اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ ہم پر دو طرح کے حقوق ہیں۔ پہلا اللہ کا حق اور دوسرا بندوں کا حق۔ اللہ کے حقوق کا علم، اس کا خوف اور اس کی محبت کا تو ہم دھیان رکھتے ہیں اور اس کے لیے کوششیں کرتے ہیں لیکن بندوں کے بارے میں فکر اس حد تک ہی ہوتی ہے کہ کوئی ہمارا حق غصب نہ کرنے پائے، خصوصاً ہم خواتین کا دل اس معاملے میں بڑا حساس ہوتا ہے۔ کڑھن، جلن، حسد جونکوں کی طرح دل سے چمٹ کر خوشی اور اطمینان کو چاٹ جاتے ہیں، جس کے باعث ہر وقت دل میں ایک اداسی کی کیفیت ٹھہر سی جاتی ہے۔ حالانکہ بندوں کے حقوق کے معاملے میںرب کا فرمان ہے کہ وہ معافی نہیں دے گا، جب تک حق دار بندہ خود نہ معاف کردے۔ بندوں سے محبت رب سے محبت کے قریب کردیتی ہے۔
دیکھئے تو … خوش مزاجی بہت سے گلے شکووں کو ختم کردیتی ہے، دوسروں سے ہمدردی اور محبت کے جذبات ذہن کو کسی منفی سمت متوجہ نہیں ہونے دیتے۔ مقصداگر کسی اعلیٰ ترین چیز کا حصول ہو تو معاملہ مزید بہتر ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ جب بھی گفتگو کرتے تھے تو آپؐ کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ہوتی تھی۔ آپﷺ کی گفتگو کی جاذبیت سے سننے والا مسحور ہوجاتا تھا۔ یہ صفت ایسی ہے کہ ہمیں اس کو اختیار کرلینا چاہیے۔
پھر دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرنے کا بہترین طریقہ معاف کردینا اور فراموش کردینا ہے۔ اور اس کے لیے ایک یقینی راستہ یہ ہے کہ ہم کسی ایسے مقصد میں کھوجائیں، جو ہماری ذات سے کہیں اعلیٰ و ارفع ہو ، تب تمام اہانتیں اور زیادتیاں ہمارے لیے بے معنی ہوکر رہ جائیں گی کیونکہ ہمارے لیے ہمارا مقصد ہی اہم ترین چیز ہوگا۔
لہٰذا مقصد کے حصول کے لیے ہوشیار اور دور اندیش بنیے۔ ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ بتائیے’’آدمیوں میں کون زیادہ ہوشیار اور دور اندیش ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا : ’’وہ جو موت کو زیادہ زیادہ یاد کرتا ہے اور موت کی زیادہ سے زیادہ تیاری کرتا ہے۔ جو لوگ ایسے ہیں، وہ ہی دانش مند اور ہوشیار ہیں، انھوں نے دنیا کی عزت بھی حاصل کی اور آخرت کا اعزاز و اکرام بھی۔‘‘ (طبرانی)
وہ لوگ یقینا دنیا میں زیادہ کامیاب رہتے ہیں جو اپنے اہداف متعین کرلیتے ہیں، اور پھر اس کے لیے پرعزم ہوکر لگن کے ساتھ مصروف ہوجاتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے راستے میں آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو کوئی ہدف نہیں رکھتے اور نہ ان کے عزائم ہوتے ہیں وہ اپنی سوچ وفکر اور الجھنوں میں الجھ الجھ کر پریشان ہوتے رہتے ہیں۔
لہٰذا اگر آپ اپنا مقصدِ زندگی رکھتی ہیں اور اس کے حصول کی تمنائی ہیں تو اپنی ڈائری میں اپنا مقصد اور اس کے حصول کے اہداف مقرر کرلیجیے۔ یہ اہداف دو طرح سے متعین کیجیے، ایک وقت کے لحاظ سے کہ یہ کام ایک دن یا ایک ہفتہ یا ایک ماہ کا ہے، اور دوسرا معاشرتی اعتبار سے کہ بچے، خاندان، پڑوسی اور ملنے جلنے والے اور سہیلیاں… پھر لگ جائیے اللہ اور اللہ کے رسولﷺ سے محبت اور اس کی رضا کے حصول کے لیے۔ خوب محنت کیجیے اور یاد رکھیے کہ اخلاص کے ساتھ کی گئی محنت کی قدر کی جاتی ہے۔
——