اس نے ایک لمحہ توقف کیا پھربولا: ’’یہ کہانی بہت الجھی ہوئی ہے۔ اس لیے اسے کسی ترتیب سے سنانا ممکن نہیں۔‘‘ مرشد مسکرایا ’’زندگی تو خود ایک بے ترتیب کہانی ہے۔ ہم سارا وقت اسے ترتیب دینے میں گزار دیتے ہیں۔ اور تم نے سنا نہیں۔ جب چیزوں میں ضرورت سے زیادہ ترتیب پیدا ہوجائے تو وہ ٹوٹ جاتی ہیں۔‘‘
اس نے پوچھا: ’’توپھر میں کہانی کہاں سے شروع کروں؟‘‘
مرشد ہنسا: ’’کہانی تو شروع ہے میں اور تم اس کے چھوٹے چھوٹے کردار ہیں۔ جو اپنی مرضی سے نہ شروع کرسکتے ہیں، نہ ختم۔‘‘
اس نے کہا: ’’اگر ہم اتنے بے بس ہیں تو پھر کیسی کہانی اور کیسے کردار؟‘‘
مرشد نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا: ’’آؤ میں تمہیں اس کہانی کے شہر میں لے چلوں۔‘‘
وہ شہر میں داخل ہوئے تو مرشد یک دم کہیں غائب ہوگیا۔ شہر اس کے سامنے تھا، اور وہ اکیلا، سامنے ایک کھلا میدان تھا۔ وہ آہستہ آہستہ میدان کے قریب پہنچا۔ دیکھا کہ میدان کے درمیان میں ایک صلیب گڑی ہے۔ جس پر کوئی ٹنگا ہوا ہے، وہ گھبرا کر تیز تیز چلتا قریب پہنچا۔ صلیب پر ٹنگے نے اس کی چاپ سن کر آنکھیں کھولیں اور مسکرا کر بولا: ’’تم پھر پتھر مارنے آئے ہو۔‘‘
اس نے گھبرا کر دونوں ہاتھ آگے کیے: ’’میرے تو ہاتھ ہی خالی ہیں۔ اور پھر میں کیوں پتھر ماروں گا؟‘‘
صلیب والا ہنسا:’’یہاں پتھر مارنے کے لیے کسی وجہ کا ہونا ضروری نہیں ، ایک کو دیکھ کر دوسرا بھی شروع ہوجاتا ہے۔‘‘
اس نے ادھر ادھر دیکھا: ’’لیکن یہاں تو کوئی نہیں، لوگ کدھر چلے گئے۔‘‘
صلیب والا ایک لمحہ چپ رہا پھر بولا: ’’وہ سارے واش بیسنوں کے سامنے کھڑے اپنے ہاتھ دھو رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس فیصلے میں ان کا ہاتھ نہیں۔‘‘
اس نے پوچھا: ’’کس فیصلے میں؟‘‘
’’مجھے مصلوب کرنے کا فیصلہ۔‘‘
’’ان کا ہاتھ نہیں تو پھر یہ فیصلہ کس نے کیا؟‘‘
’’انھوں نے ہی، لیکن اپنی مرضی سے نہیں، بس ایک دوسرے کو دیکھ کر انھوں نے ہاتھ کھڑے کیے تھے۔ یہا ںیہی ہوتا ہے، یہاں کسی کو معلوم نہیں، وہ کیا کررہا ہے بس جو دوسرے کررہے ہیں وہ بھی وہی کرتا ہے۔‘‘
پھر اس نے آسمان کی طرف نظریں کیں ’’اے خدا! ان کھیتوں میں فصلیں سرسبز اور لہلہاتی رہیں، ان کے دریاؤں میں پانی موجیں مارے اور…‘‘
وہ دعا کے باقی لفظ سنے بغیر ہی وہاں سے بھاگ نکلا اور دوڑتا ہوا سڑک پر آگیا۔ لوگ ہر کام کرنے سے پہلے دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں۔
اسے لگا وہ سارے کسی پراسرار شے کی گرفت میں ہیں۔
کیا یہ جادو کا شہر ہے۔
اور یہ سارے لوگ، لوگ ہیں بھی یا جادو کے پتلے ہیں۔
اگر یہ سارا کچھ جادو ہے تو سامری کہاں ہے؟
اس نے اپنے آپ کو ٹٹولا… یہ خواب تو نہیں۔ اگر خواب ہے تو کتنا طویل اور اکتا دینے والا کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔
یہاں ہر شخص نے استری کیا ہوا لباس پہنا ہوا ہے۔ لیکن اندر شکنیں ہی شکنیں۔ وہ آہستہ آہستہ بڑے چوک میں ایستادہ مجسمے کے سامنے پہنچ گیا۔ مجسمہ جگہ جگہ سے تڑخا ہوا تھا اور اب اس کا ہیولا ہی باقی رہ گیا تھا۔
وہ دیر تک اس ہیولے کے سامنے کھڑا رہا۔ پھر اس نے پاس سے گزرتے ہوئے ایک شخص سے پوچھا: ’’یہ مجسمہ کب ٹوٹا تھا۔‘‘
اس شخص نے کچھ سوچا’’یاد نہیں، مدت سے یونہی ہے۔‘‘
اس نے پھر سوچا ’’لیکن یہ تو تمہارا ہیرو تھا۔‘‘
’’شاید، ہاں… لیکن ہمارا عہد بغیر ہیرو کا عہد ہے۔‘‘
’’بغیر ہیرو کا عہد۔‘‘
’’ہاں ہمارا ہیرو مدت ہوئی مرچکا۔ ہم نے اسے مار دیا۔ اب نئے ہیرو کے جنم لینے کاانتظارکررہے ہیں۔‘‘
’’لیکن وہ کب جنم لے گا؟‘‘
’’کون جانے… جنم لے گا بھی کہ نہیں۔‘‘ اس نے کندھے اچکائے اور بڑھ گیا۔
وہ وہیں ہیولے کے قدموں میں بیٹھ گیا۔
عجیب شہر ہے… ہر چیز کو اوپر سے چمکا یا جارہا ہے اور اندر سے وہ تڑختی چلی جارہی ہے۔
یہا ںہر شخص کا اپنا ایک جہنم ہے جس کا انتخاب اس نے خود کیا ہوا ہے۔
مرشد نے ہیولے کے پیچھے سے سرنکالا۔’’یہ بیماریوں کا شہر ہے لیکن ہر شخص خود کو تندرست سمجھتا ہے۔‘‘ اس نے مرشد کا ہاتھ پکڑلیا ’’اس شہر وفا میں مجھے اکیلا نہ چھوڑو۔‘‘
مرشد نے اس کا کندھا تھپتھپایا ’’میں تو تمہارے ساتھ تھا، ہرلمحہ۔‘‘
اس نے کہا: ’’لیکن تم مجھے دکھائی کیوں نہیں دیے۔‘‘
مرشد ہنسا: ’’یہی تو اس شہر کی خصوصیت ہے، یہاں کسی کو اپنا آپ دکھائی نہیں دیتا۔ سارے دوسروں کو دیکھتے ہیں۔‘‘
اس نے کہا: ’’تو پھر میں اس شہر سے نکلتا ہوں۔‘‘
مرشد نے نفی میں سرہلایا: ’’اس شہر سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔‘‘
’’کوئی راستہ نہیں۔‘‘ وہ خوف زدہ آواز میں بولا۔
مرشد لمحہ بھر چپ رہا۔ پھر بولا: ’’صرف ایک راستہ ہے۔‘‘
’’وہ کیا۔‘‘
’’وہ جو صلیب پر ٹنگا ہے۔ اسے صلیب سے اتار دیا جائے اور اس کی جگہ کسی دوسرے کو مصلوب کیا جائے۔‘‘
’’لیکن کیسے؟‘‘
’’جو شہر سے نکلنا چاہتا ہے۔‘‘
’’یعنی …‘‘ اس نے خوف سے اپنے جسم پر ہاتھ پھیرا۔ ’’لیکن میں مصلوب نہیں ہونا چاہتا۔‘‘
مرشد نے اس کا کندھا دبایا ’’تو پھر جوکر رہے ہو، اسے کرتے رہو۔‘‘
اس نے ایک لمبی سانس لی اور قلم اٹھایا۔ سیکشن آفیسر نے فائل آگے کھسکاتے ہوئے کہا: سر سکریٹری صاحب دوبار فون کرچکے ہیں۔ میں نے ان کی مرضی کے مطابق نوٹ بنادیا ہے۔‘‘
اس نے سرہلایا اور نوٹ کے نیچے دستخط کردیے۔ ’’ٹھیک ہے یہ فائل بھی ان کے پاس بھیج دو۔‘‘
پھر فوراً ہی اسے کوئی خیال آیا ’’نہیں ٹھہرو، میں خود ہی لے جاتا ہوں۔ آج صبح سے انہیں سلام کرنے بھی نہیں جاسکا۔‘‘
——