افراط وتفریط، انتہا پسندی، شدت اور غلو کو کسی دور میں مستحسن نہیں سمجھا گیا اور نہ کبھی اس کے نتائج خوشگوار نکلے ہیں۔ اس سے تلخیاں اور ترشیاں ہی بڑھتی ہیں۔ عناد اور تنفر میں اضافہ ہوتا ہے اور دوریاں پیدا ہوتی ہیں اور خود انسانوں پر بوجھ بڑھتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اعتدال اور میانہ روی کو ہمیشہ سراہا گیا ہے۔ اس سے زندگی آسان ہوتی ہے۔ دلوں میں جوڑ اور معاشر ہ میں استحکام آتا ہے۔ اسلام کا تو نمایاں وصف ہی یہ ہے کہ اس نے زندگی کے تمام شعبوں میں توازن اور اعتدال کو رواج دیا ہے۔ نہ صرف اعتقادی طور پر یہ وصف موجود رہا ہے بلکہ عبادات میں بھی اعتدال کی ترغیب دی گئی ہے۔ معاشرت، معیشت، عبادت غرض ہر معاملے میں اعتدال اس کا خاصّا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو تمام انبیاء و رسل پر فضیلت عطا کی۔ ایک جامع اور اکمل کتاب آپؐ پر نازل فرمائی۔ اور فرمایا: ’’اس طرح ہم نے تمہیں درمیانی (معتدل) امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔‘‘ اس طرح اللہ نے آپؐ کی امت کو صحت مندانہ مزاج اور اعلیٰ درجے کے اعتدال سے بہرہ مند فرمایا۔ اس پر علوم و معارف کے دروازے کھولے اور اس کے دائرئہ عمل کو اتنا وسیع کیا کہ اسے خیرِ امت کے نام سے موسوم کیا اور ’’اُخْرِجَتْ للناسِ‘‘ کا منصب عطا فرمایا۔ گویا امت محمدیہ کو معتدل امت کے خطاب سے نواز کر واضح کردیا کہ اعتدال پسندی اور میانہ روی ہی انسان کا جوہر شرافت و فضیلت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک اجڈ، اکھڑ اور جاہل معاشرے میں دعوتِ حق کا اعلان فرمایا۔ وہاں تاریکی تو تھی مگر روشنی کی کوئی کرن کم ہی دکھائی دے رہی تھی۔ آوازئہ حق پر کان دھرنے والے بہت کم تھے اور سرچشمہ فیض سے فیض یاب ہونے کے لیے آمادہ و تیار نہ تھے۔ رسول اللہ ﷺ ان کے کفر و شرک، سوئِ عمل اور بدعت و ضلالت میں مبتلا ہونے پر ملول خاطر تھے۔ خاصے پریشان اور ہلکان ہوتے جارہے تھے۔ آپؐ حکمت، موعظتِ حسنہ اور تبادلہ خیال اور مجادلہ کی احسن صورتیں اختیار کررہے تھے، مگر یہاں جواب میں نہایت بھونڈا، کریہہ اور جارحانہ انداز اپنایا جارہا تھا۔ حضور ﷺ کی افسردگی پر فرمایا:
طٰہٰo مآ انزلنا علیک القرآن لتشقیo الا تذکرۃ لمن یخشیٰo(طٰہٰ:۱-۳)
’’طٰہٰ، ہم نے یہ قرآن اس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مصیبت میں پڑجاؤ، یہ تو یاددہانی ہے ہر اس شخص کے لیے جو ڈرے۔‘‘
یہاں قیامِ حق کے لیے توازن ملحوظ رکھنے کی تلقین کی جارہی ہے۔ جی ہلکان کرنے سے منع کیا جارہا ہے اور اس میں شدت پر نقد کیا جارہا ہے۔ سورہ الرحمن میں فرمایا گیا کہ یہ کائنات متوازن بنائی گئی ہے۔ اس کا سارا نظام عدل پر قائم کیا گیا ہے:
والسمآء رفعہا ووضع المیزانoالا تطغوا فی المیزانo واقیموا الوزن بالقسط ولا تخسروا المیزانo (الرحمن: ۷-۹)
’’آسمان کو اس نے بلند کیا اور میزان قائم کردی۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم میزان میں خلل نہ ڈالو، انصاف کے ساتھ ٹھیک ٹھیک تولو اور ترازو میں ڈنڈی نہ مارو۔‘‘
گویا کائنات کی ہر شئے توازن و تناسب کی عکاس ہے، اس لیے جذبات و احساسات میں بھی اسی توازن کو ملحوظ رکھنا چاہیے:
ولا تجہر بصلاتک ولا تخافت بہا وابتغ بین ذلک سبیلا۔ (بنی اسرائیل:۱۱۰)
’’اور اپنی نماز نہ زیادہ بلند آواز میں پڑھو اور نہ بہت پست آواز سے، ان دونوں میں اوسط درجے کا لہجہ اختیا رکرو۔‘‘
یعنی نہ تو چلاَّ کر نماز پڑھی جائے کہ نمائش ہوجائے اور نہ بالکل چپکے چپکے کہ ساتھ والے بھی نہ سن سکیں بلکہ بیچ کی راہ اختیار کی جائے۔ سورہ لقمان میں فرمایا گیا کہ واقصد فی مشیک (لقمان:۱۹) ’’یعنی چال میں تمکنت اور وقار ہو۔‘‘ نہ ایسی چال کہ اس سے گھمنڈ ظاہر ہو اور نہ ایسی جو اس کی مذموم نفسی کیفیت کا مظہر ہو، اس میں نمائشی تواضع اور دکھاوے کی خدا رسیدگی نہ ہو بلکہ ایک متین اور شریف آدمی کی سی چال ہو۔ فیاضی ایک قابلِ تعریف عمل ہے مگر اس میں بھی بے اعتدالی سے اجتناب کرنے کی نصیحت کی گئی ہے:
ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولا تبسطہا کل البسط فتقعد ملوما محسوراً۔ (بنی اسرائیل: ۲۹)
’’نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جاؤ۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ خرچ کرنے میں اتنا اعتدال ہوناچاہیے کہ وہ نہ بخیل بن کر رہے کہ دولت کی گردش رک جائے اور نہ اتنا فضول خرچ کہ معاشی طاقت ضائع ہوجائے، اس کے برعکس اس کے اندر توازن کی صحیح حس موجود ہونی چاہیے۔دوسری جگہ فرمایا:
والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا وکان بین ذلک قواماً۔ (فرقان:۶۷)
’’جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔‘‘
سید سلیمان ندویؒ نے صحیح بخاری کے حوالے سے یہ حدیث نقل کی ہے کہ ’’اتنا ہی عمل کا التزام کرو جتنا تم کرسکو۔‘‘ وہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عمل کا لفظ گو یہاں عام ہے مگر شارحین کے نزدیک اس سے مراد نماز، روزہ وغیرہ عبادتیں ہیں۔ مقصود یہ ہے کہ فرائض کے بعد نوافل کا اتنا ہی بوجھ اٹھاؤ جس کو تم آسانی سے اٹھا سکو اور آخر دم تک نباہ سکو۔ دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اعتدال اور میانہ روی کی تعلیم صرف عبادات تک محدود نہیں بلکہ وہ زندگی کے ہر شعبہ تک وسیع ہے۔ مسند بزار میں کنز العمال جلد ثانی صفحہ ۷ کے حوالے سے حضرت حذیفہ کی یہ روایت بیان کی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’دولت مندی میں میانہ روی کتنی اچھی ہے، محتاجی میں میانہ روی کتنی اچھی ہے، عبادت میں میانہ روی کتنی اچھی ہے۔‘‘ (سیرت النبی، ج۶،ص۴۶۸)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نہایت عابد و زاہد صحابی تھے۔ آپؓ نے یہ عہد کرلیا تھا کہ وہ ہمیشہ دن میں روزہ سے رہیں گے اور رات عبادت میں گزاریں گے۔ رسول اللہ ﷺ کو خبر ہوئی تو آپؐ نے ان سے فرمایا کہ ’’اے عبداللہ! تم پر تمہارے جسم کا بھی حق ہے، تمہاری آنکھ کا بھی حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی حق ہے۔ مہینہ میں تین روزے رکھ لینا کافی ہے۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب الصوم)
حضرت عثمان بن مظعونؓ کو بھی آپؐ نے ایسی ہی نصیحت فرمائی۔ آپ کو معلوم ہوا کہ وہ شب و روز عبادت میں مصروف رہتے ہیں، بیوی سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، دن کو روزہ رکھتے ہیں، رات کو سوتے نہیں۔ آپؐ نے ان کو بلا کر پوچھا کہ ’’کیوں عثمان! تم میرے طریقے سے ہٹ گئے ؟‘‘ عرض کی کہ ’’خدا کی قسم میں نہیں ہٹا ہوں، میں آپؐ کے طریقے کا طلب گار ہوں۔‘‘ فرمایا: ’’میں سوتا بھی ہوں اور نماز بھی پڑھتا ہوں، روزہ بھی رکھتا ہوں، افطار بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، اے عثمان! خدا سے ڈرو کہ تمہارے اہل و عیال کا بھی تم پر حق ہے۔ تمہارے مہمان کا بھی حق ہے، تمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے تو روزے بھی رکھو، افطار بھی کرو، نماز بھی پڑھو اور سوؤ بھی۔‘‘ (ابوداؤد- کتاب الصلوٰۃ)
دینداری اور خدا ترسی کا یہ کمال نہیں کہ عزلت نشینی اور قطع تعلق کا طریق اپنا لیا جائے اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرکے کسی غار یا کھوہ میں بیٹھ کر طمانیت حاصل کی جائے۔ اسلام نے اسے رہبانیت سے موسوم کیا ہے۔ غیر ضروری ریاضتوں سے منع کیا اور بلا وجہ اپنے آپ کو ایذا پہنچانے اور محنتِ شاقہ سے اپنے آپ کو تکلیف دینے کو ناپسند فرمایا۔ یونانی فلسفیوں میں اشراقیت، عیسائیوں میں رہبانیت اور ہندوؤں میں جوگ اسی تصورِ عبات کا شاخسانہ تھا۔ اسلام سے پہلے رسول اللہ ﷺ غارِ حرا میں کئی کئی دن بیٹھے تھے، مگر جب وحی کا پیغام آپ کے پاس آیا تو پھر گوشۂ عزلت کو آپؐ نے چھوڑ دیا:یایہا المدثرo قم فانذرo وربک فکبر کے مصداق آپؐ نے فرمایا تھا:
’’اپنی جانوں پر سختی نہ کرو، تم سے پہلی قومیں اپنی جانوں پر سختی کرنے سے تباہ ہوئیں اور ان کی بقیہ نسلیں آج بھی گرجوں اور دیروں میں تم کو ملیں گی۔‘’ (سیرت النبی ششم، بحوالہ ابوداؤد)
اسلام نے انسانوں کو اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے آزاد کیا اور صرف خدائے واحد کی چوکھٹ پر جھکایا، ان کو ہر طرح کی افراط و تفریط سے بچایا۔ یہاں نہ تو رسولوں کو خدا کا بیٹا بنانے کی روش راہ پاسکی اور نہ اس کے سوا کسی دوسرے کی بندگی کا جواز مہیا ہوسکا۔ رسول کو رسول اور خدا کا حقیقی الٰہ بنائے رکھنے کا تصور اور عقیدہ قائم و دائم رہا۔ یہاں انہی حقائق کی روشنی میں قرآن میں کہا گیا ہے کہ امتِ محمدیہ، امتِ وسط ہے۔ یہاں زندگی کے ہر شعبہ میں تناسب، توازن اور اعتدال تو ہے، مگر عدمِ توازن ہرگز نہیں…!
——




