گزشتہ دنوں ایک دوست نے ایک ایسا واقعہ سنایا جس میں ہم سب کے لیے غوروفکر کے بہت سے پہلو اور سبق سیکھنے کے بہت سے زاویے موجود ہیں۔ چونکہ یہ واقعہ ہمارے اجتماعی رویوں کا عکاس ہے، اس لیے قارئین کی توجہ اور فکر کے لیے حاضر ہے۔ ان صاحب نے بتایا کہ ان کے ایک قریبی بزرگ بیمار تھے جو کئی دن ہسپتال میں داخل رہنے کے بعد گھر لوٹے تو ڈاکٹرز نے انہیں مکمل آرام کا مشورہ دیا۔ انہیں دوائیں بھی ایسی دی جارہی تھیں جن میں نیند کی ادویات شامل تھیں، جن کے باعث ان کے لیے زیادہ دیر تک کسی کی بات توجہ سے سننا ممکن نہ تھا۔ دوا کے مختصر وقفوں کے باعث زیادہ وقت آرام یا نیم خوابی کی حالت میں گزار رہے تھے ایسے میں تیمار داروں نے مریض اور ان کے خاندان کے لیے شدید مشکلات پیدا کردیں۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں پہلی بار اس بات کا علم بلکہ عملی تجربہ ہوا کہ تیمارداروں کی درجنوں اقسام ہیں اور ہر قسم ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ ان کے بقول کچھ تیماردار ایسے تھے جو آتے ہی کہتے کہ آپ کو کچھ نہیں ہوا، آپ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔ ڈاکٹر تو محض فیسیں لینے کے لیے آپ کو بیمار بنارہے ہیں اور اس کا جواز پیدا کرنے کے لیے آپ کو ادویات، ٹیسٹ اور آرام کا مشورہ دیتے ہیں۔
تیمارداروں کی دوسری قسم ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو ایک آدھ منٹ میں آپ کی بیماری کا پتہ کرلینے کے بعد آپ کا علاج شروع کردیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے تجربات اور اپنے متعلقین کے بیماری کے تجربات کی بنیاد پر از خود ڈاکٹر بن جاتے ہیں۔ یہ نہ صرف آپ کو آپ کی بیماری کے علاج کے بہت سے طریقے بتاتے ہیں بلکہ ادویات بھی تجویز کردیتے ہیں، حالانکہ ان کا پیشہ طب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
تیمارداروں کی ایک اور قسم ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو خیریت کے بعد آپ کے ڈاکٹر کا نام پوچھتے ہیں اور اس ڈاکٹر میں سینکڑوں عیب نکال کر آپ کو دوا اورعلاج سے بیزار کرنے کے بعد اپنی دانست میں کسی اچھے ڈاکٹر سے فوری رجوع کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس میں ان کا کوئی مفاد شامل نہیں ہوتا، محض کارِ خیر کے طور پر وہ یہ فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔
کچھ تیماردار ایسے ہوتے ہیں کہ اگر آپ ایلوپیتھک علاج کررہے ہیں تو آپ کو ہومیو پیتھک علاج کا مشورہ دیتے ہیں اور اگرآپ ہومیوپیتھک ادویہ استعمال کررہے ہیں تو آپ کو کسی حکیم کے مطب کا راستہ دکھاتے ہیں۔
کچھ تیماردار علاج بالغذا پر یقین رکھتے ہیں اور وہ اس سلسلے میں اپنے بے دریغ قیمتی مشورے دے کر آپ کو پریشان کرکے اپنی راہ لیتے ہیں۔
تیمار داروں کی سب سے تکلیف دہ قسم وہ ہے، جسے مریض یا اس کی تکلیف سے کوئی غرض نہیں وہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر شاید سماجی دباؤ یا وقتی ضرورت کے تحت مریض کے پاس آتے ہیں اور فوراً اپنی گفتگو شروع کردیتے ہیں، ان میں سے کچھ آتے ہی اپنے سیاسی و مذہبی نظریات کی تبلیغ شروع کردیتے ہیں۔ کچھ اپنے کاروبار پر تفصیلی لیکچر دیتے ہیں، کچھ اپنی دفتری کارکردگی کی تشہیر میں لگ جاتے ہیں۔ کچھ اپنے مخالفین کی کردار کشی کا خوبصورت فریضہ سر انجام دیتے ہیں اور کچھ ملکی اور عالمی سیاست پر اپنی گراں قدر رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ان تیمارداروں کو مریض سے کوئی غرض نہیں ہوتی یا شاید انہیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا وہ اپنے خاندانی جھگڑے اور محلہ کی لڑائیوں تک پر بات کرتے ہیں اور صرف یہ چاہتے ہیں کہ مریض اور اس کے متعلقین ان کی ہاں میں ہاں ملائیں۔
ہمارے اس دوست نے یہ بھی بتایا کہ ان کے ایک تیماردار ایسے بھی تھے جنھوں نے سلام دعا کے بعد اپنا لیپ ٹاپ کھول لیا اور اس پر جو کچھ لوڈ تھا وہ مریض کو جبراً دکھایا… جب ایک گھنٹہ میں یہ کام مکمل ہوگیا تو لیپ ٹاپ بند کیا اور آخری جملہ یہ کہا کہ مجھے معلوم ہوا تھا آپ کی طبیعت کچھ خراب ہے۔ اب آپ کیسے ہیں اور مریض کا جواب سنے بغیر روانہ ہوگئے۔
ہمارے اس دوست نے اپنا یہ تکلیف دہ تجربہ بھی بڑے دکھ کے ساتھ بیان کیا کہ جن دنوں ان کے بزرگ ہسپتال میں داخل تھے۔ ان کے عزیزوں کے غول کے غول عورتوں اور بچوں کے ساتھ ہسپتال پہنچ جاتے، یہ سارے تیماردار ایک تو ملاقات کے مقررہ وقت کا خیال نہ رکھتے تھے جب دل چاہتا ہسپتال پہنچ جاتے جس کی وجہ سے ہسپتال کے عملے اور خود مریضوں کو پریشانی ہوتی دوسرے وہ پابندی کے باوجود چھوٹے بلکہ شیرخوار بچوں کو ساتھ لے آتے۔ ہسپتال کا عمل روکتا تو نہ صرف اس سے بحث وتکرار کرتے بلکہ لڑائی جھگڑے پر آمادہ ہوجاتے۔ چونکہ ان بزرگ کا تعلق ایک دور دراز گاؤں سے تھا، اس لیے تیمارداروںکا زیادہ حصہ دیہاتی مردوں، عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہوتا۔ یہ لوگ نہ صرف ہسپتال میں صفائی کا خیال نہ رکھتے بلکہ بچوں کو کیلے بسکٹ کے پیکٹ نمکین اور چپس کے ریپر اور کھانے پینے کی دوسری اشیاء جابجا ہسپتال میں پھینکتے جاتے تھے۔ جبکہ ہسپتال میں لگے ہوئے ڈسٹ بن ان کا منہ دیکھتے رہتے تھے۔ یہ لوگ نہ صرف وارڈوں میں آزادانہ گھومتے بلکہ مریضوں کے لیے مخصوص واش رومز کا بھی جب چاہتے استعمال کرتے تھے۔ تیمارداروں کا یہ غول جب اپنے مریض کے پاس پہنچتا تو بچے وارڈوں میں دوڑیں لگانا شروع کردیتے جبکہ باقی لوگ نہایت اونچی آواز میں بیمار سے خبر گیری شروع کردیتے اور کچھ دیر بعد ہی بات گھریلو اور خاندانی جھگڑوں اور گاؤں کی گروپ بندی تک پہنچ جاتی۔ اس صورتحال سے نہ صرف ان کااپنا مریض بلکہ قریبی مریض بھی ڈسٹرب ہوتے اور ہسپتال کا عملہ اور ڈاکٹر زیادہ ذہنی اذیت کا شکار ہوتے۔ ایک آدھ گھنٹے کی ذہنی اذیت کے بعد تیمارداروں کا یہ غول واپس جاتا تو ایک اور آجاتا تھا اور بعض اوقات تو بیک وقت دو تین گروپ تیمارداری کے لیے آجاتے تھے ایسے میں جو صورتحال ہوتی تھی اس کا آپ اندازہ کرسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے تیمارداروں میں کسی روز کسی وجہ سے کمی آجاتی تو ساتھ والے بستروں پر موجود مریضوں کے تیماردارحملہ آور ہو جاتے۔ ایسے میں وارڈ میں داخل تمام مریض کل وقتی طور پر ایک دباؤ اور ذہنی اذیت میں مبتلا جب کہ عملہ شدید مشکلات سے دوچار رہتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی تیماردار یا اس کے بچے کو سمجھانے کی کوشش کرتے تو وہ سب اجتماعی طور پر ناراض ہوجاتے۔ جس کے وہ متحمل نہیںہوسکتے تھے، چنانچہ انھوں نے اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ ان کے بقول ان کے بزرگ نے جتنا وقت ہسپتال میں گزارا وہ اور ان کے مریض بلکہ وارڈ کے تمام مریض دوہری اذیت کا شکار رہتے جب کہ عملہ کا پیشتر وقت بھی مریضوں کی خدمت کے بجائے اس صورتحال سے نمٹنے میں صرف ہوا۔
کاش ہم شعوری طور پر تیمارداری اور اذیت کے اس فرق کو محسوس کرسکیں جو ہماری ذرا سی بداحتیاطی کے باعث مریض اور اس کے متعلقین کے لیے کسی حوصلے اور خوشی کے بجائے اذیت اور تکلیف کا باعث بن جاتا ہے اور اپنے رویوں میں تھوڑی سی مثبت تبدیلی کے ساتھ ہم کتنے ہی لوگوں کے لیے آسانیاں اور سکھ فراہم کرسکتے ہیں۔
——