یہ خاتون ایمرجنسی میں کئی مرتبہ سر درد اور سانس پھولنے کی شکایت کے ساتھ آچکی تھیں۔ ڈیوٹی ڈاکٹر نے اسے میرے کلینک میں بھیج دیا۔ مریضہ کی عمر ۲۵ سال تھی۔ شادی کو ڈیڑھ سال ہوا تھا۔ اس کے اور شوہر کے درمیان جب بھی تکرار ہوتی اسے یہ تکلیف ہوجاتی تھی۔ اسے انگزائٹی تشخیص کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی نیند نہ آنے کی شکایت بھی تھی۔ مریضہ سے تفصیلات معلوم کیں تو پتا چلا کہ اس نے مائیکروبایولوجی میں ماسٹرز کیا ہے۔ اس کی شادی والد صاحب کے دوست کے بیٹے سے ہوئی ہے۔ مریضہ کے شوہر سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ میری بیوی بھی دیگر عورتوں کی طرح ہے۔ وہ اپنا وقت ضائع کرتی ہے۔ عقل نام کی کوئی چیز اس میں نہیں ہے۔ اکثر اسے مختلف تکالیف ہوتی رہتی ہیں۔ مریضہ نے بتایا کہ شادی کی وجہ سے میرا فائنل ایئر کا ایک پروجیکٹ رہ گیا ہے۔ جب میں اسے پورا کرنے کی بات کرتی ہوں تو یہ جھگڑا کرتے ہیں۔ میری بھانجیاں میرے گھر آتی رہتی ہیں، وہ مجھ سے کہہ رہی تھیں کہ خالہ اپنا پروجیکٹ مکمل کرلیں۔ میرے شوہر نے سن لیا۔ اس کے بعد سے جب بھی میری بھانجیاں آتی ہیں، یہ خوب سناتے ہیں۔ میری ایک بھانجی میڈیکل کالج میں فائنل ایئر کی طالبہ ہے۔ دوسری نے حساب میں ماسٹر کیا ہے اور ٹیوشن پڑھا رہی ہے۔ میرے شوہر کا اپنا بزنس ہے۔ انھوں نے ایم اے کیا ہے۔ لیکن خواتین کے بارے میں یہ جب بات کرتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ کوئی … بات کررہا ہے۔
شوہر صاحب بولے: ’’ڈاکٹر صاحب کا تو یہ تجربہ ہوگا کہ خواتین کو وقت ضائع کرنے اور بے عقلی کی باتیں کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں۔ بس کھا کھا کر موٹا ہونا ان کا کام ہے۔
انھوںنے فلسفیانہ انداز میں بہت سے دلائل دیے۔ وہ اپنے آپ کو ارسطو و افلاطون سمجھ رہے تھے۔ اور حقیقت بھی یہ تھی کہ وہ یونانی طرزِ فکر کی نمائندگی کررہے تھے۔ جہاں عورتوں کو … سمجھتے تھے اور …… کا سلوک ہی کیا جاتا تھا۔ کافی دیر بات کرنے کے بعد انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا تجربہ بھی یقینا ایسا ہی ہوگا، کیوں کہ آپ ڈاکٹر ہیں اور بہت سی خواتین مریضوں کو دیکھتے ہیں۔
ان کی گفتگو کا اصل مطلب جو میں سمجھ پایا یہ تھا کہ ’’عورتوں کو وقت کا استعمال کرنا نہیں آتا اور وہ بے عقل ہوتی ہیں۔‘‘
میں نے Time Management کے کئی سمینارز میں شرکت کی۔ ایک مشہور بڑے پرائیویٹ ادارے جس کے افراد بین الاقوامی معیار کی ٹریننگ دیتے ہیں، سے کورس کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مغرب کے اسکالرز کی یہ نقل شدہ باتیں سننے میں بڑی اچھی لگتی ہیں۔ ان تمام اسکالرزکے یہ دعوے تھے کہ اگر یہ کورس کریں تو آپ لوگوں کو استعمال کرنا سیکھ لیں گے۔
میں نے انھیں چند واقعات بتائے۔ ہمارے ایک دوست جو سینئر سرجن ہیں ہمیشہ ماڈرن ازم کی بات کرتے ہیں۔ ان کی بیوی ایک بینک میں منیجر تھیں۔ جب یہ بات پوچھی جاتی کہ آپ گھر جاکر گھر کا کام کرتے ہیں یا صرف آرام کرتے ہیں؟ تو وہ کہتے: آرام۔ جب ان سے یہ ڈسکشن ہوا کہ مردوں کے مسلز تو مضبوط ہوتے ہیں، گھر جاکر آپ بھی ہاتھ بٹائیں، تو وہ فوراً کہتے: میری وائف جتنی بھی پڑھی لکھی ہو لیکن ہے تو عورت۔ جب وہ عقل میں کم ہے، سمجھ میں کم ہے تو گھر کا کام وہ کرے۔
وہ بہت ماڈرن تھے، لیکن نام نہاد اسکالرس کے ایسے اقوال سناتے جو خواتین کے لیے تضحیک آمیز ہوتے۔ ان کی اہلیہ گھر کے سارے کام بھی کرتیں، بچوں کوٹیوشن بھی پڑھاتیں، بینک کی منیجر بھی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب گھر پر جاکر کچھ نہ کرتے اور اسپتال کا تو ہم جانتے تھے۔ لیکن پھر بھی یہ عقل اور ٹائم مینجمنٹ کے چمپئن تھے۔
پروفیسر شیر سنگھ کی والدہ میڈیکل کالج میں پڑھاتی تھیں۔ گھر کا کام کرتیں، بچوں کو پڑھاتیں اور سارے بیٹے بیٹیاں ڈاکٹر بن گئے۔ پڑھی لکھی خواتین کی ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔ اب غیر پڑھی لکھی خواتین کی عقل اور ٹائم مینجمنٹ کی مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
چند سال پہلے کا واقعہ ہے، میں ایک میڈیکل کیمپ میں شریک ہوا۔ یہ میڈیکل کیمپ شہر سے چند کلو میٹر دور ایک گاؤں میں منعقد کیا گیا۔ گاؤں سے باہر کیمپ میں ایک بوڑھی خاتون اپنی بہو اور بچوں کے ساتھ آئی تھیں۔ وہ گھر سے اپنی درانتی اور چادر لائی تھیں۔ کیمپ میں رش زیادہ تھا، بوڑھی خاتون نے لائن میں بہو کو کھڑا کیا اور کمپاؤنڈ میں گھاس کاٹنے لگیں۔ جب باری آئی تو ڈاکٹر کو دکھا دیا۔ اسی طرح دوا کی لائن میں بھی بہو کو کھڑا کردیا۔ اس دوران وہ مسلسل گھاس کاٹتی رہیں۔ جب وہ واپس جارہی تھیں تو میں نے ان سے بات چیت کی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اپنی بکریوں وغیرہ کے لیے روز گھاس کاٹ کر لے جاتی ہیں، وہ گھر سے پلاننگ کرکے آئی تھیں کہ صبح سے ۱۲ بجے تک کے وقت میں گھاس جمع کرنی ہے۔ انھوں نے دوسرے کو لائن میں لگوایا اور آج کا اپنے دن کا ٹارگٹ مکمل کرلیا۔ اس کے علاوہ اپنی اور بچوں کی دوا لے لی۔ ماہر ڈاکٹروں سے معائنہ کرالیا۔ یہ دیہاتی خاتون وقت کا بہترین استعمال کررہی تھیں۔ اپنے حالات میں یہ ٹائم مینجمنٹ کی عملی مثال ہے۔
گھریلو ذمہ داریوں اور دیگر کاموں کے لیے وقت نکالنا اور اس کی پلاننگ … یہ وقت کے استعمال کی مثال ہے۔
ایک فالج کی مریضہ کو گھر پر جاکر دیکھنے کا واقعہ یا دآرہا ہے۔ اس خاتون کا بلڈ پریشر زیادہ ہونے کی وجہ سے فالج کا حملہ ہوا تھا۔ مریضہ دو دن اسپتال میں داخل رہی، پھر اسے گھر بھیج دیا گیا۔ تفصیل معلوم کی تو پتاچلا کہ اس کے سات بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ بیٹی کی شادی ہوچکی ہے۔ اماں خود تو پڑھی لکھی نہیں تھیں، ان کے شوہر بھی نہ تو پڑھے لکھے تھے اور نہ ہی معاشی طور پر مضبوط۔ اماں کپڑے سلائی کرتی تھیں۔ اس رقم سے بچوں کی فیس ادا کرتیں۔ گھر کا کام کاج کرتیں اور سب بچوں کو وقت سے اسکول بھیجتیں۔ ساتوں بیٹوں نے تعلیم کے میدان میں اچھا نام کمایا۔ دو بیٹیوں کی پوزیشن بھی آئی۔ لیکن جس ماںنے بہترین پلاننگ اور محنت کے ساتھ انھیں پڑھا لکھاکر قابل بنایا تھا، اس کی تیمارداری کے لیے ان قابل بیٹوں کے پاس وقت نہ تھا۔ میں نے تفصیل معلوم کی تو پتا چلا کہ وقت نکالا جاسکتا ہے لیکن یہ پڑھے لکھے قابل نوجوان لڑکے اس ان پڑھ بوڑھی ماں کے مقابلے میں کچھ بھی وقت کی پلاننگ نہیں کرپا رہے تھے۔
یہ واقعات سن کر مریضہ کے رشتے دار بولے: یہ تو ٹھیک ہے لیکن ہمارے اسکالر جن سے میں متاثر ہوں، کہتے ہیں کہ عورت کو تو دنیا کے کسی بھی طریقہ زندگی نے اس قابل سمجھاہے کہ وہ … میں ان کے الفاظ لکھ نہیں سکتا، لیکن یہ جن الفاظ کو اسکالر کے دلائل کہہ رہے تھے وہ یونانی فلسفیوں کے الفاظ تھے۔ اہلِ یونان عورتوں کو کوئی بھی انسانی حق نہیں دیتے تھے۔ انھیں کم تر، کم عقل اور کم فہم گردانتے تھے۔ یونانی نظریات اور ہندو رسم و رواج سے متاثرہ اسکالرز خواتین کی تضحیک کرنے اور ان کو کم تر ثابت کرنے کا کوئی بھی موقع نہیں جانے دیتے۔
میں نے ان سے کہا کہ نبی ﷺ کی آمد نے خواتین کو انسانیت کی معراج، عزت و احترام و اکرام سے نوازا۔ قرآن نے حضرت مریم ؑ کا تذکرہ درجنوں مرتبہ کیا۔ اسلام کے آنے کے بعد خواتین میں عملی طور پر تبدیلیاں آئیں، کیوں کہ اسلام نے واضح طور پر عورتوں اور مردوں کو یکساں واجب الاحترام قرار دیا اور اعلان کردیا کہ
’’نیک عمل جو کوئی بھی کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ صاحبِ ایمان ہو تو ہم اسے ضرور ایک پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ان کے اچھے کاموں کے عوض میں ضرور اجر دیں گے۔‘‘ (النحل:۹۸)
اس طرح معاشرے میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی ذمہ دار اور جواب دہ بنایا گیا۔ پیارے نبی کریم ﷺ کے زمانے میں عورتوں میں دین کی تعلیمات سے واقفیت کا ایسا ذوق و شوق پیدا ہوگیا کہ وہی عورت جو پہلے علم و تہذیب سے بے بہرہ سمجھی جاتی تھی اور علم کے دروازے اس پر بند تھے، ان تعلیمات کے نتیجے میں حضور اکرم ﷺ کے زمانے سے آج تک ہر دور میں منبعِ علم و ہدایت نظر آتی ہے۔ ادب، تصنیف، روایتِ حدیث، شاعری، تاریخ، علم اور قرآن پر عبور رکھنے والی خواتین ہیں جن سے صحابہ کرامؓ اور بعد کے بزرگوں نے علمی استفادہ کیا اور جنھوں نے مشہور محدثین اور مفسرین کی تربیت کی۔
حضرت عروہ بن زبیرؓ نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بارے میں کہا کہ ’’میں نے کوئی ایسی عورت یا مرد نہیں دیکھا، جو قرآن، فرائض، ادب، شاعری، تاریخ عرب اور علم الانساب میں عائشہؓ سے بڑھ کر ہو۔ (تذکرۃ الحفاظ، جلد اول، ص ۲۷)
حضرت امِ سلمہؓ کے متعلق حافظ ابنِ حجرؓ کا بیان ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے انھیں غیر معمولی ذہانت اور صحیح قوتِ فیصلہ سے نوازا تھا۔‘‘ (الاصابہ فی تمیز الصحابہ، جلد دوم، ص ۴۵۹)
حضرت انسؓ کی والدہ ام سلیمؓ کے بارے میں امام نوویؒ نے لکھا ہے کہ ’’وہ نبی کریم ﷺ کے عالم و فاضل صحابہ و صحابیات میں سے تھیں۔‘‘ (تہذیب الاسماء والصفات، جلد دوم، ص ۳۶۳)
حضرت امِ عطیہؓ نے حفصہؓ بنت سیرین کے بارے میں کہا ہے کہ ان کا شمار مشہور ججوں اور قانون دانوں میں ہوتا تھا۔ (تہذیب الاسمائء و الصفات جلد دوم، ص ۴۰۹)
امام مالکؒ کی صاحبزادی کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے علم و فضل پر امام مالکؒ کو اتنا اعتماد تھا کہ اگر دورانِ درس کوئی شاگرد غلطی کرتا تو ان کی بیٹی گھر کے اندر سے دروازہ بجادیتیں اور امام صاحب شاگرد سے کہتے کہ سبق دہراؤ۔
علامہ شوکانی لکھتے ہیں: ’’علماء میں کسی سے یہ منقول نہیں ہے کہ انھوں نے کسی خاتون کی روایت کو محض اس کے خاتون ہونے کی وجہ سے رد کردیا ہو۔‘‘ (نیل الاوطار، ص ۱۲۲)
علامہ ابنِ حجرؒ نے الاصابہ میں قرونِ اولیٰ کی جن محدث خواتین کا تذکرہ کیا ہے، ان کی تعداد ۱۵۳۳ ہے۔ جو صحابیات مسند درس و تدریس سنبھالے ہوئے تھیں ان سے استفادہ کرنے والوں میں ہر شعبہ زندگی کے افراد شامل ہوتے تھے۔ صرف حضرت عائشہؓ سے استفادہ کرنے والوں میں حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ، حضرت عمرو بن العاصؓ، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ جیسے عظیم افراد کے ساتھ ساتھ عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت ابوہریرہؓ جیسے محدث اور سعید بن صہیبؓ جیسے بے مثال فقیہ شامل تھے۔
مشہور مؤرخ خطیب بغدادی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’تاریخِ بغداد‘‘ میں صرف بغداد سے تعلق رکھنے والی ۱۳۲ خواتین کا تذکرہ کیا ہے، جو علم و فضل کے اعتبار سے نامور تھیں۔
٭ مدینہ کے معاشرے میں صحابیات نے شعبۂ طب میں بھی مہارت حاصل کررکھی تھی۔ حضرت اسماء بنت عمیسؓ نے ہجرت حبشہ کی۔ وہاں جڑی بوٹیوں کے ذریعے علاج کا علم حاصل کیا۔ آپؓ لوگوں کا علاج کرتی تھیں۔
٭ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ نے اپنے گھر میں ’’ہیلتھ کارنر‘‘ بنایا ہوا تھا جہاں خواتین اور بچے علاج کے لیے آتے۔ مدینہ میں اس وقت پانی عام دستیاب نہ تھا۔ آپؓ گھر میں مٹکوں میں پانی جمع رکھتیں۔ جب بخا رکے مریض آتے تو ان پر پانی ڈال کر بخا رکم کرتیں۔ یہی آپؓ کا بتایا ہوا طریقہ ہے۔
٭ حضرت ام کلثومؓ، حضرت علیؓ کی بیٹی اور حضرت عمرؓ کی بیوی تھیں۔ آپؓ نے زچگی کرانے کی تربیت لی ہوئی تھی۔
٭خواتین نرسنگ کیئر میں مہارت رکھ سکتی ہیں اورمشکل حالات میں بھی کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
حضرت عائشہؓ اور حضرت اسماءؓ دیگر خواتین کے ہمراہ غزوات میں ایمرجنسی نرسنگ کیئر فراہم کرتی تھیں۔ حضرت ربیع بنت معوضؓـ فرماتی ہیں: ’’ہم نبی ﷺ کے ساتھ غزوے میں شریک ہوئے۔ لوگوں کو پانی پلاتے، خدمت کرتے اور مقتولین و زخمیوں کو مدینہ منتقل کرتے تھے۔(بخاری)
حضرت امِ عطیہ ؓ انصاری فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سات غزوات میں شرکت کی۔ لوگوں کے پیچھے رہ کر میں ان کے لیے کھانا بناتی ، زخمیوں کا علاج کرتی اور بیماروں کی تیمارداری کرتی۔ (مسلم)
مدینہ کے معاشرے میں خواتین ہنر میں مہارت رکھتی تھیں۔ حضرت سودہؓ جانوروں کی کھال کو قابلِ استعمال بنانے کے فن پر عبور رکھتی تھیں۔ (بخاری)
حضرت زینب بنتِ جحشؓ دستکار خاتون تھیں۔ چمڑے کو قابلِ استعمال بناتیں۔ اس کی سلائی، مرمت کرتیں اور اللہ کے راستے میں صدقہ کردیتیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی ایک ماہر کاریگر تھیں اور اشیاء بناکر فروخت کرتی تھیں۔ (طبقات ابن سعد جلد ۶، ص۲۱۲)
یہ سب سن کر مریضہ کا شوہر حیران رہ گیا، وہ کہنے لگا: اس کا مطلب ہے کہ ہمارے اسکالرس نے تو شاید اسلام کی تاریخ ہی نہیں پڑھی ، یا اگر پڑھی ہے تو مدینہ کے معاشرے کے بارے میں ان کا مطالعہ بہت ہی کم ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عورت انسان کی تخلیق کرتی ہے۔ اس کے اندر علم، بردباری، صبر زیادہ ہوتا ہے۔ تعلقات کو نبھانے کا طریقہ آجاتا ہے، وہ چیزوں کو اچھی طرح مینج کرتی ہے۔
ماں سارے دکھ اور تکالیف جھیل کر اپنے بچے کی تربیت کرتی ہے۔ آپ اس کی مثال یہ دیکھیں کہ جس بچے کا باپ نہ ہو، ماں محنت کرکے اس کی بہت اچھی تربیت کرلیتی ہے۔ اکثر وہ معاشی طور پر بھی محنت کررہی ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اگر ماں نہ ہو تو باپ بچوں کی اکیلے تربیت نہیں کرپاتا۔
اس مثال سے آپ عورت کی وقت کو اچھی طرح مینج کرنے کی صلاحیت کا خود انداز ہ کرسکتے ہیں۔
خواتین کو اسلام نے جو عزت و اکرام دیا ہے، اس کو سامنے رکھ کر ان کی ذہانت اور وقت کی پلاننگ کی صلاحیتوں کو اگر بھر پور استعمال کیا جائے اور مرد ان کو Appreciateکرکے تعاون کریں تو خاندان اور معاشرے میں وہی ترقی ہوگی جو مدینہ کے معاشرے میں ہوئی تھی۔ اور ہر سطح پر ذہنی و جسمانی بیماریاں کم ہوجائیں گی۔ امن، چین اور سکون گھروں اور معاشرے میں ہوگا۔
——