اشرف چائے فروش کی بیوی زینب، عموماً چپ چپ رہتی۔ جو شخص بھی اسے ایک نظر دیکھ لیتا، کہتا کہ یہ عورت یا تو کسی روگ میں مبتلا ہے یا اپنی ذات میں گم ہے۔
اس کی سسرال میں ایک تو اس کی ساس دمے کی مریض تھی، جس نے اپنے ذمے تین کام لے رکھے تھے: اپنی کوٹھڑی میں بلغم کا ڈھیرلگانا، حقہ پینا اور کھانسی کے شدید دورے کے درمیان باقاعدگی سے اپنی بہو کے لتے لینا۔ زینب جب بھی ایک ہاتھ میں چولہے کی راکھ سے بھرا ہوا مٹی کا پیالہ اور دوسرے ہاتھ میںجھاڑو لیے اس کی کوٹھڑی میں آتی تو ساس کو نہ جانے کیسے بہو کی پیشانی پر کچھ نمایاں شکنیں نظر آجاتیں، اور وہ ایک آدھ فقرہ ضرور کہہ دیتی، مثلاً تو تو ملکہ ہے ملکہ… بڑا برا ہوا، ہماری جھونپڑی میں آگئی۔ زینب اس قسم کے فقرے سننے کی عادی ہوچکی تھی۔ جب ساس کی کھانسی کے دھچکے کھاتی آواز بلند ہوتی، وہ اپنی گردن اور جھکا لیتی۔
ساس کے علاوہ زینب کی ایک نند بھی تھی، جس کا نام خدیجہ تھا۔ وہ سسرال والوں سے لڑ کر میکے آبیٹھی تھی۔ اپنی محرومیوں سے اس نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا تھا، چنانچہ موقع بے موقع بھابی کی ذات میں کیڑے نکالنا وہ اپنا فرض گردانتی تھی۔ لیکن یہاں بھی زینب کا کم و بیش وہی رویہ ہوتا جو ساس کے طعنے سن کر ہوتا تھا۔
ماں اور بہن کے مقابلے میں اس کے شوہر کا رویہ بہت حد تک مختلف تھا۔ وہ نہ تو طعنہ زنی میں ان کا ساتھ دیتا، اور نہ بیوی کو خوش کرنے کی خاطر انہیں ڈانٹتا، بس وہ غیر جانب دار رہنا پسند کرتا۔ حالات نے ثابت کردیا کہ یہ طریق کار اس کے حق میں برا نہیں تھا۔ ماں بہن کو وقتی طور پر تو اس سے شکایت پیدا ہوجاتی پھر وہ اسے مجبور سمجھ کر معاف کردیتیں۔ ان کا خیال تھا کہ اشرف ذرا ’مخولیا‘ ہے، ہر بات مخول میں اڑا دیتا ہے۔
محلے والے شروع شروع میں زینب کو مثالی بہو سمجھتے تھے، لیکن پھر اشرف کی ماں اور بہن کی باتیں سن سن کر وہ بھی اسے ایسا ہی سمجھنے لگے، مگر رحمت سنار کی ماں کا خیال زینب کے بارے میں بالکل نہیںبدلا۔ وہ اکثر کہا کرتی تھی کہ خدا بہو دے تو زینب جیسی، ورنہ بیٹا بن بیاہا ہی اچھا۔ اصل میںاس کی بہو صفیہ بڑی لڑاکا تھی۔ یہ اسی کا ردِ عمل تھا کہ وہ بقول اپنے زینب جیسی اللہ میاں کی گائے کو بہت پسند کرتی اور اپنے ملنے والوں سے کہا کرتی تھی: ’’اشرف کی ماں تو اپنی یتیم بہو پر ظلم کرتی ہے، ہماری صفو جیسی بہو ملتی تو ہاتھ مل مل کر روتی۔‘‘
اشرف ایک چھوٹی سی کینٹین کا مالک تھا، جو ایک چھوٹے سرکاری دفتر میں صبح سے لے کر دفتر میں کام ختم ہونے تک کھلی رہتی۔ اس دفتر میں اٹھارہ کلرک اور ایک ان کا سپرنٹنڈنٹ تھا۔ اس کی دکان سے کلرک سارا مہینہ ادھار چائے پیتے اور مہمانوں کے لیے بھی درجن آدھ درجن بسکٹ منگوالیتے۔ مہینہ گزرنے کے بعد نئے مہینے کی پہلی تاریخ کو انہیں تنخواہ ملتی تو وہ قرض ادا کرنے کی طرف نیم دلی سے توجہ کرتے۔اکثر ایسا ہوتا کہ ایک آدھ کلرک چھٹی سے قبل ہی خزانچی کی منت سماجت کرکے، یا اپنے حساب میں اسے چائے پلاکر تنخواہ وصول کرتا، اور چپ چاپ دفتر کے دروازے سے نکل جاتا۔ اس کلرک کا قرض کبھی ادا نہ ہوتا، کیوں کہ اس کی تنخواہ میں اتنی گنجائش ہی نہیں ہوتی تھی کہ نیا قرض ادا کرے اور پچھلی رقم بھی اشرف کے حوالے کردے۔
سپرنٹنڈنٹ نے تو کبھی چائے اور پیسٹری کے پیسے دیے ہی نہیں تھے۔ آخر اسے احساس تھا کہ اس نے اپنے دفتر میں اشرف کو کینٹین چلانے کا کام دے رکھا ہے۔ یہ کام وہ کسی اور کو بھی تو دے سکتا تھا۔ مگر اس نے مہربانی اشرف ہی پر کی تھی۔
مہینے کی پہلی تاریخ کو اشرف کلرکوں سے وصول شدہ رقم زینب کے ہاتھ میں رکھ دیتا۔ پھر آنے والے تیس اکتیس دنوں میں کبھی اس سے نہ پوچھتا کہ خرچ کی تنگی تو نہیں ہے، یا ضرورت کی سب چیزیں گھر میں موجود ہیں؟ وہ بیوی کو رقم دیتے وقت اپنے پاس اتنے روپے محفوظ کرلیتا جن سے اسے سگریٹ پان خریدنے میں دقت پیش نہ آئے۔ زینب نے ایک بار بھی اس سے نہیں پوچھا تھا کہ تمہاری جیب میں کتنے روپے ہیں، اور ان سے کیا خریدوگے۔ جب وہ شوہر سے دس یا پانچ روپے کے نوٹ وصول کرتی تو مسکراتی رہتی، جیسے اس کا شوہر اسے بہت بڑی عزت دے رہا ہے، اور اس عزت افزائی پر اس کا دل بہت خوش ہے۔
رقم کے ساتھ اشرف بیوی کو مٹھائی کا ایک لفافہ اور طرح طرح کے مسالوں سے بھرا، کاغذ میں لپٹا ہوا ایک پان بھی دیتا۔ زینب کو’آرڈر‘ تھا کہ پان سنبھال کر رکھے، اور رات کو دس گیارہ بجے کھائے۔ پان لیتے وقت اس کی مسکراہٹ غائب ہوجاتی اور چہرے پر کہیں کہیں پسینے کے دوچار قطرے تیرتے نظر آتے۔ آنکھیں جھک جاتیں، اور وہ نفی میں اپنا سر ہلانے لگتی۔ مگر زینب تھی بڑی پگلی عورت، وہ مٹھائی والے لفافے کے ساتھ پان بھی ساس کے سامنے چارپائی پر رکھ دیتی۔ ساس تو ایک آدھ برفی اٹھا کر لفافہ بند کردیتی، لیکن نند وہاں ہوتی تو جھپٹ پڑتی اور دیکھتے ہی دیکھتے پان منہ میں ڈال دیر تک جگالی کرتی رہتی۔
اکتوبر کے اوائل میں یہ افواہ گشت کرنے لگی کہ حکومت کا وہ چھوٹا سا بجلی کادفتر جس میں اشرف کینٹین کا انتظام کرتا تھا، جلد ہی ٹوٹنے والا ہے اور تمام کلرک کسی بڑے دفتر میں جانے والے ہیں۔ اشرف کو اس افواہ سے خاصی پریشانی ہوئی، کیونکہ اس کے لیے ایسے گاہکوں کی تعداد پانچ تک پہنچ چکی تھی، جنھوں نے تین تین چار چار ماہ کے بل ادا نہیں کیے تھے۔ اب اگر دفتر ٹوٹ جاتا، تو یہ کلرک بلوں کی رقم بھی ساتھ لے جاتے، اور کبھی شکل نہ دکھاتے۔
اگلے مہینے کے وسط میں دفتر خالی ہونے لگا۔ اتفاق یہ ہوا کہ جن کلرکوں نے اشرف کے بل ادا نہیں کیے تھے، ان میں سے تین تو بیمار پڑگئے، اور انھوں نے تین روز کی چھٹیاں لے لیں۔ایک صاحب کے ماموں کی شادی کا ہنگامہ شروع ہوگیا اور پانچویں کلرک کا نانا تیسری مرتبہ انتقال فرما گیا۔ یوں اشرف کو بہت کم رقم وصول ہوئی۔ اسے جتنی رقم ملی، وہ بیوی کو ارادتاً آزمائش میں ڈالنے کے لیے اس کی ہتھیلی پر رکھ دی۔
’’ساٹھ اوپر دو روپے ہیں۔‘‘ زینب نے رقم گن کر کہا۔
اشرف کو غصہ آگیا، کیونکہ اسے توقع تھی کہ زینب رقم واپس کرکے کہے گی، میں نہیں چلاسکتی گھر کا خرچ۔ مگر اس نے تو ذرا سا بھی اعتراض نہیں کیا تھا۔ کیسی ہے یہ عورت! اشرف نے دل میں کہا اور اس کا دایاں شانہ تھپتھپاتے ہوئے کہا ’’کیا کروگی؟‘‘
’’اچھا۔‘‘
’’میں پوچھتا ہوں، اچھا کی بچی! کروگی کیا؟‘‘
’’فکر نہ کر شیرے کے ابا!‘‘
اشرف کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ اس سے مزید گفتگو کرتا۔ اس نے تو اپنا سارا بوجھ بیوی کے کندھوں پر رکھ دیا تھا۔ بیوی نے کندھوں پر یہ بوجھ اٹھاتے ہوئے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اس روز وہ مٹھائی کا لفافہ نہیں لایا، پان ضرور لایا تھا اور وہ بیوی کے حوالے کرکے باہر نکل گیا۔
نند شاید کہیں پاس ہی کھڑی یہ باتیں سن رہی تھی، بھائی کے جاتے ہی وہ اندر آگئی اور بولی: ’’ہائے اللہ! پتا نہیں کیا کھا لیا، منہ میں زہر بھر گیا ہے۔‘‘
زینب مسکرائی، اور پان نند کے حوالے کردیا۔ نند جاتے ہوئے کہتی گئی’’شرم تو نہیں آتی پان کھاتے ہوئے! ایک بچے کی ماں بن گئی ہے اور کرتوت یہ ہیں۔‘‘
لفظ ’کرتوت‘ پر زینب کے سینے پر جیسے ایک چنگاری سی چمک اٹھی۔ وہ نند کی طرف مڑی۔ نند بھی جاتے جاتے رک گئی تاکہ بھابی کوئی لفظ کہے تو وہ اسے خوب خوب سنائے۔ مگر زینب کے منہ سے کوئی لفظ نہ نکلا۔ صرف ایک لمحے کے لیے وہ مسکرائی، اور پھر شیرے کو گود میں اٹھا لیا۔ بچہ زور زور سے رونے لگا۔
اشرف حیران تھا کہ گھر کا خرچ پورا کس طرح ہورہا ہے۔ تھوڑے سے روپوں میں روز ہانڈی بھی پکتی، ناشتے میں اسے چائے اور دو پراٹھے بھی ملتے، رات کو وہ پاؤ ڈیڑھ پاؤ دودھ بھی پیتا۔ وہ صبح سے لے کر شام تک دفتروں میں چکر لگاتارہتا کہ کہیں کینٹین کی گنجائش نکلے تو وہ کام کرنا شروع کردے۔ آخر پہلے دفتر کے سپرنٹنڈنٹ نے اسے یہ خوش خبری سنائی کہ اس کے ایک دوست کے ایک بڑے دفتر میں کینٹین بننے والی ہے۔ وہ اس کے لیے کوشش کررہا ہے۔
اشرف بہت خوش ہوا، مگر اب سوال یہ تھا کہ بڑے دفتر میں کینٹین بنانے کے لیے نیا سامان کہاں سے آئے گا۔ وہ فکر مند تھا، مگر شام ہی کو اس کی فکر دور ہوگئی۔ ہوا یوں کہ اس نے زینب سے اپنی دقت کا ذکر کیا۔ زینب نے کوئی لفظ نہ کہا، ٹرنکوں والے کمرے میں گئی، اور چند منٹ میں رومال میں بندھی ہوئی کوئی چیز اپنے شوہر کے سامنے رکھ دی۔ اشرف نے رومال کھولا تو اس کی آنکھوں کے سامنے زینب کے سونے کے کڑے چمک رہے تھے۔ یہی سارا زیور تھا، جو اس کی بیوہ ماں نے اسے جہیز میں دیا تھا۔
اشرف نے ایک منٹ تک بیوی کی خالی بانہوں کو دیکھا، وہ کچھ کہنا چاہتا تھا کہ زینب مسکرائی اور اشرف کڑے اٹھا کر باہر چلا گیا۔
سپرنٹنڈنٹ کی کوششوں سے اشرف کو کینٹین کھولنے کے لیے جو نیا دفتر ملا وہ پرانے سے چار گنا بڑا تھا۔ اسی نسبت سے کام کرنے والے لوگوں کی تعداد بھی زیادہ تھی۔ اس دفتر کی ایک خاص خوبی یہ تھی کہ بڑے بڑے ٹھیکے دار مطلوبہ رقم کے چیک حاصل کرلیتے تو مہربان افسروں کی دعوت اشرف ہی کی کینٹین میں کرتے یوں اشرف کے وارے نیارے ہوجاتے۔
کہنے والے غلط نہیں کہتے کہ دینے والا جب دینے پر آئے، تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے۔ اشرف کو ایک شاندار دفتر میں کینٹین کا ٹھیکہ مل گیا، اور اُس کی بہن خدیجہ اپنے شوہر سے صلح کرکے دوبارہ اپنے گھر جاآباد ہوئی۔
خدیجہ کی ماں کہتی تھی کہ اس کی بیٹی یوں سسرال میں واپس گئی کہ نحوست کے دن ختم ہوگئے۔
اشرف نے یہ بات سنی تو اپنے دل میں کہا : ’’واہ واہ، کیا نیک بخت بیوی ہے۔ اس کی وجہ سے میری بہن کا اجڑا گھر آباد ہوگیا۔‘‘
اشرف کو یہ بھی خوشی ہوئی کہ اب اس کی بیوی سے کوئی بارہ مسالوں والا پان نہیں چھینے گا۔ جب نئے مہینے کی پہلی رات اس نے بیوی کے تکیے کی طرف ہاتھ بڑھا کر اس کے بال کھینچے تو نتھنوں میں پان کے مسالوں کی کوئی خوشبو نہ پہنچ سکی۔ زینب نے صرف ’اوئی‘ کہہ کر سر ذرا پیچھے کھسکانے کی کوشش کی۔
’’پان کہاں ہے؟‘‘
’’اماں کھاگئی۔‘‘
اشرف جانتا تھا کہ زینب جھوٹ بول رہی ہے۔ اسے غصہ آیا اور اس نے بال چھوڑ دیے۔ یکایک خوشبو کا ایک بھرپور جھونکا اس کی ناک میں داخل ہوگیا۔ فی الفور اس کی انگلیاں بالوں کے ڈھیر میں ڈوب گئیں۔
’’اب تو راضی ہونا؟‘‘ زینب چہکی۔
’’تو بڑی مخولی ہے۔‘‘ اشرف کے منہ سے نکلا۔
’’مخولیا تو آپ ہیں۔‘‘ اور اشرف کے چہرے پر پان کے ذروں کی بارش ہوگئی۔
دوسرے روز زینب معمول کے خلاف صبح سے شام تک مسکراتی رہی۔ اشرف نے چار سو کی رقم اس کے حوالے کی تھی۔ زینب نے اتنی بڑی رقم کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اب کے وہ گھر میں دو کے بجائے تین لفافے لایا تھا، ایک میں مٹھائی تھی، دوسرے میں زینب کے سوٹ کا کپڑا اور سب سے چھوٹے لفافے میں دو پان تھے۔
’’دو کیوں؟‘‘ زینب نے سوچا، مگر اسے زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ ماں کی کوٹھڑی سے باہر نکلتے ہی اشرف نے لفافہ کھول ایک پان اپنے منہ میں ڈال لیا، اور ہاتھ سے ہونٹ پونچھتے ہوئے دروازے کی طرف جانے لگا۔
آج یہ کہاں جارہا ہے؟ زینب کے دل میں سوال پیدا ہوا۔ اشرف نے دروازے کے پاس رک کر کہا:’’بازار جارہا ہوں… سوجانا۔‘‘
زینب وہیں کھڑی رہی۔ بچہ کمرے کے اندر رونے لگا تھا۔ زینب کمرے میں گئی اور بچے کو گود میں اٹھا لیا… پان ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھا۔ اس نے اسے ایک نظر دیکھا، اور پھر تکیے تلے رکھنے کے بجائے چینی کے برتنوں والی الماری میں رکھ دیا۔
رات گزررہی تھی اور اس کے بال تکیے پر بکھرے پڑے تھے، ابھی تک کوئی ہاتھ ان کی طرف نہیں بڑھا تھا۔ بار بار اس کے ذہن میں یہ سوال ابھر آتا کہ اشرف کہاں گیا؟ توجہ ہٹانے کے لیے وہ اپنے سوٹ کے متعلق سوچنے لگی، اسے سیے گا کون! برکت درزی؟ نہیں نہیں، میں تو اسے انارکلی کے کسی درزی سے سلواؤں گی۔ صفیہ سے کہوں گی، آؤ صفیہ! میرے ساتھ، انارکلی میں کسی درزی کو دے آئیں۔ انہی خیالوں میں اس کی آنکھ لگ گئی۔
صبح کے آٹھ بجے ہوں گے کہ اس کی ساس کی کڑکتی ہوئی آواز اس کے کان میں آئی ’’نی زینبو!‘‘ ساس اپنی لاٹھی دروازے پر برسا رہی تھی، وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی اسی لمحے اس نے دیکھا کہ روشن دانوں سے دھوپ اندر آکر اس کے شوہر کے خالی بستر کو پوری طرح روشن کیے ہوئے ہے۔
ماں نے ابھی تک بیٹے کا خالی بستر نہیں دیکھا تھا، وہ واپس اپنی کوٹھڑی میں جانے کے لیے مڑی اور کہنے لگی: ’’بارہ بج گئے، پیٹ میں کچھ گیا ہی نہیں۔‘‘
زینب صبح سویرے اٹھ کر سب سے پہلے اپنی ساس کے ناشتے کا انتظام کرتی، دلیا بناتی اور پھر شوہر کے لیے پراٹھے پکانے لگتی۔ شیر اجاگ اٹھتا تو اسے گود میں لیے اپنے کام میں مشغول رہتی۔ برتن مانجھنے سے کچھ دیر پہلے وہ رات کی روٹی گرم کرکے چائے کے ساتھ ناشتہ کرتی۔ یہ اس کا روز کا معمول تھا، لیکن آج کچھ فرق آگیا تھا۔
اس نے ساس کے لیے دلیا وغیرہ پکایا، اور کوٹھڑی میں جاکر رکھ آئی۔
’’نی زینبو! اشرف چلا گیا؟‘‘
زینب نے آہستہ سے کہا’’چلا گیا ہوگا۔‘‘ وہ کہنا چاہتی تھی کہ رات اشرف نہیں آیا، مگر منہ سے ایک لفظ نہ نکل سکا۔
وہ باورچی خانے جاکر کاموں میں مصروف ہوگئی۔ مگر یہ فقرہ بار بار اس کے ذہن میں جاگ اٹھتا ’’اشرف رات کو نہیں آیا… اشرف رات کو نہیں آیا۔‘‘
اس دن وہ مشین کی طرح ہاتھ پاؤں چلا رہی تھی۔ جب بھی کوئی چیز رکھنے، یا لے جانے کے لیے اپنے کمرے میں جاتی تو اشرف کا بغیر سلوٹوں والا بستر اس سے ایک سوال پوچھ لیتا وہ دوچار لمحے بستر کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے کے بعد کمرے سے باہر نکل آتی۔
ساس کے کپڑوں پر صابن لگاتے ہوئے اس کے ہاتھ یکایک رک گئے۔ اس نے اوپر دیکھا، اور اس کے ہونٹوں سے ایک دعائیہ فقرہ نکل گیا ’’اللہ میاں! اشرف کو کچھ نہ ہو، اللہ میاں۔‘‘ اس نے تین چار بار آنکھیںجھپکائیں اور کپڑوں پر زور زور سے ڈنڈا مارنے لگی۔
جاڑے کی تاریک اور لمبی رات، زینب چارپائی پر لیٹی سامنے دیوار کو مسلسل گھور رہی تھی۔ عام طور پر آٹھ نو بجے وہ کمرے کا بلب بجھا دیا کرتی تھی۔ دن بھر کاموں میں جتے رہنے کی وجہ سے وہ بہت تھک جاتی تھی۔ اسی لیے لیٹتے ہی جلد سوجاتی، مگر اس رات کمرہ روشن تھا اور اس کی آنکھیں کھلی تھیں، باوجود یہ کہ اس نے دن کے وقت عام دنوں کے مقابلے میں دگنا کام کیا تھا۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ رات کتنی بیت گئی، اور کتنی باقی ہے، البتہ وہ یہ ضرور جانتی تھی کہ وہ جاگ رہی ہے، اور اشرف کا بستر خالی ہے۔ ہوا کا ایک سرد جھونکا نہ جانے کدھر سے آیا اور اس کا چہرہ مس کرتا گزرگیا۔ اس نے سوتے بچے کو جلدی سے اٹھایا، گود میں لیا اور اس کے چاروں طرف لحاف پھیلادیا۔ ’’ہائے اتنی سردی میں وہ کہاں ہوگا؟ اللہ میاں، اسے کچھ نہ ہو!‘‘ وہ کئی منٹ یوں ہی بیٹھی رہی۔
’’ہیں، یہ کیا؟‘‘ اس نے خود سے سوال کیا۔ باہر کسی بھاری چیز کے گرنے کی آواز آئی تھی۔ اس نے شیرے کو آہستہ سے بستر پر لٹا دیا۔ چارپائی سے اٹھ کر دروازے پر آئی اور دروازہ کھولا، سامنے دیوارکے قریب ایک سایہ نظر آرہا تھا۔ ’’یہ کون ہے؟‘‘ اس نے چیخ مارنی چاہی، مگر مار نہ سکی۔
اشرف دروازے سے داخل ہوچکا تھا۔ وہ بری طرح لڑکھڑا رہا تھا، اور زینب اسے بڑی حیرت سے دیکھ رہی تھی۔
’’دروا…زہ… کھولاتی ناہیں۔‘‘ اشرف کی زبان سے الفاظ اپنی اصلی صورت میں ادا نہیں ہوئے۔ زینب اسے بدستور حیرت سے دیکھ رہی تھی۔
’’آپ … تم… کیا آرڈر اے سرار۔ چائے ہاف سیٹ… نے ہیں… فل سے …ٹ … ہیں … نہیں ، آہاہاہاہا … ہاہا!‘‘ اشرف انٹ شنٹ بولتا اپنی چارپائی پر گرپڑا۔
زینب نے اس پر لحاف ڈال دیا۔ اشرف نے منہ بھی لحاف کے اندر چھپا لیا، شاید وہ سوگیاتھا۔ یہ کیا ہوا، یہ کیا ہورہا ہے؟ زینب کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ وہ ابھی تک وہیں کھڑی تھی۔ اچانک اس کی نظر اپنی چارپائی پر پڑی۔ شیرا اٹھ بیٹھا تھا، اور دایاں ہاتھ یوں لہرا رہا تھا جیسے ماں کو ڈھونڈ رہا ہو۔ زینب جلدی سے اس کے پاس پہنچی، اور اسے گود میں اٹھالیا۔ شیرے کا ننھا ہاتھ جیسے ہی اس کی دائیں آنکھ سے لگا، زینب کے دل کا بوجھ ہلکا ہونے لگا اور اس کے رخسار بھیگنے لگے۔ اس نے بچے کو بھینچ کر اپنے سینے سے لگالیا۔ اس کا بدن دیر تک کانپتا رہا اور بچہ اسے خوف زدہ نظروں سے دیکھتا رہا۔ اشرف کو کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ ساتھ والی چارپائی پر کیا ہورہا ہے۔
جمعہ کی دوپہر کو دھوبی دھلے ہوئے کپڑے لے آیا۔ زینب نے ہر ایک کے کپڑے الگ الگ کردیے۔ زیادہ کپڑے اشرف ہی کے تھے۔ کپڑے لیے وہ پھر کمرے میں پہنچی۔ جب اشرف کے کپڑوں والا ٹرنک کھولا تواسے محسوس ہوا کہ کپڑے کچھ اوپر اٹھے ہوئے ہیں۔ زینب نے ہاتھ ابھرے کپڑوں کے نیچے ڈالا تو اسے کسی سخت چیز کا احساس ہوا۔ ’’ہیں، یہ کیا چیز ہے؟‘‘
اس نے اسے باہر نکالا۔ وہ ایک بوتل تھی۔ اس سے ذرا چھوٹی جس میں وہ بازار سے مٹی کا تیل لایا کرتی تھی۔ زینب اسے اٹھا کر دیکھنے لگی۔ بوتل کے ارد گرد ایک کاغذ لپٹا ہوا تھا، جس پر انگریزی کے کچھ حروف چھپے تھے۔ زینب اردو کے چند عام لفظوں کو تو پڑھ سکتی تھی، مگر انگریزی سے بالکل نابلد تھی۔
’’تیل ہوگا!‘‘ اس نے دل کو تسلی دینے کی کوشش کی۔مگر تیل والی بوتل یہاں رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس نے خود سے سوال کیا۔
شام کے قریب رحمت سنار کی بہو صفیہ اس کے ہاں آئی تو وہ اسے ٹرنکوں والے کمرے میں لے گئی۔
’’صفو!‘‘
’’کیا ہے؟‘‘
’’دیکھو یہ بوتل؟‘‘ زینب نے ٹرنک میں سے بوتل نکال کر اس کے سامنے رکھ دی۔
صفیہ نے بوتل اٹھائی، اسے غور سے دیکھا اور بولی، ’’ارے… یہ تو وہ ہے … شاراب…‘‘
’’شراب؟‘‘
’’ہاں ہاں، میرا وہ رنڈوا جیٹھ ہے نا… وہ بھی ایسی بوتلیں گھر میں لایا کرتا ہے…‘‘
’’اچھا۔‘‘
’’اور کیا … نی… اپنی ساس کو دکھا دے جاکر، شاراب ہے شاراب۔‘‘
’’ماں کیا کرے گی؟‘‘
صفیہ اپنے گھر گئی تو زینب نے بوتل ٹرنکوں کے پیچھے پڑی انگیٹھی میں رکھ دی اور تکیے کا ایک پرانا اور پھٹا ہوا غلاف اوپر ڈال دیا۔ یوں بوتل کمرے میں آنے والے کو نظر نہ آتی۔ اس رات اشرف جلدی گھر آگیا۔ وہ اب بھی نشے میں تھا، مگر پہلے کی طرح لڑکھڑا نہیں رہا تھا۔
’’تو شراب پیتا ہے؟‘‘ زینب نے اسے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر کہا۔
’’پیتا ہوں، تیرے باپ کی کمائی سے تو نہیں پیتا۔‘‘
’’میرے باپ نے تیرا کیا بگاڑا ہے؟‘‘ زینب اپنے مرے ہوئے باپ کا بڑا احترام کرتی تھی۔
’’تیرا باپ…‘‘ اشرف نے اس کے باپ کو فحش گالیاں دینی شروع کردیں۔ زینب نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھنے کی کوشش کی تو اس زور کا تھپڑ مارا کہ وہ چکرا کر گرپڑی۔ جب تک وہ اٹھتی، اشرف کمرے سے نکل چکا تھا۔
زینب کے سر میں شدید درد ہورہا تھا۔ گرتے وقت اس کا سر بھی دیوار سے جاٹکرایا تھا۔ وہ چارپائی پر گرپڑی۔ تھوڑی دیر بعد اس کے شوہر کی آواز آئی ’’بوتل کہاں ہے؟‘‘
’’نہیں دیتی، تو شراب پی کر میرے باپ کو گالیاں دیتا اور مجھے مارتا ہے۔‘‘
’’تو تو شراب پی کر مجھے مارے گی۔’’ہی ہی ہی ہی۔ ہاہا ہا ہا۔‘‘ اشرف کے قہقہے رکتے ہی نہیں تھے۔
زینب کو یوں محسوس ہوا جیسے یہ باتیں خواب میں ہوئی ہیں اور وہ تمام وقت سوتی رہی ہے۔ غربت میں جو سکون اسے حاصل تھا، وہ روپے پیسے کی افراط نے ایک پل میں چھین لیا تھا۔ سچ ہے کہ دولت اپنے ساتھ بہت سی مصیبتیں اور تفکرات بھی لاتی ہے۔
صبح جب آنکھ کھلی تو شوہر کا بستر پہلے کی طرح خالی تھا۔ اس کا دل آج کام کرنے کو نہیں چاہ رہا تھا، تاہم اس نے ساس کے لیے ناشتہ تیار کیا۔ جب ساس کے پاس گئی تو وہ اسے دیکھ کر پھنکارنے لگی ’’نی زینبو! اشرف کہاں ہے؟‘‘
اس نے کہا: ’’میں کیا جانوں، اس سے پوچھو، اپنے پتر سے پوچھو۔‘‘
’’نی سنا ہے، شراب پینے لگا ہے؟‘‘
’’پیتا ہوگا۔‘‘
’’نی زینبو!‘‘ زینب کو مخاطب کرکے ساس نے اور کیا کہا، وہ نہ سن سکی۔ وہ کوٹھڑی سے باہر آگئی۔ آدھی رات سے اسے پیاس لگی تھی اور وہ اب تک پانی نہیں پی سکی تھی۔ وہ باورچی خانے جانے لگی، مگر نہ جانے کیا ہوا کہ پاؤں ٹرنکوں والے کمرے میں لے گئے۔ اس نے اپنا ہاتھ بوتل کی طرف بڑھایا۔ ایک دم اسے احساس ہوا کہ غلاف بوتل پر اس طرح سے نہیں پڑا جس انداز سے اس نے رکھا تھا۔
’’شاید بوتل لے گیا۔‘‘ اس نے خود سے کہا، لیکن جب کپڑا ہٹایا تو بوتل ویسی کی ویسی پڑی تھی۔ وہ اسے ہاتھ میں لے کر دیکھنے لگی۔
بوتل کا رنگ سیاہی مائل تھا، اس کے اندر شراب کا رنگ وہ اچھی طرح دیکھ نہیں سکتی تھی۔ اس نے سوچا، یہی شراب پی کر وہ لڑکھڑا کر چلا تھا۔ اسی کے نشے میں اشرف نے اس کے مرے ہوئے باپ کو گالیاں دی تھیں، اور اسے مارا تھا۔
’’یہ بوتل… اونہہ، بڑا آیا، میں اسے نالی میں پھینک دوں گی۔‘‘ مگر وہ اپنی جگہ اس طرح بیٹھی رہی جیسے زمین نے پاؤں پکڑ لیے ہوں۔ وہ بوتل کبھی ایک ہاتھ میں پکڑتی اور کبھی دوسرے ہاتھ میں۔ انہی لمحوں میں اشرف کی آواز گونجی ’’او زینبو!‘‘
’’اشرف مجھے ڈھونڈ رہا ہے۔ وہ مجھ سے کہے گا، میری بوتل کہا ںہے۔ جب وہ اسے میرے ہاتھ میں دیکھے گا تو بھاگ کر میری طرف آئے گا، اور یہ بوتل چھینے گا۔ میں نہیں دوں گی۔ وہ مجھے گالیاں دے گا، مجھے مارے گا، میرے مرے ہوئے باپ کو گالیاں دے گا۔‘‘
اشرف کی آواز پھر آئی ’’او زینبو!‘‘
زینب کو یوں لگا جیسے اس کی پیاس ایک دم بڑھ گئی ہے۔ اور اس کے اندر آگ بھڑک اٹھی ہے۔ جب تک اشرف اندر آئے، اس نے بوتل منہ سے لگا کر خالی کردی۔
اشرف نے اس کے ہاتھ میں بوتل دیکھی، تو زور زور سے قہقہے لگانے لگا، زور سے اور زور سے۔ اسی گھڑی زینب کا ہاتھ اوپر اٹھا، اور دوسرے ہی لمحے اشرف کے سر سے شرر شرر لہو بہنے لگا۔ بوتل نیچے گر کر بے شمارچھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں پھیل گئی۔
تھوڑی دیر بعد جب محلے کے لوگ اشرف کو چارپائی پر لٹا کر اسپتال لے جانے لگے تو وہ ہوش میں آگیا۔ وہ چیخ کر کہنے لگا: ’’لوگو! میں نے شراب پی کر بوتل میں پانی بھر دیا تھا۔ اسے یہ نشہ کہاں سے آگیا… یہ نشہ کہاں سے آگیا… لوگو! یہ نشہ… کہاں…‘‘ اور پھر وہ پاگلوں کی طرح قہقہے لگانے لگا۔
——