے کنبے میں پھیل گئی کہ افتخار میاں لندن جارہے ہیں۔ برادری میں آج تک کوئی ہندوستان سے باہر نہیں گیا تھا، یہی وجہ تھی کہ جس نے بھی سنا وہ افتخار میاں سے ملنے چلا آیا۔
اب دلوں کا حال تو اللہ ہی جانے کہ کون خوش تھا کون ناخوش، لیکن سچ مانئے تو حلیمہ بیگم پر جیسے اوس پڑگئی۔ جیٹھ کا لڑکا یوں چپ چاپ لندن چلا جائے اور اُن کے چاروں لڑکے یوں ہی دھرے رہ جائیں۔
پھر ملازمتیںبھی کونسی عالی شان تھیں۔ مہینہ بھر کام کریں اور لائیں صرف پندرہ سور وپلی۔
اب تک تو خیر ہے، لیکن اگر شادی بیاہ ہوجائے تو یہ بار بوجھ کون اٹھائے گا؟ یہی سوچتے سوچتے حلیمہ بیگم کی راتوں کی نیندیں حرام ہورہی تھیں۔
خدا جنت نصیب کرے اماں بی (ساس) کو مرگئیں، مگر مرتے مرتے بھی اُن کے ساتھ کونسا اچھا سلوک کیا۔ بڑے لڑکے کو کسی بڑے گھر میں بیاہنے کا ارمان تھا، لیکن اماں بی مرحومہ نے بیٹی کی لڑکی کے ساتھ گانٹھ لگادی۔ یہ تو جیسے سانپ کے منہ کی چھچھوندر ہوئی، نہ اگلے چین نہ نگلے۔
اور میاں بھی تو اماں کی وصیت پوری کرنے پر تلے بیٹھے تھے۔ ہفتے میں دو مرتبہ بہن کے گھر کا چکر نہ لگائیں تو چین نہ آئے۔ انھیں تو خیر کیا کہتیں، مگر جی جو جلتا وہ وہی جانتی تھیں۔
اگر بھولے سے بھی نند کی لڑکی زرینہ پر نگاہ پڑجاتی تو منہ ہی منہ میں بڑبڑانے لگتیں، ’’الٰہی اسے زمین ہی نگل جائے۔‘‘
ابھی ابھی ناشتے سے فارغ ہوئی تھیں کہ بڑے لڑکے شاہد نے یہ خبر سنائی کہ افتخار بھائی لندن جارہے ہیں۔
بس آج تو اُن کا خون کھول اٹھا۔ اگر اس وقت افتخار سامنے آجاتے تو انھیں بھی ایک آدھ تھپڑ لگادیتیں۔
’’ہوں، موری کی اینٹ چوبارے چڑھے۔ اماں کونسی ساہوکار کی لڑکی تھیں، یا ابّا کون سے نواب۔ یہ تو ان کی قسمت تھی جوبڑے گھر کی لڑکی بیاہ لائے۔ اب خسر اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت بھیج رہے ہیں۔ افتخار نے تو اس کے مارے ہی وہاں شادی کی تھی۔‘‘
حلیمہ بیگم اِن ہی خیالوں میں ڈوبی ہوئی تھیں کہ پڑوسن آگئیں۔ آج یہ خبر کسی کے بھی پیٹ میں نہیں سما رہی تھی۔ انھوں نے آنگن ہی سے آواز لگائی۔ ’’ارے بہن، حلیمہ بیگم! سنتی ہو، تمہارے جیٹھ کے لڑکے لندن جارہے ہیں۔ مبارک ہو۔‘‘
اور حلیمہ بیگم پھٹ پڑیں۔
’’میں کون مبارک باد لینے والی۔ افتخار کے ماں باپ کو مبارک ہو۔ بہن تقدیر کی بات ہے۔ ہمارے نصیب تو کھوٹے ہیں، ورنہ مجھے تو کب سے یہ آس لگی ہوئی تھی کہ کب شاہد میاں بڑے ہوں اور کب انھیں ولایت بھیجوں۔ہمارے نصیب تو ہماری ساس نے پھوڑ ڈالے۔ کیا انھیں دوسرے لڑکے نہ ملے جو ہم ہی کو جکڑ ڈالا۔ تم تو جانتی ہو کہ کیسے میرے میاں، بہن اور اُن کی لڑکی پر جان دیتے ہیں۔‘‘
پڑوسن نے آگ پر تیل چھڑکتے ہوئے کہا: ’’تو بہن اس میں کڑھنے کی کیا بات ہے۔ اس زمانے میں مرے ہوئے لوگوں کی بات پر کون عمل کرتا ہے۔ آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل۔ ایک سے ایک چندے آفتاب چندے ماہتاب امیروں کی لڑکیاں بیٹھی ہیں۔ اب اگر آج تمہارے گھر کی بات معلوم ہو تو خدا جھوٹ نہ بلوائے، کوئی دس بیس گھروں کے پیام آجائیں۔‘‘
حلیمہ بیگم نے کڑھتے ہوئے کہا: ’’کرنے کو تو میں جیسا چاہوں ویسا کرلوں، مگر تمہارے بھائی کو کون سمجھائے۔ وہ تو جیسے بہن کی لڑکی پر وارے نیارے ہورہے ہیں۔ میری بہن، تم ہی کوئی ترکیب بتاؤ کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے، مجھے تو کچھ نہیں سوجھتا۔‘‘
بی ہمسائی نے ہمدردی سے کہا: ’’تمہاری سب باتیں نرالی ہیں۔ جس کے ایک چھوڑ چار چار لڑکے ہوں، اُس کے آگے تو میاں کو ناک رگڑنی چاہیے۔ اب اگر اُس کاالٹا ہو تو سینکڑوں ترکیبیں ہیں۔ جہا ںمیاں رام ہوئے، سمجھو کہ دنیا ہی میں جنت مل گئی۔ ہر جمعرات کو مستان شاہ کی درگاہ کے سامنے آدمیوں کے ٹھٹ لگے ہوتے ہیں۔ وہاں سے تعویذ میں لادوں گی۔ میاں کے باندھ دو تو پندرہ دن کے اندر ہی کایا پلٹ ہوجائے۔‘‘
بی ہمسائی کو جتنے گُر یاد تھے، انھوںنے حلیمہ بیگم کو ذہن نشین کرادیے۔ اِس میں اُن کاکیا فائدہ تھا یہ اُن ہی کو معلوم تھا۔ لیکن اتنا تو سب جانتے ہیں کہ اس دنیا میں ایسے لوگو ںکی کمی نہیں جو بھس میں چنگاری ڈال کر الگ کھڑے ہوجاتے ہیں۔
نہ جانے آج کیا بات تھی کہ زرینہ کو ساری رات ڈراؤنے خواب دکھائی دیے۔ کبھی ایسا محسوس ہوتا، جیسے وہ بلندی سے گہرے کھڈ میں گررہی ہوں، کبھی چمکدار ستارے ٹوٹتے دکھائی دیتے۔ صبح اٹھتی تو رات کی الجھن سے پریشان ہوتی، جسم درد سے ٹوٹتا رہتا۔ طبیعت گری گری رہتی اور جو کبھی امّی پوچھ بیٹھتیں تو آنسو امنڈ امنڈ آتے۔کبھی کبھی جو جی زیادہ ہول کرنے لگتا تو گھر کی بوڑھی ماما سے خواب کی تعبیر پوچھنے بیٹھ جاتی اور جواب میں اوٹ پٹانگ سی تعبیریں سنتی۔
جہاں کوئی نئی بات ہو وہ پر لگا کر اڑتی ہے۔ کوٹھوں پر سے پھلانگتی ہوئی یہ خبر زرینہ کے گھر تک آپہنچی کہ آج کل حلیمہ بیگم اور ہی ادھیڑ بن میں مصروف ہیں۔
یہ بات تو وہ پہلے ہی جانتی تھی کہ ممانی جان اُسے ہر وقت کڑے تیوروں سے دیکھتی تھیں۔ مگر دل کی لگی کو کوئی کیا کرے اور پھر وہ تو بچپن ہی سے شاہد میاں سے منسوب تھی۔ اکثر وہ سنتی آئی تھی کہ جب ستارے آپس میں ٹکراتے ہیں تو کوئی نہ کوئی ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ بھی تو ستاروں کی ٹکّر تھی، امارت اور غربت کی۔ کون جانے کون ٹوٹے، کون نہ ٹوٹے۔
اگر نانی اماں مرتے مرتے نہ کہہ جاتیں تو بلا سے اسے کوئی دکھ نہ ہوتا۔ لیکن اب تو ستاروں کے اِس کھیل میں اُس کی زبان جیسے گنگ ہوئی جارہی تھی۔
اور پھر الزام بھی کسے دیا جاتا۔ بس ایک ماموں میاں تھے یا شاہد۔ لیکن وہ تو جیسے موم کی ناک تھے۔ ممانی جان جدھر موڑتیں مڑجاتے۔ ایک طرف اُس کی امی تھیں اور ابا، وہ خود کیا کہتے۔ اپنی ہی لڑکی کا معاملہ تھا۔ غیرت کی بات تھی۔ اُس کی دنیا تو بالکل اندھیری ہوئی جارہی تھی۔
اِن دنوں اُسے اکثر نانی اماں کی یاد آتی۔ جب تک وہ زندہ تھیں، ممانی جان بھیگی بلی کی طرح رہا کرتی تھیں، جہاں اُن کی آنکھ بند ہوئی ممانی جان کی بن آئی۔
اُس کے خیالات بچپن کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے رہتے۔ بچپن میں تو سب مل جل کر رہا کرتے تھے۔ شادیاں رچا کرتی تھیں۔ اُسے دلہن بننا پڑتا۔ اُن دنوں یہ کس قدر اچھا لگتا تھا۔ امی کی نظر بچاکر وہ اپنے ریشمی کپڑے لے بھاگتی۔ شاہد دولہا بنتا۔
جیسے جیسے دن گزرتے رہے، یہ خیال اُس کے دل و دماغ پر چھاتا گیا، جسے آج وہ کوشش کے باوجود بھول نہیں سکتی تھی۔ وہ وعدے، وہ اقرار شاہد کو یاد ہوں کہ نہ ہوں، مگر اُسے ضرور یاد تھے۔
پھر نانی اماں کی موت کے بعد سب خواہ مخواہ ایک دوسرے سے کبیدہ خاطر رہنے لگے۔ گزری ہوئی باتیں ایک بھولی بسری کہانی بن گئی۔
اُسے معلوم تھا کہ ابا نے اپنی سی سعی کی ہے کہ بات بنی رہے، لیکن جب کسی بات کا بگڑنا مقصود ہو تو کوئی کیا کرے۔ ممانی جان کو تو ایک ہی رٹ رہی وہ ٹس سے مس نہ ہوئیں۔
’’آپ نے کچھ سنا، آج خان بہادر کے گھر کا پیام آیا ہے۔‘‘ حلیمہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’کیسا پیام ہے۔ ذرا میں بھی تو سنوں، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے؟‘‘ امجد علی صاحب نے گاؤ تکیے سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
’’آپ تو بچہ بنتے جارہے ہیں۔اے، وہ ہمارے شاہد میاں کے لیے جو پیام پرپیام آرہے ہیں۔ میں نے سوچا کہ زرینہ تو اپنی ہی لڑکی ہے۔ برادری ہی میں کہیںنہ کہیں اُس کی بھی شادی ہوجائے گی۔ ایک چھوٹی سی بات کے لیے ایسا سنہری موقع کھونا نادانی ہے۔ بیگم صاحبہ نے تو کہلابھیجا ہے کہ وہ اپنے داماد کو دس لاکھ نقد دیں گی اور تعلیم کے لیے ولایت بھیجیں گی۔
’’آپ کو تو معلوم ہے کہ اِس نرے بی اے پاس کو کوئی اچھی ملازمت نہیں ملے گی۔ کیوں نہ ہم اس موقع سے فائدہ اٹھائیں، شاہد میاں کا خود بھی یہی ارادہ ہے۔‘‘ ذرا سوچ کر حلیمہ بیگم نے کہا۔
’’کیا کہا؟ شاہد کا ارادہ ہے!‘‘ امجد علی نے اچک کر بیٹھتے ہوئے کہا:’’مجھے تو یقین نہیں آتا اور میں جو اماں بی مرحومہ کو زبان دے چکا ہوں۔‘‘
’’ارے ، یہ سب کہنے کی باتیں ہیں، پرانے زمانے کی بڑی بوڑھیوں کو معلوم تھا ہی کیا، وہ تو بس ایک خیال سے کہہ دیتی تھیں کہ سب مل جل کر رہا کریں۔‘‘ حلیمہ بیگم نے جواب دیا۔
’’ہاں، یہ بات تو ٹھیک ہے۔ اسی لیے تو ہماری برادری میں ایسا اتفاق ہے، محبت ہے۔‘‘ امجد علی نے گفتگو کا رخ پلٹنا چاہا۔
’’ناں بھئی، یہ تو زبردستی کی بات ہوئی۔ میں نے اب تو ارادہ کرلیا ہے کہ جو ہو سو ہو، اپنے شاہد کا بیاہ وہیں کروں گی جو دس لاکھ نقد دے اور ولایت بھیجے۔‘‘ حلیمہ بیگم نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’تویوں کہو کہ تم بھابی جان کو دیکھ کر حسد کررہی ہو۔ لیکن یہ کوئی بھلی بات نہ ہوگی۔ ذرا سوچو کہ میں شریفہ کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گا۔‘‘ امجد علی نے گرم ہوتے ہوئے کہا۔
آپ جو بھی کہیں، میں نے آج تک آپ ہی کا حکم مانا ہے۔ لیکن کوئی حد بھی ہوتی ہے۔ اب تو وہی کروں گی جیسا مجھے مناسب معلوم ہوگا۔ یہ شاہد کا خیال ہے، وہ عمر بھر اس گھٹیا ماحول میں رہنے کے باوجود اِس نئی بات کو ترجیح دیتا ہے۔‘‘ حلیمہ بیگم نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
’’لیکن سوچو تو کہ میری بہن اور اُس کی لڑکی کا کیا ہوگا؟‘‘ امجد علی نے پسپا ہوتے ہوئے کہا۔
وہ جانتے تھے کہ بیوی جاہل ہے، جو کچھ وہ کہے گی کرکے رہے گی۔ وہ گھر میں پھوٹ ڈالنا نہیں چاہتے تھے۔
’’جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ ہم خدائی خدمتگار تھوڑے ہی ہیں۔ اس دنیا میں کس کی بیٹی بن بیاہی بیٹھی رہی ہے؟‘‘ حلیمہ بیگم نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔
’’تو بہن کل ہی خان بہادر صاحب کے ہاں یہ بات پہنچادیجو۔‘‘ حلیمہ بیگم نے اطمینان سے بی ہمسائی سے کہا ۔ ’’نہ جانے وہ کونسی شبھ گھڑی تھی جب تم نے یہ بات چھیڑی۔ میں نے تمہارے بھائی سے صاف صاف کہہ دیا کہ جو بھی ہو، میں شاہد کا بیاہ خان بہادر ہی کے ہاں کروں گی۔ اور ہاں روپے کے متعلق بھی صلاح کرلینا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شادی ہوتے ہی وہ بات بدل دیں۔‘‘ کسی انجانے خوف سے کانپ کر حلیمہ بیگم نے کہا۔
’’چھی بہن، آپ بھی کیا بات کرتی ہیں۔ ارے یہ لین دین تو آج کل فیشن ہوگیا ہے۔ اگر نقد نہ ہو تو مکان باغ جو کچھ بھی ہو رہن رکھ کر دیتے ہیں۔ پھر آپ تو ہیں نصیب والے، جو چھوٹتے ہی اس قدر مالدار گھر کاپیام آگیا۔ میں نہ کہتی تھی کہ سب اُسی تعویذ کا اثر ہے جو بھائی صاحب اِس قدر جلد راضی ہوگئے۔‘‘ ہمسائی نے اپنی بات کی اہمیت جتاتے ہوئے کہا۔
’’تم ٹھیک کہہ رہی ہو، لیکن مجھے تو جبھی چین آئے گا جب یہ بیل خیر سے منڈھے چڑھے گی۔ میرے میاں تو بہن پر جان دیے دیتے ہیں۔ کہیں کل کلاں کو پانسہ نہ پلٹ جائے۔
’’جب سے افتخار میاں کی شادی ہوئی، میں نے ارادہ کرلیا کہ میں بھی کسی بڑے گھر کی بیٹی کوہی بہو بناؤں گی۔ کون جانتے بوجھتے مکھی نگلے گا، لیکن میں ابھی سے کہے دیتی ہوں کہ دس لاکھ میں سے ایک پائی بھی کم نہ ہوگی۔ آخر میری بھی تو لڑکیاں ہیں۔‘‘ حلیمہ بیگم نے کہا۔
ہر جگہ اسی بات کا چرچا تھا اور زرینہ کو اس قدر شرم آئی تھی کہ اُس کا جی زمین میں سما جانے کو چاہ رہا تھا۔ پھر یہ کبھی کس قدر شرم کی بات تھی کہ یو ںلگا لگایا برسوں کا ناطہ پلک جھپکتے میں ٹوٹ جائے۔
جب ممانی بی آتیں تو اشاروں ہی میں کہہ جاتیں کہ اپنے بچوں کی قسمت بنانی ہو تو والدین کو چاہیے کہ اُن کے بیاہ سوچ سمجھ کر کریں۔ اُن کے گھر میں تو کھلے بندوں نہ کہہ سکتی تھیں، مگر جہاں کہیں بھی جاتیں ضرور اس بات کو سنا آتیں کہ وہ اپنے لڑکے کا بیاہ دوسری جگہ کررہی ہیں۔
جب زرینہ کہیں جاتی تو اُسے ایسا معلوم ہوتا جیسے لوگ اس پر ترس کھا رہے ہوں۔ آج کل اُسے بھی ایک کھوج سی لگی ہوئی تھی، جب بھی امّی اور ابّا باتیں کرتے ہوتے وہ چھپ کر سننے کی کوشش کرتی۔ آج بھی تو وہ چھپ کر ہی سن رہی تھی اور امی کی باتیں اُس کا دل مسوس رہی تھیں۔
’’ہم دس لاکھ روپے کہا ںسے لائیں؟ بھابی جان نے یہ نیا شوشہ نکالا ہے۔‘‘ امی کہہ رہی تھیں’’آخر کچھ تو رشتے کی لاج رکھی ہوتی۔ اس کے تو یہی معنی ہوئے کہ روپیہ ہر شے سے زیادہ عزیز ہے بھیا کو بھی امی کی بات کا کچھ پاس نہ رہا۔‘‘
ابّا کی آواز آئی’’ابھی تو شکوہ ہی میں ہو اور خان بہادر کے ہاں ساری باتیں طے ہوگئی ہیں۔ تمہارے بھیا تو بیوی کے کہنے میں ہیں۔ وہ دن کو رات کہیں تو یہ ہاں۔ کہیں، مجھے تو اپنی لڑکی کی فکر ہے، کہیں اس غم میں گھل نہ جائے۔‘‘
امی نے آنچل سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا: ’’یہ تقدیر کی بات ہے۔ ہم تکتے ہی رہیں اور غیر ہم سے بازی لے جائیں۔ میں یہ بات نہیں جانتی تھی کہ میری ہیرا جیسی لڑکی روپیہ کی کمی کے باعث یوں ٹھکرا دی جائے گی، آپ ہی کہیے کہ کس بات میں وہ کم ہے، پڑھی لکھی ہے، سگھڑ ہے، جو دیکھتا ہے اُسے حسین سمجھتا ہے۔‘‘
سنتے سنتے زرینہ کے ہاتھ پاؤں شل ہوگئے۔ یکے بعد دیگرے کتنی ہی باتیں اُسے یاد آتی گئیں جنھیں وہ بھول چکی تھی۔ جب سے اُس نے ہوش سنبھالا شاہد کا نام اُس سے وابستہ رہا اور اس وابستگی سے وہ ایک طرح کی مسرت محسوس کرتی رہی۔
گو ممانی جان کو اس سے محبت نہ تھی مگر شاہد کے سلوک و محبت سے وہ ہمیشہ سرشار رہی۔ اب جو یوں کایا پلٹ ہوئی تو اسے یقین ہی نہ آتا تھا کہ یہ وہ شاہد ہے جو کبھی اُس پر اپنی جان چھڑکتا تھا۔
بے خیالی میں وہ آئینے کے سامنے جاکھڑی ہوئی۔ اجڑی اجڑی سی صورت، آنکھوں کے گرد حلقے، پریشان گیسو، امی اور ابا کا خیال کرکے وہ شرم سے پانی پانی ہوگئی۔
’’توبہ توبہ، نہ جانے کیا خیال کرتے ہوں گے کہ کس قدر بے حیا لڑکی ہے۔ اُس نے دل میں ٹھان لی کہ وہ کسی طرح دوسروں پر ظاہر نہ ہونے دے گی کہ اس کایا پلٹ کا اُس پر اس قدر اثر پڑا ہے۔
وہ اندر ہی اندر گھٹ رہی تھی، مگر نہیں چاہتی تھی کہ یہ بات دوسروں پر ظاہر ہوجائے۔ وہ اس گھٹن سے فرار چاہتی تھی۔
لیکن اس پر بھی امی اور ابا کا اختیار تھا۔ اس نے چاہا کہ شاہد کا سامنا ہونے سے پہلے وہ کہیں دور چلی جائے۔ کسی انجان دیس میں، ایک الگ ماحول میں، جہاں رہ کر وہ اپنی گزشتہ زندگی کو یاد نہ کرسکے۔ آہ! اگر ممانی جان کو شاہد کو ولایت روانہ کرنے کا خیال نہ آتا تو کیا اُس کی بسی بسائی دنیا یوں سونی ہوجاتی۔ کیا یہ حسد کے شعلے نہ تھے جو ممانی جان کے سینے میں لگ کر اُسے بھی بھسم کیے دے رہے تھے۔
اور پھر جیسے کہیں دور سے ابا کی آواز آئی ’’ایک ہفتے کے اندر ہی وہ لوگ خان بہادر کے ہاں بات طے کرلیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم لوگ اس وقت یہاں موجود ہی نہ رہیں۔ ہماری لڑکی کو کس قدر رنج ہوگا۔ میں نے آخری بار کوشش کرلی کہ معاملہ بگڑنے سے پہلے ہی سنبھل جائے، لیکن حلیمہ بیگم نے کسی طرح نہ مانا۔ اور اُن کی خواہشیں پوری کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں۔‘‘
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ زرینہ کی بھی یہی خواہش ہے کہ دوسرے شہروں کی سیر کرے۔ میں خود بھی چاہتی ہوں کہ ہم کوئی بہانہ بناکر کسی دوسری جگہ چلے جائیں۔‘‘
اور جب امی کسی کام سے اندر آئیں تو اس کا جی چاہا کہ وہ ان کے سینے میں سما جائے۔
’’بیٹی تمہارے ابا جان چاہتے ہیںکہ چند دن تمہیں کہیں تفریح کے لیے لے چلیں۔ تم بھی بہت دنوں سے کہہ رہی تھیں۔‘‘
’’ہاں امی! میرا جی تنگ آگیا ہے، اسی ایک پرانی جگہ سے۔‘‘ وہ تو خود فرار کی نئی راہیں تلاش کررہی تھی۔
’’امی یہ چھوٹا سا پرانا شہر ہے۔ کیوں نہ ہم ہمیشہ کے لیے کسی دوسری جگہ چلے جائیں۔‘‘
’’میری بیٹی، ہم ویسا ہی کریں گے جیسا تو چاہے گی۔‘‘ مامتا سے تڑپ کر امی نے اسے سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔
انھوںنے جان لیا کہ زرینہ نے نہایت بہادری اور عقلمندی سے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ انھوں نے طے کرلیا کہ دوچار دن میں یہ شہر چھوڑ دیںگے اوران سب سے دور رہ کر اپنی لڑکی کی زندگی کو ازسر نو سنوارنے کی کوشش کریں گے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146