اس سوال میں الجھے بغیر کے انسان کو کتنا اختیار دیا گیا ہے؟ ہم سب یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ انسان اتنا بااختیار ضرور ہے، اگر وہ چاہے تو اپنی مرضی کے مطابق کام کرسکتا ہے۔ مثلاً اپنے ذہن کو اپنی خواہش کے مطابق ڈھال سکتا، پرانی عادات بدل اور نئی عادات تشکیل دے سکتا ہے۔ وہ منفی سوچ سے چھٹکارا پاکر مثبت اندازِ فکر اپناتے ہوئے اور اداسی اور تفکرات میں ڈوبے رہنے کے بجائے اچھی امیدوں کے سہارے زندہ رہ سکتا ہے۔ ایک انسان کے لیے اتنا کچھ کرلینا بھی کوئی معمولی بات نہیں کجا یہ کہ وہ خود کو بالکل بے کس اور بے اختیار سمجھنے لگے۔ کامیابی حاصل کرنے کی شرط صرف کوشش اور ذرا سی محنت ہے۔
اگر آپ کا شمار قنوطیت پسند،مایوس، تفکرات اور منفی خیالات میں ڈوبے ہوئے افراد میں ہوتا ہے، تو یقین جانئے کہ آپ اپنی جان کے خود دشمن ہیں۔
ماہرین اس بات پر تحقیق کررہے ہیں کہ ایک ہی بات کو مختلف لوگ دو مختلف زاویوں سے کیوں دیکھتے ہیں؟ مثلاً کچھ لوگ پانی والا گلاس آدھا خالی دیکھ کر کیوں مایوس ہوتے ہیں جبکہ کچھ اسے آدھا بھرا ہوا سمجھ کر خوش ہوجاتے ہیں؟ اسی طرح بعض لوگ خوش ہونے کے موقع پر بھی جان بوجھ کر خوش نہیں ہوتے۔ آخر اس قسم کا طرزِ عمل کیوں جنم لیتا ہے، اس طرح کی منفی سوچ کی وجہ کیا ہے اور کیا ایسے لوگوں میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی؟
خوش قسمتی سے اس قسم کے معاملات میں نفسیاتی ماہرین کی رائے انتہائی حوصلہ افزا ہے اور وہ یہ کہ خواہ مرد ہوں یا خواتین اگر وہ پیدائشی قنوطی اور یاسیت پسند ہیں تب بھی گھبرانے کی کوئی بات نہیں، وہ چاہیں تو خود پر ذرا سی توجہ دے کر امید کا دامن تھام سکتے اور ہر بات کے منفی پہلو کو دیکھنے کے بجائے اس کے مثبت پہلوؤں کو سامنے رکھ سکتے ہیں کیونکہ جدید ترین تحقیق کے مطابق وہ افراد جو زیادہ تر خوش و خرم رہتے ہیں، پریشان اور متفکر رہنے والے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ طویل مدت تک جیتے ہیں۔
ایک امریکی ماہر نے آٹھ سو سے زائد افراد پر کئی سال تک تحقیق کی جن کی عمریں تیس سال سے زائد تھیں اور ان میں خواتین بھی شامل تھیں، یہاں تک کہ اس دوران کئی افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ اس ماہر نے دریافت کیا کہ جس طرح کولیسٹرول اور موٹاپا جلد موت اور امراض کا باعث بنتے ہیں، اسی طرح قنوطیت بھی شرح اموات میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ ان آٹھ سو افراد کے ریکارڈ سے ظاہر ہوا کہ خوش رہنے والے افراد کے مقابلے میں مایوس اور تفکرات میں گھرے لوگ جلد موت کا شکار ہوگئے۔
مایوسی اور قنوطیت پر تحقیق کرنے والے ایک معروف جاپانی ماہر نفسیات ڈاکٹر توشیکو مورتو کے مطابق ’’مایوس، پریشان اور ہر وقت تفکرات میں گھرے رہنے سے دماغی خلیات کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری رہتا ہے جس سے براہ راست ہمارا جسم متاثر ہوتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر توشیکو کا کہنا ہے ’’ہم اس بات پر تحقیق کررہے ہیں کہ جذباتی رویوں میں تبدیلی سے انسانی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ ابتدائی نتائج سے انکشاف ہوا ہے کہ جس طرح سگریٹ نوشی ترک کردینے یا وزن کم کرنے سے انسانی صحت بہتر ہوجاتی ہے، بالکل اسی طرح منفی جذباتی رویوں کے خاتمے سے بھی صحت پر اچھے اثرات پڑتے ہیں۔‘‘
یونیورسٹی آف لندن کے شعبہ نفسیات کے سینئر لیکچرار ڈاکٹر ڈیوڈنیاس کا کہنا ہے ’’موجودہ دور میں ہم سب کے لیے یہ جاننا ناگزیر ہوگیا ہے کہ پرامید اور مثبت اندازِ فکر اپنانے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ مایوس خیالات اور منفی جذبات ہمارے دفاعی نظام کو کمزور کردیتے ہیں اور قوتِ مدافعت کی کمی گلے کی خرابی سے لے کر دل کے دورے اور سرطان تک کا باعث بن سکتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ افراد جن کے گلے خراب ہوتے ہیں ان پر تحقیق سے ظاہر ہوا کہ وہ اکثر اوقات اپنی بیماری سے تین دن قبل کسی نہ کسی تلخ تجربے یا منفی جذبے کا شکار ضرور ہوئے۔ یہ بات نہیں کہ انہیں منفی جذبہ یا کوئی تلخ تجربہ بیمار کرتا ہے بلکہ اس سے ان کے جسم میں قوتِ مدافعت کا نظام کمزور ہوجاتا ہے اور یوں جراثیم کو جسم پر آسانی سے حملہ کرنے کاموقع مل جاتا ہے۔‘‘
چنانچہ ہمارے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم جسمانی اور ذہنی طور پر مثبت طرزِ عمل کا مظاہرہ کریں لیکن ایسا کیونکر ممکن ہے؟ ماہرین نے اس کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت تبدیلی لانے کا مشورہ دیا ہے۔ اس نظریے پر عمل کرنے والا کوئی بھی فرد خود کو ناامیدی اور مایوسی کے گڑھے سے نکال کر امید اور اعتماد کی درخشاں دنیا کی طرف واپس آسکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق خوشی کا انتخاب عموماً خود انسان پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کسی واقعہ کو کیسے محسوس کرتا ہے کیونکہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ واقعہ ایک ہی ہوتا ہے مگر اس پر تمام افراد یکساں خیالات کا اظہار نہیں کرتے بلکہ عموماً بہت مختلف ردِّ عمل سامنے آتا ہے کیونکہ بیشتر لوگ اپنی منفی سوچ کی بنا پر خوشی کے لمحات پہچاننے سے انکار کردیتے ہیں۔
مثال کے طور پر ایک اسکول کی طرف سے پرانے طلبا کی تقریب میں شرکت کے لیے تین خواتین کو دعوت نامہ ارسال کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک سوچتی ہے ’’ارے کتنا لطف آئے گا کہ میں اپنی تمام سہیلیوں سے ملوں گی۔‘‘ دوسری یوں سوچتی ہے ’’میں وہاں ہرگز نہیں جاؤں گی سب پرانی ساتھی آئیں گی۔ ان میں سے کئی مجھ سے زیادہ کامیاب اور اچھے عہدوں پر ہوں گی۔‘‘ تیسری کے تصورات کا رنگ یہ ہے ’’میں نہیں جاسکتی، بہت موٹی ہوچکی ہوں، سب میرا مذاق اڑائیں گی اور پھر میرے پاس پہننے کو کوئی اچھا لباس بھی نہیں ہے۔‘‘
ممتاز ماہرین نفسیات مسز کرسٹائن ویبر کا کہنا ہے کہ انسان اپنی مثبت سوچ سے اپنے ارد گرد کا ماحول تبدیل کرسکتا ہے۔ مثلاً آج ہی سے ان اچھے لمحات اورواقعات کو حقیقی انداز میں محسوس کیجیے جو آپ کے ارد گرد رونما ہوتے ہیں، اس سے آپ کو انجانی خوشی ملے گی اور آپ کی مجموعی صحت پر خوشگوار اثر پڑے گا۔
جب آپ خوبصورت اور خوشگوار لمحات دیکھیں تو ان سے لطف اندوز ہونے کے لیے خود کو وقت دیں، خواہ خوشی کا یہ احساس ریل میں بیٹھے بیٹھے کسی معصوم بچے کو معصوم حرکتیں کرتے دیکھ کر ہی کیوں نہ ہورہا ہو… دفتر کے ساتھی کے دلچسپ مذاق، سردیوں کی گرم دھوپ اور چاندنی کی ٹھنڈک جیسے خوبصورت لمحات کو سرسری انداز سے نہ دیکھیں بلکہ جہاں تک ممکن ہو ان لمحات سے خوشیاں کشید کرنے کی کوشش کریں۔ بلاشبہ یہ آپ ہی پر منحصر ہے کہ اپنا موڈ کیسا رکھتے ہیں۔ ویبر لکھتی ہیں ’’زندگی کے تلخ اور مایوس کن واقعات کے بارے میں سوچنے سے حتی الامکان گریز کیجیے۔ اگر کبھی ایسا خیال آبھی جائے تو خود سے یہ کہیے کہ میں اس سلسلے میں کچھ سوچنے کے لیے تیار نہیں۔‘‘
اگر آپ کے خیال میں وہ بات ہوجائے جو نہیں ہونی چاہیے تھی، تب بھی اسے سر پر مسلط نہ کریں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کی ریل چھوٹ جاتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ پورا دن ناگوار اور خراب مزاج کے ساتھ گزاردیں۔ آپ یہی سوچیں ’’یہ اتفاقی حادثہ ہے اور اب آپ ٹرین کو کسی صورت واپس نہیں لاسکتے چنانچہ سارا دن خراب کرنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
ماہرین نے تجویز کیا ہے کہ جب آپ کسی معاملے میں الجھاؤ محسوس کریں تو اپنی توجہ کسی اور طرف مرکوز کردیں مثلاً کسی بچے کی حرکتوں پر، گھر میں پالے گئے جانور پر یا کسی ایسے شخص پر جو آپ کو اچھا لگتا ہو اور وہ آپ پر محبت کی نگاہ ڈال سکے۔ اسی طرح خوبصورت موضوعات کو سامنے رکھیں۔ پھول، زیور، پسندیدہ خوشبو وغیرہ پر گفتگو کرکے بھی پریشان کن خیالات سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔
خدا نہ کرے اگر کسی عورت کو اس کا شوہر طلاق دے دے تو وہ اس طرح نہ سوچے ’’میرے شوہر نے مجھے چھوڑ دیا ہے، ساری دنیا یہ کہے گی کہ میں بہت بری عورت ہوں اور اب مجھے کوئی شخص قبول نہیں کرے گا۔‘‘ اس کے بجائے یہ سوچے ’’سمجھدار لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ علیحدگی کے معاملات میں میاں بیوی دونوں برابر کے قصور وار ہوتے ہیں۔ جو کچھ ہوا وہ میرے ماضی کا حصہ ہے، لیکن میرا مستقبل بہت روشن اور خوبصورت ہوگا یہاں تک کہ میں سب کچھ بھول جاؤں گی۔‘‘
ممکن ہے کہ اس طرح کی مثبت سوچ آپ کو مکمل طور پر پریشانیوں سے نہ بچاسکے تاہم یہ آپ میں حالات سے لڑنے کا حوصلہ اور طاقت ضرور پیدا کردے گی بلکہ آپ کے لیے ذہنی دباؤ کا مقابلہ کرنا بھی آسان ہوجائے گا۔ ایک ستر سالہ خاتون آج بھی صحت مند ہے اور سرگرم زندگی گزارتی ہے اس کے دوستوں میں بیس سے اسّی سال تک کے افراد ہیں۔ اس کا کہنا ہے مجھے تفکرات اور پریشانیوں سے لڑتے ہوئے کچھ مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے، لیکن جانتی ہوں کہ ہماری زندگی میں بہت ساری باتیں ایسی ہیں جن پر ہمیں اختیار نہیں ہوتا لیکن ان معاملات کو کسی نہ کسی طرح حل تو کرنا ہی ہے چنانچہ میں خوش دلی سے مصائب کا مقابلہ کرتی ہوں اور کبھی ناکام نہیں ہوئی۔‘‘
ماہرینِ نفسیات کی رائے میں خوش رہنے کے لیے پانچ نکات بہت معاون ثابت ہوتے ہیں:
(۱) روزانہ کسی پرفضا مقام پر خاموش بیٹھ کر دس منٹ تک صرف اور صرف مثبت اور اچھی باتیں سوچئے۔
(۲) یہ نہ سوچیں کہ صرف دوستوں کی محفل ہی میں آپ خوش رہ سکتے ہیں بلکہ تنہائی کے لمحوں سے بھی لطف اٹھائیے کیونکہ انفرادی طور پر بھی آپ خوش رہنے کا حق رکھتے ہیں۔
(۳) اس بات کے بارے میں اپنے قریبی دوست سے گفتگو کریں جو آپ کے لیے رنج یا تکلیف کا باعث بنی ہو، کوشش کریں کہ اس کی کسی طرح تلافی ہوسکے۔
(۴) ذہنی دباؤ پر بات کرتے وقت اس کے اثرات سے آگے کی بھی سوچیے۔ زیادہ تر یہ بات سوچیں کہ دباؤ سے کس طرح نجات حاصل کی جاسکتی ہے اور یہ کہ دباؤ کی اصل وجہ کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
(۵) اپنے دماغ، جسم اور روح کو متوازن رکھیں، آرام اور کام میں ہم آہنگی پیدا کریں اور تنہائی ہو یا پرشور محفل، ہر طرح کے رنگ میں ڈھل جانے کا ہنر سیکھیں۔
کرسٹائن ویبر اپنی کتاب میں لکھتی ہیں: ’’مشق کے ذریعے کوئی بھی شخص مثبت رویے اپنانے میں مہارت حاصل کرسکتا ہے۔‘‘
آئیے آج اور ابھی یہ عزم کریں کہ ہم مایوسی کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیں گے بلکہ مثبت خیالات اپنا کر صحیح عمل کا آغاز کریں گے۔ یہ سوچ آپ کے دل و دماغ پر بڑا خوشگوار اثر ڈالے گی، سوچیے تو سہی!
(مرسلہ: اقبال احمد ریاض، اردو ڈائجسٹ)
——