قرض: جس کا حل میانہ روی ہے

عابد علی

اللہ تعالیٰ نے انسانی معاشرے کی بنیاد باہمی اخوت و محبت پر رکھی ہے۔ایک معاشرے میں بسنے والے افراد کو ایک دوسرے کے لیے خیر خواہی کا جذبہ رکھنا چاہیے، اور اسلام بھی اسی کی تعلیم دیتا ہے۔ انسانوں کی ضروریات کا تعلق ایک دوسرے سے اس طرح جڑا ہوا ہے جس طرح کہ انسانوں کے آپس کے تعلقات۔ انسانی ضروریات کی تکمیل کا ذمہ تو اللہ تعالیٰ نے خود اٹھا رکھا ہے لیکن ان ضروریات کی تکمیل کے لیے اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ انسانوں کو ہی ذریعہ بناتا ہے۔
ہمارے معاشرے کی موجودہ صورتِ حال میں اگر ایک فرد کو اپنے کسی عزیز یا دوست سے کوئی مدد کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اکثر مالی مدد ہی ہوتی ہے۔ اس طرح اپنی ضروریات کوپورا کرنے اور مسائل کے وقتی حل کے لیے قرض کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ قرض دینا شریعت کی نگاہ میں ایک پسندیدہ عمل ہے اور اسلامی تعلیمات میں ایک ضرورت مند کو بغیر کسی لالچ کے قرض دینا فعلِ مستحب قرار دیا گیا ہے۔ قرض ایک ایسی مصلحت ہے کہ بہت سے مواقع پر اس کے علاوہ کوئی دوسری راہ نہیں ہوتی۔ اس لیے اگر قرض کی گنجائش نہ رکھی جائے تویہ امر تنگ دستی اور دشواری کا باعث ہوگا اور شریعت تنگ دستی اور ناقابلِ برداشت حرج (تکلیف) کو دور کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر قرض دینے کا راستہ نہ اپنایا جائے تو پھر معاشرہ برائیوں کی طرف چل نکلے گا۔
حضرت ابودرداءؓ سے مروی ہے کہ ’’یہ بات کہ میں دو دینار قرض دوں، پھر وہ واپس آجائیں اور میں ان کو کسی اور کو قرض دے دوں، مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں ان کو صدقہ کردوں۔‘‘ (ابنِ ماجہ) سنن بیہقی میں حضرت انسؓ کی ایک روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کسی چیز کو بطورِ قرض دینا اس کے صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ یعنی اگر محتاج کی حاجت مندی کا یقینی علم ہو تو صدقہ افضل ہے۔ لیکن یقینی طور پر اس کا علم نہ ہو تو قرض کی فضیلت زیادہ ہے۔ اس لیے کہ خوددار طبیعت کے لوگ بوقتِ مجبوری ہی قرض لیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں قرض کی ضرورت عموماً شادی بیاہ، اور دیگر تقریبات کے موقع پر محسوس کی جاتی ہے۔ لوگ شادی بیاہ کے موقع پر لاکھوں روپے بطور قرض لے کر شادی کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ تمام روپیہ فضول خرچیوں اور معصیت کے کاموں میں صرف ہورہا ہوتا ہے۔ اس زمانے میں سب سے مشکل کام شادی کرنا ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سے بہت ساری بچیاںشادی سے رہ جاتی ہیں۔ شادی کو مشکل بنانے کی سب سے بڑی وجہ ہم خود ہیں۔ ہم نے خود سے ایسی فضول رسمیں ایجاد کرلی ہیں جن کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر لاکھوں روپے طعام پر خرچ کیے جاتے ہیں، حالانکہ ان کی اتنی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی۔ شادی کے متعلق اسلامی احکام کی طرف نگاہ ڈالیں تو ہمیں اپنے موجودہ طریقے اور اسلام کے بیان کردہ طریقے میں بہت واضح فرق محسوس ہوگا۔ اسلام نے تو شادی کو بہت آسان بنایا ہے۔ نبی ﷺ نے چند کھجوروں کے عوض ایک صحابی ؓ کا نکاح کردیا، ایک اور صحابیؓ کا حق مہر صرف یہ مقرر کیا کہ وہ اپنی منکوحہ کو قرآن کی تعلیم دیں گے۔ اس جیسی دیگر مثالیں بھی موجود ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے عملاً مسلمانوں کو کرکے دکھایا کہ اگر وہ آسودہ اور آسان زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو اپنی زندگی میں بناوٹی مرتبوں کے بجائے سادگی لائیں۔ آج شادی بیاہ کے مواقع پر زیادہ تر فضول خرچ کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ’’ایسی شادی ہوکہ لوگ دیکھتے رہ جائیں۔‘‘ یا پھر کسی کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر سادگی سے شادی کرلی تو خاندان میں ناک کٹ جائے گی۔ لیکن ایسے مواقع پر ہمیں صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ اس حوالے سے اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟ آپ ﷺ کا اسوہ کیا ہے؟ نبی ﷺ نے شادی کے موقع پر ولیمے کا حکم ضرور دیا ہے،لیکن یہ کہیں بھی نہیں فرمایا کہ قرضہ لے کر ولیمہ کرو۔ اگر استطاعت ہو تو ولیمہ ضرور کرنا چاہیے، لیکن اپنی استطاعت کو دیکھتے ہوئے۔ ایسا نہ ہو کہ ولیمے کے لیے اتنا قرض لے لیا جائے کہ سالوں تک یہ قرض لے لیا جائے کہ سالوں تک یہ قرض ادا کرتے رہیں۔
اسلام نے تنگ دست اور ضرورت مند کو قرض دینا مستحب اور پسندیدہ عمل قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اسلام نے صرف معروف (نیکی) کے کاموں میں قرض دینے کا اچھا فعل قرار دیا ہے، نہ کہ معصیت (گناہ) کے کاموں کے لیے۔ کسی گناہ یا غیر شرعی کام کے لیے کسی کو قرض دینا ناجائز ہے، اور اگر کوئی یہ سب جان بوجھ کر بھی قرض دیتا ہے تو وہ بھی ثواب کے بجائے شریکِ گناہ ہوگا، کیونکہ یہ شخص ایک گناہ اور غیر شرعی کام کوآسان کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کا بھی فرمان ہے کہ ’’تم گناہ اور زیادتی کے کاموں میں معاونت ہرگز نہ کرو۔‘‘ (القرآن) اسلام نے صرف ضرورت کے وقت قرض لینے کی اجازت دی ہے نہ کہ فضول خرچی کے لیے۔ اسلام تو اسراف سے منع کرتا ہے۔ اسلام میانہ روی کا درس دینے والا مذہب ہے، اسلام انسان کے ہر فعل میں میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے۔
اسلام نے ضرورت مند کو قرض دینے کی تو فضیلت بیان کی ہے لیکن قرض لینے والے کے لیے بہت سی حدود و قیود مقرر کی ہیں کہ بلا ضرورت قرض نہ لیا جائے۔ ایک صحابیؓ کا انتقال اس حالت میں ہوگیا کہ ان پر قرض تھا، تو آنحضرتﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھانے سے گریز کیا، جب حضرت علیؓ نے قرض کی ضمانت لی تو آپؐ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ شہید فی سبیل اللہ کے تمام گناہ معاف فرمادیں گے لیکن اس کے ذمہ واجب الادا قرض کو معاف نہیں فرمائیں گے۔اس کے برعکس اگر کوئی قرض دار بالکل مفلس ہوجائے اور قرض واپس کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اسلام نے اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرنے کی تعلیم دی ہے۔ امام بخاری نے آنحضرت ﷺ کی ایک روایت نقل کی ہے کہ ’’تم سے پچھلی امتوں میں ایک نیک اور مالدار شخص تھا جو ضرورت مندوں کو قرض دیتا اور وقتِ مقررہ پر واپس لیا کرتا تھا، لیکن اگر وقتِ مقررہ پر کوئی قرض دار تنگ دست ہوتا تو اسے قرضہ معاف کردیتا اور قرض وصولی کے لیے منتخب کارندوں کو بھی ہدایت دیتا کہ جب تم کسی قرض دار سے قرض کا مطالبہ کرنے جاؤ اور اسے تنگ دست پاؤ تو معاف کردینا، شاید اللہ تعالیٰ بھی اس کے بدلے ہم سے درگزر فرمائیں۔ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جب اس شخص کی اللہ سے ملاقات (موت کے بعد) ہوئی تو اللہ نے اس سے اس کی توقع کے مطابق عمل کرتے ہوئے اس کے گناہوں سے درگزرفرمایا۔‘‘
حضرت قتادہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:’’جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے غم اور گھٹن سے بچائے تو اسے چاہیے کہ تنگ دست قرض دار کو مہلت دے، یا قرض کا بوجھ اس کے اوپر سے اتاردے۔‘‘ (مسلم)
اس حدیث سے پہلی بات تو یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ قرض داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والے شخص کے ساتھ روزِ قیامت وہی معاملہ (نرمی کا) فرمائیں گے جو وہ دنیا میں کیا کرتا تھا کہ وہ دنیا میں قرض داروں کو مہلت دیتا یا ان کا قرضہ معاف کرکے ان کے سر سے بوجھ ہٹاتا اور انہیں قرض کی ادائیگی کے غم اور اس کے بوجھ کی گھٹن سے راحت ملتی تھی۔ اللہ تعالیٰ بھی روزِ قیامت اس شخص کے ساتھ بعینہٖ ایسا ہی معاملہ کرتے ہوئے اسے آخرت کے حساب کتاب کے غم اور اس کے بوجھ کی گھٹن سے نجات دیں گے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر قرض دار کے حالات درست ہونے کی کچھ امید ہو کہ کچھ عرصے بعد اس کے حالات بہتر ہوجائیں گے اور وہ قرض ادا کرنے کی پوزیشن میں آجائے گا تو قرض کی ادائیگی کے وقت میں مزید مہلت دینی چاہیے اور اگر مستقبل قریب میں مقروض کے حالات درست اور خوشحال ہونے کے اثرات نظر نہ آرہے ہوں تو اسے قرض معاف کردینا چاہیے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو شخص خلوصِ نیت سے قرض کی ادائیگی کا ارادہ کرے تو اللہ تعالیٰ غیب سے اس کے قرض کی ادائیگی کے ذرائع پیدا فرمادیتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص لوگوں کا مال (بطورِ قرض) لے اور وہ اس کے ادا کرنے کی نیت رکھتا ہو، اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے (قرض) ادا کردے گا، اور جس شخص نے مال بطورِ قرض لیا اور نیت ادا کرنے کی نہیں رکھتا تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو اس کی وجہ سے تباہ کردے گا۔‘‘
اسلام نے جہاں قرض دہندہ کو تعلیم دی ہے کہ جب اپنے قرض کا مطالبہ کرے تو اچھے طریقے سے کرے، اسی طرح مقروض کو بھی تلقین کی ہے کہ اگر وہ قرض ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہے تو فوراً ادا کردے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’مالدار کا ٹال مٹول سے کام لینا ظلم ہے۔‘‘ قرض ادا کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود ادائیگی میں کوتاہی اور ٹال مٹول کو آپؐ نے ناپسند فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرض کی ادائیگی میں بہتر ہو۔‘‘ (ابنِ ماجہ) ابنِ ماجہ ہی کی ایک اور روایت ہے کہ مومن کی روح اس کے قرض کے ساتھ معلق رہتی ہے تاآنکہ اس کی طرف سے ادا نہ کردیا جائے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے آپؐ کا ارشاد منقول ہے کہ ’’اگر کسی کاانتقال ہواور اس پر ایک دینار یا دو درہم بھی باقی (قرض) ہوںتو اسے اس کی نیکیوں سے وصول کیا جائے گا۔‘‘ (ابنِ ماجہ)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ شہید کے تمام گناہ معاف فرمادیں گے لیکن قرض معاف نہیں کریں گے۔‘‘ (مسلم)
یہ تمام احادیث قرض کے بوجھ کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ہمیں قرض کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ ترمذی کی ایک روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ وہ تکبر، خیانت اور قرض سے پاک ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘جو حضرات قرض کے بوجھ میں مبتلا ہوں انہیں چاہیے کہ وہ یہ دعا ہر فرض نماز کے بعد تین مرتبہ پڑھیں، اللہ تعالیٰ قرض کی ادائیگی کے لیے غیب سے اسباب مہیا فرما دیں گے۔ ان شاء اللہ
اعوذبک من الہم والحزن واعوذبک من العجز والکسل واعوذبک من الجبن والبخل و اعوذبک من غلبۃ الدین وقہر الرجال۔(ابوداؤد)
’’اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکر مندی سے اور رنج سے، اور تیری پناہ چاہتا ہوں بے بس ہوجانے سے اور سستی کے آنے سے، اور تیری پناہ چاہتا ہوں برائی اور کنجوسی سے، تیری پناہ چاہتا ہوں قرض کے غلبہ سے اور لوگوں کی زور آوری سے۔‘‘
اس دعائے مسنونہ کو ہر فرض نماز یا صبح و شام ضرور پڑھنا چاہیے تاکہ اللہ ہمیں ان تمام آفات سے محفوظ فرمائے۔ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146