آج مشرق میں بھی بوڑھے والدین کی ایک کثیر تعداد اپنی اولاد سے چوٹ کھائی نظر آتی ہے۔ کہا جاتا تھا کہ بیٹے ہی اپنے بوڑھے والدین کا سہارا ہوتے ہیں، بیٹیاں تو پرایا دھن ہوتی ہیں۔ لیکن آج کل بیٹوں والے والدین بھی تنہا اور بے گھر نظر آتے ہیں۔ بیٹے تو اپنے بیوی بچوں میں خوش حال زندگی گزارتے ہیں مگر ماں باپ تنہا رہ جاتے ہیں۔
اولڈ ہاؤس یعنی بوڑھے شہریوں کے ادارے ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں ہیں، یہ تصور ہمارے یہاں مغرب سے آیا ہے۔ جہاں بوڑھے اور ضعیف العمر افراد کو اولڈ ہاؤس میں بھیج دیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں والدین کے حقوق اور عزت و احترام کو جس قدر اہمیت حاصل ہے، اس کے پیشِ نظر کسی بھی اولاد سے یہ توقع ہی نہیں کی جاسکتی کہ وہ بڑھاپے میں والدین کا ساتھ چھوڑ دے۔ مغرب میں تو بالغ ہوتے ہی اولاد آزاد اور والدین سے بیگانہ ہوجاتی ہے۔ افسوس کہ اب ہمارے ہاں بھی مصروف ترین زندگی کی آڑ میں بیٹے اپنے ماں باپ سے بیگانے ہوتے جارہے ہیں۔ اولاد کے رویوں سے دلبرداشتہ والدین کو چھت فراہم کرنے کے لیے ہمارے ہاں بھی اولڈ ہاؤس مجبوری بن گئے ہیں۔ آج کل نوجوان اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے ہی والدین کی خدمت کرنے کی بجائے انھیں تنہا چھوڑدیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بعض والدین خود ہی اپنے بچوں سے مایوس ہوکر اولڈ ہاؤس کا رخ کرلیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اولڈ ہاؤس کا رواج بڑھ رہا ہے۔ آج لوگ بزرگوں کے لیے اولڈ ہاؤس کا انتخاب کرنے کی بات کرتے ہیں، کیا انھوں نے اپنے آنے والے کل کے لیے اولڈ ہاؤس کا انتخاب کیا ہے؟
اسلام ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ والدین کے سامنے اُف تک نہ کہو۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہماری معاشرتی اور دینی اقدار یہ بتاتی ہیں کہ ماں کے پاؤں تلے جنت ہے اور باپ جنت کا دروازہ ہے، تو ہم کیسے اپنی جنت کو بڑھاپے میں اولڈ ہاؤس میں چھوڑ آئیں۔ آج جو کچھ ہم بوئیں گے وہی ہم کل کاٹیں گے۔ یہ ایک سادہ سا اصول ہے کہ اگر ہم نے آج اپنے بڑوں کی عزت کی تو ہمارے بچے بھی بڑھاپے میں ہماری عزت کریں گے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بچے جو کچھ بھی دیکھتے ہیں اسی کو اپنے دماغ میں بٹھا لیتے ہیں۔
والدین بڑھاپے میں روپیہ پیسہ نہیں بلکہ وہ اپنے جذبات اور احساسات کو اپنی اولاد کے ساتھ بانٹنے کے لیے ان کا تھوڑا سا وقت مانگتے ہیں او ران کی محبت اور شفقت کے طلب گار ہوتے ہیں۔ دو وقت کی روٹی کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ نے انسان سے کیا ہے، اور ہر صورت میں اسے اس کے حصے کا رزق ضرور ملے گا۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ مغرب کی طرح اب ہمارے معاشرے میں بھی والدین کی عزت و احترام ختم ہوتا جارہا ہے۔
آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا کوئی تربیت میں ہی کمی ہے کہ اولاد اپنے فرائض سے غافل نظر آتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم دین سے دور ہوجاتے جارہے ہیں۔ ہمارے گھروں میں دین سے دوری کا رجحان عام ہوتا جارہا ہے۔ والدین دنیا کی تعلیم کے لیے تو سخت محنت کرنے کی تلقین کرتے ہیں، بچوں کے لیے سخت قسم کے شیڈول بھی بنائے جاتے ہیں مگر نماز کے لیے کوئی سختی نہیں کی جاتی، نہ ہی ناراضگی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ نبی ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی مثالی زندگیوں اور تاریخِ اسلام سے لاعلمی بھی بڑی کوتاہی ہے۔
اگر والدین ابتدا ہی سے بچوں کو نبی ﷺ کے اوصاف حسنہ یاد کرائیں اور ان کو بتائیں کہ والدین کا رتبہ کتنا بلند و عظیم ہے اور ان کی نافرمانی اور برا سلوک کتنا سخت گناہ ہے تو آگے چل کر وہ اس پر ضرور عمل پیرا ہوں گے۔ اگر بچے کی تعلیم و تربیت یہ سوچ کرکرنے کی بجائے کہ کل وہ اس کا اچھا صلہ دے گا، اس نظریے کے تحت کی جائے کہ اسے ایک اچھا انسان اور نیک مسلمان بنانا ہے تو یقینا بڑھاپے میں ایک مضبوط و توانا سہارا میسر آئے گا، جو محض دنیاوی دکھاوے کے لیے نہیں بلکہ اندر سے اس بات پر یکسو ہوگا کہ بوڑھے والدین ایک نعمت ہیں، بوجھ نہیں۔ اس طرح ہمارے معاشرے سے اولڈ ہاؤس بھی خود بخود ختم ہوجائیں گے۔ اگر والدین آج اپنی اولاد کی اچھی تربیت کریں گے تو انشاء اللہ کل اس کا بہترین ثمر پائیں گے۔
ہمارے نوجوان بزرگوں سے جان بوجھ کر غافل ہوجاتے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ بوڑھے بزرگ لوگ تجربہ کار ہوتے ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ اپنی زندگی کی جدوجہد میں گزارا ہوتا ہے اور وہ اس عمر میں سونے کی طرح پک کر کندن ہوچکے ہوتے ہیں۔ یہ اپنے تجربات کی روشنی میں زیادہ مفید اور کارآمد مشورے اور دلائل دے سکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں انھیں بوجھ سمجھنے کی بجائے ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اپنی زندگی کے کٹھن لمحات اور بہترین فیصلوں کے لیے ان سے مدد لینی چاہیے اور مستقبل کے فیصلوں میں ان سے مشاورت کرنی چاہیے تاکہ ہم ان کی قابلیت سے فائدہ اٹھا سکیں اور ان کے تجربات سے مستفید ہوسکیں۔
——