[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

صداقتوں کے پاسبان (قسط: ۱۶)

سلمیٰ نسرین

اپنے کیبن میں آکر وہ کافی دیر اپنے غصے پر قابو پانے کی کوشش کرتا رہا۔ اسے لڑکو ں کی اس طرح کی حرکتیں بالکل پسند نہیں تھیں۔ وہ تو سریش کو ٹوکنے ہی والا تھا مگر تبھی وہ لڑکی وہاں پہنچ گئی اور وہ بات کہی بھی تو براہِ راست اسی سے۔ وہ یقینا غلط فہمی کا شکار ہوگئی تھی۔ مگرحسن کی تو امیج خراب ہوگئی تھی۔ اسے اس بات پر صلوٰتیں سننی پڑیں جو اس نے کی ہی نہیں۔وہ ٹھنڈا پانی پی کر خود کو نارمل کرنے لگا تبھی اس کا سیل بج اٹھا۔ عباس بھائی تھے۔
’’تم ضحی کو گھر چھوڑ آئے؟‘‘
’’جی، اسے گھر پہنچاکر ہی ہاسپٹل آیا ہوں۔‘‘
’’کیسی تھی اس کی طبیعت، ٹھیک تھی وہ؟‘‘ وہ فکر مند ہورہے تھے۔
’’جی ہاں ٹھیک تھی میں نے اسے ٹیبلٹ کھانے کو بھی کہہ دیا تھا۔ اب تو وہ سوگئی ہوگی۔‘‘
’’اور عمر! وہ کیا کررہا تھا؟‘‘
’’میں وہاں سے نکلا تب تک تو گھر ہی پر تھا مگر وہ بھی اب اسکول جاچکا ہوگا۔ آپ فکر نہ کریں۔‘‘
’’اچھا تو پھر ٹھیک ہے، رکھتا ہوں۔‘‘
اس نے بھی سلام کرکے فون کاٹ دیا۔ اور راؤنڈ لگانے جنرل وارڈ کی طرف چل پڑا۔ سب سے پہلے وہ رشید چاچا سے ملنا چاہتا تھا۔ جب وہ ان کے بیڈ کے قریب گیا تو اسے دیکھ کر وہ حسبِ سابق پھول کی طرح کھل گئے۔ (وہ ایک بزرگ تھے جو پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ سے وہاں ایڈمٹ تھے)
’’ارے حسن بیٹا تم‘‘ وہ اٹھنے کی کوشش کرنے لگے۔ حسن نے انھیں بیٹھنے میں مدد کی اور تکیہ کا سہارا دیا۔ ’’تم تو گویا عید کا چاند ہوگئے ۔ میں تمہارے بارے میں پوچھتا رہتا ہوں۔ تمہاری چھٹی تو ختم ہوگئی ہوگی نا۔‘‘
’’جی ہوگئی، آپ کی طبیعت کیسی ہے؟‘‘
’’تمہارے اتنے دن نہ آنے کے باعث مجھے تو لگتا تھا کہ میری طبیعت اور بگڑ جائے گی مگر تبھی وہ آگئی۔‘‘
’’کون آگئی؟‘‘ حسن نے وارڈ بوائے سے ان کی فائل طلب کی تھی اور اس کی نظر رشید چاچا کی رپورٹ پر تھی۔ ان کی صحت میں کافی سدھار ہوا تھا۔
’’ارے واہ! آپ کی رپورٹ تو مثبت ہیں۔‘‘ حسن نے خوشی سے کہا۔
’’اچھا، وہ بھی خوش ہوگئے۔‘‘ یہ سب اسی کی وجہ سے ہوا ہے۔ وہ ہمارے لیے رحمت کا پیغام بن کر آئی ہے۔ سچ حسن! تمہاری غیر حاضری میں اس نے میرا اور دیگر مریضوں کا بہت خیال رکھا ہے۔‘‘
’’آپ کس کی بات کررہے ہیں؟‘‘ حسن نے ان کی بات کاٹ کر پوچھا۔
’’ڈاکٹر مسیرہ کی۔‘‘
’’ڈاکٹر مسیرہ؟‘‘ حسن نے نام دہرایا ’’یہ کون ہے؟‘‘
’’کیا تم اسے نہیں جانتے؟‘‘ رشید چاچا نے حیرت سے اسے دیکھا ’’وہ یہاں کی نئی ڈاکٹر ہے۔ لیکن مجھے ڈاکٹر کم بیٹی زیادہ لگتی ہے اس نے بالکل بیٹی کی طرح میری خدمت کی ہے۔‘‘ وہ پھر شروع ہوگئے۔
’’اچھا!‘‘ وہ ان کے بازو پر بیلٹ لپیٹ کر ان کا بلڈپریشر چیک کرنے لگا۔
’’ہاں، لیکن کیا تم اس سے ملے نہیں؟‘‘ انھوں نے حیرت سے اس سے پوچھا۔
’’جی نہیں، میں اس سے نہیں ملا…‘‘ وہ جواباً کچھ کہنے ہی والے تھے کہ حسن نے تھرمامیٹر نکال کر کہا ’’آپ ذرا اپنا منھ کھولئے۔‘‘
انھیں ہلکی سی حرارت تھی۔ وہ دوائیں لکھنے لگا۔
’’تمہارا بھائی اب کیسا ہے؟‘‘ عمر کی حالت سے وہ بھی واقف تھے۔
’’وہ اب ٹھیک ہے الحمدللہ۔ علی سے اسے بہت محبت تھی وہ دونوں ہمیشہ ساتھ رہتے تھے، اس لیے اب اسے اکیلا پن زیادہ محسوس ہوتا ہے۔‘‘
’’ہاں وہ تو ہے۔‘‘ رشید چچا نے اس کی تائید کی۔
’’اچھا چاچا آپ کے گھر سے کوئی آئے تو اسے یہ دے دیجیے گا۔‘‘ اس نے انہیں میڈیسن کی پرچی تھمادی اور دیگر مریضوں کو دیکھنے آگے چلا گیا۔
٭٭
’’السلام علیکم امّی۔‘‘
’’وعلیکم السلام… آج تو تم جلدی آگئے۔‘‘ یحییٰ کی امّی نے اسے حیرت سے دیکھا۔
’’جی ہاں، آج زیادہ لیکچر ز نہیں تھے اسی لیے۔‘‘ وہ ہاتھ منھ دھوکر کچن میں پہنچ گیا جہاں اس کی والدہ شاہدہ بانو اس کے لیے کھانا نکال رہی تھیں۔
’’آپ بھی کھائیے نا۔‘‘ اس نے کھانا شروع کردیا آج وہ بغیر ناشتہ کے ہی کالج چلا گیا تھا۔
’’ابھی تو اشمیرہ وغیرہ کے ساتھ ناشتہ کیا تھا۔ تم کھالو تم سے میں نے کہا تھا کہ ناشتہ کرکے جانا مگر تم مانے نہیں۔‘‘
’’آج حسن سے ملاقات ہوئی تھی۔‘‘
’’اچھا، کیساہے وہ؟ اور عمر و ضحی کا حال بتایا اس نے؟‘‘
’’ہاں، تھوڑا پریشان لگ رہا تھا…‘‘ وہ انہیں حسن سے ہوئی ملاقات کے بارے میں بتانے لگا۔ شاہدہ بانو بہت دلچسپی سے اس کی ساری باتیں سن رہی تھیں۔ حسن اور اس کی فیملی انہیں بہت پسند تھی اور ہاجرہ بیگم سے ان کے اچھے مراسم تھے۔ کھانا کھاکر یحییٰ اوپر اپنے کمرے میں چلاآیا۔ اس کا کمرہ نیچے ہال سے متصل تھا مگر جب سے اشمیرہ، مسیرہ لوگ آئے تھے تو اسے اوپر شفٹ ہونا پڑا۔ وہ دونوں اس کی چچا زاد تھیں۔ جب دادا جی کی علالت کی خبر ملی وہ اسی وقت گاؤں کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔ لیکن وہاں ماحول بہت بدلا بدلا تھا۔ اس کے تایا اور دونوں چچاؤں میں جائداد کو لے کر تنازعہ ہوگیا تھا۔ یحییٰ کو اس گھر میں ہمیشہ سے ہی کوفت ہوتی تھی، دادی جان تو تھیں نہیں، گھر کا کاروبار تائی اور چاچیوں کے ہاتھ میں تھا۔ جلن، جسد، کڑھن، طعنے تشنے اس گھر کی فضا میں جیسے رچ بس گئے تھے۔ چاروں بھائیوں میں صرف یحییٰ کے والد نے ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی ان کے بعد میسرہ کے والد تھے جنھوں نے ہائی اسکول کی شکل دیکھی تھی۔ یحییٰ کے والد کو شہر میں نوکری مل گئی تو دونوں میاں بیوی نے شکر کا سانس لیا کیونکہ اس گھر میں ان کو بھی دم گھٹتا محسوس ہوتا تھا۔ گو یحییٰ گاؤں میں پیدا ہوا تھا مگر اسے گاؤں میں رہنے کا موقع نہیں ملا ۔ اس کا بچپن بھی شہرمیں ہی گزرا تھا۔ یحییٰ کی بڑی چاچی یعنی مسیرہ کی امّی ایک سمجھدار خاتون تھیں اور انھیں اپنے بچوں کی تربیت کی ہمیشہ ہی فکر رہتی تھی۔ ان کے تین بچے مسیرہ اشمیرہ اور شعیب تھے۔ مسیرہ تو ڈاکٹر بن چکی تھی۔ اشمیرہ گیارہویں جماعت کی طالبہ تھی، جبکہ شعیب نویں جماعت میں زیرِ تعلیم تھا۔ شعیب تو اول جماعت سے اپنے تایا یعنی (یحییٰ کے والد) کے یہاں ہی رہتا تھا۔ دادا جی جب سے زیادہ بیمار رہنے لگے تھے تایا اور چچاؤں کہ اپنے اپنے حصے کی فکر لگ گئی تھی۔ تینوں بھائی گویا ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے تھے۔ ایسے میں مسیرہ کی امّی نے اپنے بچوں کو منظر سے غائب کرنا چاہا اور اپنی پسندیدہ جیٹھانی شاہدہ بانو (جوان کی ہم مزاج تھیں) کے یہاں بھیج دیا۔ وہ اپنے بچوں کو ایسے گندے اور متعفن ماحول میں بالکل نہیں رہنے دینا چاہتی تھیں۔
یحییٰ نے جب سنا تو بدک گیا۔ ’’لیکن وہ لوگ یہا ںکیسے رہ سکتی ہیں؟‘‘
’’کیوں کیا ہوا؟‘‘ شاہدہ بانو حیران ہوئیں ’’آخر شعیب بھی تو یہیں رہتا ہے۔‘‘
’’شعیب کی بات اور ہے … لیکن مسیرہ اشمیرہ اور میں ایک ہی گھر میں کیسے ……؟‘‘
’’بہنیں ہیں وہ تمہاری۔‘‘ انھوں نے اسے گھورا۔
’’جی بالکل ہیں… مگر نامحرم ہیں۔‘‘
’’تو بنالو محرم… میں تو کب سے مسیرہ کو بہو بنانے کا خواب دیکھ رہی ہوں۔‘‘
یحییٰ بری طرح جھینپ گیا۔
’’آخر حرج کیا ہے؟‘‘
’’امّی پلیز میں نے آپ سے کہا تھا نا میں مسیرہ سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔ آپ ایسا بالکل نہ سوچیں پلیز! میں نے اس کے لیے ایک بہت اچھا لڑکا دیکھ رکھا ہے۔ خیر وہ ساری بعد کی باتیں ہیں آپ پہلے اس مسئلے کو سلجھائیں۔ کیا وہ ہمارے گھر کے علاوہ کہیں اور نہیں رہ سکتیں؟‘‘
’’بالکل رہ سکتی ہیں۔‘‘ شاہدہ بانو نے زور زور سے گردن اثبات میں ہلائی ’’ہاسٹل میں۔‘‘
یحییٰ جو ان کے مثبت جواب پر خوش ہی ہورہا تھا کہ ہاسٹل کا نام سن کر ٹھنڈا پڑگیا۔
’’ہاسٹل میں ہی رکھنا ہے تو اس گھر میں کیا برائی ہے؟‘‘
’’اسی لیے تو کہہ رہی ہوں۔‘‘
’’لیکن امّی یہ قطعی غیر مناسب او رناممکن سی بات ہے۔‘‘
’’تو اس کا سیدھا سیدھا حل یہ ہے کہ تم اپنا بندوبست کہیں اور کرلو۔‘‘
’’تو ٹھیک ہے میں ہی چلا جاتا ہوں۔‘‘ وہ راضی ہوگیا۔ ’’میری غیر موجودگی میں وہ ایزی فیل کرسکیں گی۔ تو مجھے کتنے دنوں کے لیے جانا ہوگا؟‘‘
’’نامعلوم مدت کے لیے۔‘‘ وہ اطمینان سے بولیں تو وہ انھیں دیکھتا ہی رہ گیا۔
پھر اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ رہا کہ امّی کے دوسرے آپشن کو مان لے وہ چپ چاپ اپنا سامان لے کر اوپر کے کمرے میں شفٹ ہوگیا۔ مسیرہ، اشمیرہ کو آئے آج پندرہ دن ہوگئے تھے۔ شاہدہ بانو دونوں بھتیجیوں کو دیکھ کر پھولی نہ سماتیں، یہی حال یحییٰ کے والد کا بھی تھا۔
دوپہر میں ظہر کی نماز کے لیے جب وہ اترا تو اشمیرہ غالباً وضو کرکے ہال میں جارہی تھی۔ ’’اشمیرہ! … مسیرہ آئی نہیں اب تک؟‘‘
’’انھیں آئے تو ایک گھنٹہ ہوگیا ہے۔‘‘
’’اچھا کہاں ہے وہ؟‘‘
’’وہ ڈاکٹر نائیک کی بھتیجی اپنا پسندیدہ کام کررہی ہوگی۔‘‘
’’اسے یہیں بلالاؤ۔‘‘ وہ آستین درست کرتا ہال میں شاہدہ بانو کے قریب جاکر بیٹھ گیا۔ شعیب صوفے پر آڑا ترچھا پڑا کسی کتاب کا مطالعہ کررہا تھا۔
’’شعیب تمھیں نماز کے لیے نہیں چلنا؟‘‘
’’جی!‘‘ یحییٰ کے کہنے پر اس نے چہرہ گھما کر گھڑی کو دیکھا۔ ’’چلنا ہے نا ابھی تو ۲۰ منٹ ہیں۔ ‘‘
اشمیرہ جب مسیرہ کو بلانے اس کے کمرے میں گئی تو وہ واقعی کمپیوٹر پر بیٹھی ذاکر نائیک کا کوئی لیکچر سن رہی تھی۔
’’افوہ! بچو؟ کبھی تو ڈاکٹر صاحب کو آرام کرنے دیا کریں۔‘‘
مسیرہ مسکرادی’’صبح سے وہی تو کررہی تھی۔‘‘اس نے لیکچر pauseکردیا۔ پھر مڑ کر اشمیرہ سے پوچھنے لگی۔ ’’تمہیں مجھ سے کچھ کہنا ہے کیا؟‘‘
’’جی ہاں۔۔۔ لالا آپ کو ہال میں بلارہے ہیں۔‘‘
’’اچھا، کوئی خاص بات ہے کیا۔‘‘ اس نے فوراً کمپیوٹر ٹرن آف کردیا۔ اشمیرہ نے جواباً کندھے اچکا دیے۔
’’میں بھی وہی سوچ رہی ہوں بچو۔ آج ہاسپٹل میں آپ کے ہاتھوں کوئی فوت تو نہیں ہوا ناں، کہیں complainنہ آئی ہو آپ کی۔‘‘ اشمیرہ نے اندیشہ ظاہر کیا۔
’’کیا تمھیں اپنی بچو سے ایسی امید ہے؟‘‘ دونوں کمرے سے ساتھ ہی نکلیں۔
’’بالکل نہیں… وہ دراصل شعیب کے ساتھ رہ رہ کر اسی کی ٹون میں بولنے کی عادت ہورہی ہے شاید۔‘‘
’’صرف پندرہ دنوں میں ہی تمہاری عادتیں بدلنے لگیں۔ السلام علیکم۔‘‘ وہ ہال میں داخل ہوگئی تھیں۔ یحییٰ سلام کا جواب دیتا ہوا سیدھا ہو بیٹھا۔
’’آپ نے بلایا تھا لالا؟‘‘
’’جی ہاں!‘‘ شعیب بول پڑا۔ ’’وہ جاننا چاہ رہے ہیں کہ آج آپ نے کتنے شہید کیے۔‘‘ جواباً مسیرہ نے یحییٰ کی موجودگی کے باعث اسے تیز نظروں سے گھورنے پر اکتفا کیا۔
’’کیا تمھیں میری بچی ایسی دکھائی دیتی ہے؟ ارے بہت شفا ہے اس کے ہاتھوں میں۔‘‘شاہدہ بانو کے فخریہ کہنے پر شعیب اٹھ کر ان کے قریب چلا آیا۔
’’آپ کچھ بھی کہیں تائی جی مگر ان دونوں کے آنے کے بعد آپ مجھے اہمیت نہیں دے رہی ہیں۔‘‘ وہ ان کے گھٹنوں پر سر رکھ کر شکوہ کرنے لگا۔
’’ارے!‘‘ ایسا نہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہنے لگیں۔ ’’تم تومیرے لاڈلے بیٹے ہو۔ مسیرہ اشمیرہ کا بھی تو کچھ حق بنتا ہے ناں مجھ پر۔‘’
’’لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ یہ دونوں میرا مارکیٹ ڈاؤن کریں… آگئیں کہیں سے لاڈ اٹھوانے۔‘‘ وہ بڑبڑاتا ہوا دوبارہ صوفے پر دراز ہوکر مطالعہ کرنے لگا۔
’’مجھے تو کہیں سے جلنے کی بو آرہی ہے۔‘‘ اشمیرہ نے ناک ہلاک کر بو سونگھنے کی کوشش کی ۔
’’جلیں میرے دشمن‘‘ شعیب نے غصے سے کروٹ بدل لی۔
’’حسن سے تمہاری ملاقات ہوئی۔‘‘ یحییٰ کے پوچھنے پر مسیرہ اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
’’نہیں وہ تو آج بھی نہیں آئے تھے۔‘‘
’’آیا تھا… آج صبح جب میری اس سے ملاقات ہوئی تو وہ کہہ رہا تھا کہ وہ ہاسپٹل جارہا ہے تقریباً ساڑھے گیارہ بجے۔‘‘
’’میں نے تو انھیں نہیں دیکھا… اور ہوسکتا ہے کہ دیکھا ہو مگر میں انہیں پہچانتی تو نہیں میںکیسے سمجھتی کہ یہ ڈاکٹر حسن ہیں۔‘‘
یحییٰ نے اثبات میں سر ہلایا پھر کہا: ’’وہ بلو شرٹ اور کریم کلر کی پینٹ میں ملبوس تھا۔‘‘ مسیرہ کے ذہن میں ایک دم جھماکا ہوا۔ اور کچھ دیر پہلے ہوئے حادثے کا منظر اس کی آنکھوں میں گھوم گیا۔
’’وہ … وہ ڈاکٹر حسن تھے!!‘‘ وہ بے یقینی کی کیفیت میں گھرگئی۔
’’کون؟…کیا تم نے دیکھا اسے؟‘‘
’’جی ہاں…! مگر آئی ایم سوری ٹو سے لالا مجھ پر ان کا پہلا امپریشن بالکل اچھا نہیںپڑا۔‘‘
’’مطلب …؟کیوں‘‘ یحییٰ نے حد درجے حیرانی سے اسے دیکھا۔
’’ڈاکٹر ساؤڑے شاید انہیں میرے متعلق بتارہے تھے کہ میں بحیثیت ڈاکٹر اپائنٹ ہوچکی ہوں تو ڈاکٹر حسن نے کہا کہ یہ تو مریضہ معلوم ہوتی ہے۔‘‘
’’مریض۔‘‘ شعیب اور اشمیرہ کے لبوں سے ہنسی کا فوارہ چھوٹ پڑا۔
’’ہاہاہا…‘‘ دونو ں پیٹ پکڑ پکڑ کر ہنس رہے تھے۔ مسیرہ نے کھا جانے والی نظروں سے ان دونوں کو گھورا۔
’’آئی ایم سوری بجو!‘‘ شمیرہ منہ پر ہاتھ رکھے ہنسی کنٹرول کرنے کی کوشش کررہی تھی مگر اس کی ہنسی کسی طور رک نہیں رہی تھی۔ ان دونوں کو بے تحاشا ہنستے دیکھ کر یحییٰ کے لبوں پر بھی مسکراہٹ رینگ گئی۔
’’آپ بھی ہنس رہے ہیں…!‘‘ وہ ناراضگی سے بولی۔
’’ارے نہیں… ‘‘وہ تو ان لوگوں کو دیکھ کر۔ پھر وہ سنجیدہ ہوگیا۔
’’تم لوگ اب بس کروگے؟‘‘ وہ چڑ کر بولی۔
’’شعیب چلو اٹھو نماز کی تیاری کرو ہم ساتھ چل رہے ہیں۔‘‘ یحییٰ نے اسے وہاں سے چلتا کردیا۔ اس کی کھی کھی ابھی بھی بند نہیں ہوئی تھی۔
’’تمہیں یقینا کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘ یحییٰ کے چہرے پر غیرمعمولی سنجیدگی تھی۔
’’نہیں لالا میں نے خود اپنے کانوں سے سنا ہے۔‘‘
’’لیکن آنکھوں سے تو نہیں دیکھا ناں… اچھا یہ بتا۔ وہاں قریب ہی کوئی اور بھی تھا؟‘‘
’’ڈاکٹرسریش ان کے ساتھ ہی کھڑے تھے اور تینوں مل کر ویسے ہی قہقہہ لگارہے تھے جیسے ابھی شعیب اور اشمیرہ۔‘‘
’’بس تو پھر۔‘‘ یحییٰ نے انگلی اٹھاکر حتمی لہجے میں کہا ’’یہ بات یقینا سریش نے ہی کہی ہوگی۔ میں حسن کو خود سے زیادہ جانتا ہوں۔ وہ عورتوں کی بہت عزت کرتا ہے ایسی بات کہنا تو درکنار وہ اس پرہنسا تک نہیں ہوگا۔ بلکہ سریش کو اس نے سختی سے ٹوکا بھی ہوگا۔‘‘
’’پتہ نہیں کیوں مگر یہ بات ماننے کو دل نہیں چاہ رہا ہے۔‘‘ اس نے سرجھکالیا۔
’’میں پھر یہی کہوں گا کہ تمھیں بہت بڑی غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘
’’یحییٰ ٹھیک کہہ رہا ہے میسرہ۔ حسن ایسا لڑکا بالکل نہیں ہے میں بھی اسے اچھی طرح جانتی ہوں۔‘‘ شاہدہ بانو نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی۔ وہ پزل… ہوگئی، پھر قدرے توقف کے بعد کہا ’’آپ لوگ یقینا صحیح کہہ رہے ہوںگے مگر میں نہ صرف ان کا کمنٹ سن چکی ہوں بلکہ انھیں ہنستے ہوئے بھی دیکھا ہے۔‘‘
’’ایسی بات پر کون نہیں ہنسے گا۔‘‘ شعیب زیرِ لب بڑبڑایا۔ وہ وضو کے بعد بالوں میں کنگھی چلارہا تھا۔
’’تو کیا تم نے اسے …؟‘‘ یحییٰ کچھ پوچھتے پوچھتے رہ گیا۔
’’میں جانتی ہوں بجّو نے کیا کیا ہوگا۔ انہیں ضرور سورہ الحجرات کی وہ آیت سنائی ہوگی جس میں مداق اڑانے کی ممانعت کی گئی ہے۔‘‘ مسیرہ نے اس کی تردیدنہیں کی۔
(’’اوہ نو!‘‘) یحییٰ نے تصور میں حسن کے متغیر ہوتے چہرے کو دیکھا تو شدید تاسف کے احساس نے اسے آگھیرا۔
’’جب بجو اتنے وثوق سے کہہ رہی ہیں کہ انھوں نے ڈاکٹر حسن کو ایسی حرکت کرتے دیکھا ہے اور لالا اس سے بھی زیادہ اعتماد کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ وہ حسن ایسا کرہی نہیں سکتا تو کیا ضروری ہے کہ جس شخص کے متعلق بات چل رہی ہے وہ ڈاکٹر حسن ہی ہو۔ ہوسکتا ہے کہ اس رنگ کے کپڑوں میں ملبوس وہ شخص کوئی اور ہو۔‘‘ اشمیرہ دور کی کوڑی لائی۔
’’بات تو تم نے بڑے پتے کی کی۔‘‘ یحییٰ نے توصیفی لہجے میں کہا پھر مسیرہ سے گویا ہوا۔
’’تم نے یوں بھی حسن کو دیکھا تو نہیں ہے۔ مغالطہ ہوگیا ہوگا۔‘‘
’’جی، ہوسکتا ہے۔‘‘ مسیرہ نے اعتراف کیا۔
’’بھائی چلیں؟‘‘ شعیب نے گھڑی دیکھی۔
’’ہاں چلو۔‘‘ یحییٰ انھیں سلام کرتا شعیب کے ساتھ باہر نکل گیا۔
’’لگتا ہے لالا ڈاکٹر حسن کے کچھ زیادہ ہی فین ہیں۔‘‘ اشمیرہ نے سوچ کے انداز میں کہا
’’ہاں وہ ہے ہی ایسا لڑکا۔ وہ تو یحییٰ کا جگری دوست ہے اس لیے دوست کے متعلق اس کے جذبات ایسے ہیں مگر کوئی بھی شخص جو حسن سے ملتا ہے اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا اور صرف وہی نہیں اس کی پوری فیملی ایسی ہی ہے۔ مخلص، خوش اخلاق، غمگسار اور ملنسار۔‘‘
شاہدہ بانو، حسن کے گھر والوں کے متعلق انھیں بتارہی تھیں اور وہ دونوں دلچسپی سے ان کی باتیں سن رہی تھیں۔ (جاری)
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں