اداسی اور یاسیت جسے عام طور پر لوگ ’’ڈپریشن‘‘ کے نام سے جانتے ہیں، ہماری زندگی میں اس قدر عام ہوچکا ہے کہ پہلے اس اداسی و یاسیت کی جو علامات افراد کی زندگی کے وسط یا عمر کے اس سے اگلے مراحل میں نمودار ہوتی تھیں اب نوجوانوں میں بھی سامنے آنے لگی ہیں اور زندگی کے جو دن جو جوش و جذبے اور بے تکان عزم و ہمت سے معمور ہونے چاہیے تھے، وہ نیند نہ آنے اور ذہنی ارتکاز کے خاتمے، تکان و کاہلی کی شکایات کی نذر ہوجاتے ہیں۔ جذبات اس قدر سرد پڑجاتے ہیں کہ جیسے وہ مفلوج ہوچکے ہوں اور پھر رفتہ رفتہ یہ اداسی و یاسیت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ نوبت پہلے خود کشی کرنے سے متعلق سوچوں اور پھر اس کے اگلے مرحلے یعنی خود کشی کے ارتکاب کی عملی کوشش تک جاپہنچتی ہے۔
یوں تو دنیا بھر کے ماہرین نفسیات عامۃ الناس میں ڈپریشن کے اس روز افزوں اضافہ پر متعجب بھی ہیں اور پریشان بھی مگر کئی ماہرین نفسیات نے ڈپریشن کے اضافے کے اس رجحان کا سبب خاص طور پر گزشتہ تین عشروں میں نمودار ہونے والی سماجی تبدیلیوں کو قرار دیا ہے۔
ایک سائیکلوجسٹ کی حیثیت سے میرا جو تجربہ ہے وہ سماجی تبدیلیوں کو ڈپریشن کا سبب قرار دینے والے ماہرین کے اس تجزئیے کی تصدیق کرتا ہے کہ خاندانی نظام میں جو شکست و ریخت اور زوال رونما ہوا ہے اس نے ہر فرد کو ایک انتہائی بنیادی سہارے یعنی خاندان سے محروم کردیا ہے اور یوں فرد تنہا ہوکر زمانے سے نبرد آزما ہے۔ خاندان کی شکست و ریخت اور زوال کا ایک عکس یہ بھی ہے کہ ایک فرد اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ہے ان کے درمیان رہتا ہے۔ ان کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے، مگر وہ نہ کسی سے اپنے دل کا حال کہتا ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا شخص اس سے اپنے احساسات کو بیان کرتا ہے۔ خیر یہ ایک خفیف سا اشارہ تو دراصل ایک جملہ معترضہ تھا مجھے جو اصل بات کہنی ہے وہ ہے ڈپریشن یعنی اداسی و یا سیت کے بارے میں۔
ڈپریشن کی اس کیفیت میں کوئی بھی فرد مبتلا ہوسکتا ہے اور یہ کیفیت چند گھنٹوں سے لے کر کئی ہفتوں پر محیط ہوسکتی ہے۔ یہ کیفیت اگر محض وقتی ہے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ لیکن اگر یہ کیفیت طول پکڑتی ہے تو پھر اس سلسلے میں کسی سائیکالوجسٹ سے پیشہ ورانہ مدد حاصل کرنے میں کوئی جھجک نہیں ہونی چاہیے۔ یوں تو ایک سائیکالوجسٹ کی حیثیت سے ڈپریشن کے شکار افراد کی پیشہ ورانہ مدد یا علاج کے طریقے مختلف ہوتے ہیں جو ظاہر ہے کہ ہر متاثرہ فرد کے لحاظ سے اختیار کیے جاتے ہیں، لیکن یہا ںڈپریشن کے شکار افراد کے لیے ذیل میں کچھ ایسے طریقے بیان کررہی ہوں جو ابلاغِ عامہ کے تقاضوں کے پیشِ نظر مرتب کیے گئے ہیں۔ ان طریقوں کو کوئی بھی فرد اپناسکتا ہے تاکہ اپنی اداس اور یاسیت زدہ ذہنی کیفیت پر قابو پاسکے۔ لیکن میں ایک بار پھر واضح کررہی ہوں کہ اگر آپ کی یہ کیفیت باقی رہتی ہے تو پھر ضرور کسی سائیکالوجسٹ سے رابطہ کریں۔ ڈپریشن سے نجات کے لیے کوئی شخص اپنی مدد آپ کے اصولوں کے تحت جو طریقے اختیار کرسکتا ہے وہ کچھ یوں ہیں:
۱-کسی تعمیری کام کا آغاز
اداسی و یاسیت یعنی ڈپریشن ایک ایسی آکاس بیل ہے جو آپ کی قوتِ عمل کا خون چوس کر پروان چڑھتی ہے۔ آپ کو سستی و کاہلی میں مبتلا کرتی ہے اور کسی کام میں بھی پھر ہمارا دل نہیں لگتا۔ حالت یہ ہوجاتی ہے کہ ہم جس قدر کم کام کرتے ہیں اسی قدر ہمارے اندر یہ خواہش جنم لیتی ہے کہ ہم مزید کم کام کریں۔
ہمارے جذبات سرد پڑجاتے ہیں، ہمارے عزائم کمھلا جاتے ہیں۔ اس صورت ِ حال کے ازالے کے لیے بہتر یہ ہے کہ ہم روزانہ اپنی مصروفیات کی منصوبہ بندی کرنا شروع کردیں۔ یہ منصوبہ بندی اس قدر تفصیلی ہونی چاہیے کہ ہم صبح بیدار ہونے سے رات کو سونے تک ہر کام کی منصوبہ بندی کرلیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ان تفصیلات میں نہانے اور کھانا کھانے تک کی باتیں شامل ہونی چاہئیں۔ ان باریکیوں کو اختیار کرنے کی ایک نفسیاتی وجہ ہے اور وہ یہ کہ جب ہم ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں تو ہمیں اپنے یہ چھوٹے چھوٹے معمولات بھی ایک بڑا کام محسوس ہونے لگتے ہیں۔ دن بھر کی مصروفیات میں اگر کچھ بڑے بڑے پیچیدہ کام بھی درپیش ہیں تو ان کو بھی جزئیات میں طے کرلیں اور اس کام کے جو مختلف مراحل ہیں ان کو بھی تحریر کرلیں۔ آپ دیکھیں گے کہ یہ پیچیدہ اور مشکل کام بھی منقسم کرنے سے آپ زیادہ منظم انداز میںانھیں انجام دے سکیں گے۔ اس منصوبہ بندی کے ساتھ جب آپ اپنے دن کا آغاز کریں گے یا کریں گی تو آپ کو خود یہ محسوس ہوگا کہ جوں جوں آپ کے طے شدہ امور مکمل ہورہے ہیں آپ اپنے آپ کو مزید کام پورے کرنے کی ترغیب دینے لگے ہیں اور پھر وہ وقت بھی آئے گا جب آپ پورے ذوق وشوق کے ساتھ اپنا ایک بھر پور دن گزار کر مطمئن، مسرور کیفیت سے ہم آہنگ ہوجائیں گے یا ہو جائیں گی۔
۲- تفریح کی منصوبہ بندی
ڈپریشن کے شکار افراد میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنی ان سرگرمیوں سے بھی کترانے لگتے ہیں جن سے وہ بہت مسرور ہوتے تھے اور یوں ان کا ڈپریشن مزید برھتا ہی چلا جاتا ہے۔ اس کیفیت کو دور کرنے کے لیے سماجی سرگرمیوں میں مصروفیت نہایت کارآمد ثابت ہوتی ہے۔ آپ اداس ہیں اور کسی سے ملنے کو دل نہیں چاہ رہا ہے مگرآپ دل پر جبر کرکے ہی سہی گیٹ ٹو گیدر میں حصہ لیں۔ اس کے علاوہ ایک اور طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ اپنی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے یا کسی نئی صلاحیت کو سیکھنے کی جانب متوجہ ہوں۔ مثلاً کسی نئی زبان کو سیکھنے کی کلاسیں لینا شروع کردیں، کمپیوٹر میں اپنی دلچسپی بڑھالیں، ڈیزائننگ کی جانب متوجہ ہوجائیں، سلائی کڑھائی، بنائی، کوکنگ کی کلاسیں لیں،اس کے علاوہ کسی کھلی اور پرفضا مقام کی سیر بھی کی جاسکتی ہے، باہر کھانا کھایا جاسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
آپ ان میں سے کسی سرگرمی میں حصہ لیں، مگر ایک بات طے کرلیں کہ آپ کے ہونٹوں پر شعوری طور پر مسکراہٹ ہوگی۔ میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ آپ کی یہ شعوری مسکراہٹ ہی آپ کے پورے رویے کو تبدیل کرسکتی ہے اور آپ خوشی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔
۳- ورزش کو معمول بنائیں
آپ بھی سوچیں گے کہ میں نفسیاتی مشوروں کے کالم میں بار بار ورزش کا تذکرہ کرتی ہوں، لیکن بات یہ ہے کہ جب ہم مختلف قسم کی جسمانی ورزشیں کرتے ہیں تو ہمارے جسم کی کیمسٹری میں بھی تبدیلیاں رونماہوتی ہیں اور ہماری نفسیات بھی بدل جاتی ہے۔ سحر خیزی، جاگنگ، پیراکی، سائیکلنگ اور ایروبک کی ورزشیں ہم میں خود اعتمادی پیدا کرتی ہیں۔ ہمارے ذہن میں اپنی شخصیت کا اچھا تاثر ابھرتا ہے اور ہمارے اندر توانائی بیدار ہوکر انگڑائیاں لینے لگتی ہے۔ یہ ورزشیں خواہ مخواہ کی مشقت نہیں ہیں، بلکہ دراصل ہمیں آرام پہنچاتی ہیں اور ڈپریشن پیدا کرنے والے تناؤ اور دباؤ ختم ہوجاتے ہیں، جس میں تازگی اور چستی آجاتی ہے، ذہنی بیداری رونما ہوتی ہے۔ ان مشقتوں کے دوران آپ خود میری اس بات کی تصدیق کریں گے کہ جب آپ کسی بھی قسم کی ورزش کریں گے یا کریں گی تو ابتداء میں دل اچاٹ سا ہوگا مگر جوں جوں آپ اس عمل سے گزریں گے تو آپ میں یہ ورزش مزید کرنے کی خواہش پیدا ہوگی جو ایک صحتمندانہ علامت ہے اور اس سے یہ بھی ظاہر ہوگا کہ درحقیقت اس ’’مشقت‘‘ کی آپ کے جسم اور ذہن کو کس قدر ضرورت تھی۔
۴- خدمتِ خلق
اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی گزارنے کا پورا اسلوب بتادیا ہے جس میں سے ایک اس کے بندوں کی خدمت کرنا ہے اور اب تو انسانی صحت پرتحقیق کرنے والے ماہرین بھی اس نتیجے پر ’’بالآخر‘‘ پہنچ گئے ہیں کہ بہتر صحت کے لیے خدمت خلق انتہائی اہم اور مثبت کردار ادا کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس عبادت کے جہاں دیگر اثرات مرتب ہوں گے وہاں ایسے کسی کام کو انجام دینے سے ہماری نفسیات پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ آپ اگر ڈپریشن کا شکار ہوں اور اس حالت میں ذرا اپنے کسی پڑوسی کی چھوٹی سی بھی مدد کردیں تو آپ کی ذات میں جو تبدیلی رونما ہوگی، آپ خود میری اس بات کی تائید کرنے لگیں گے۔ دراصل جب آپ کسی دوسرے شخص کے کام آتے ہیں تو آپ کا ضمیر یہ سوچ کر مطمئن ہوتا ہے کہ آپ دراصل ایک اچھی شخصیت کے حامل ہیں۔ آپ قابلِ قدر ہیں، قابلِ تقلید ہیں اور آپ غیر اہم نہیں، دوسروں کے ایسے چھوٹے موٹے کام کرنے سے آپ کا دیگر افراد سے تعلق، محبت اور رابطہ بھی بڑھے گا۔
ڈپریشن سے نجات کے لیے یہ چند مشورے تھے، جنھیں اپنا کر آپ ڈپریشن سے خود چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں یا کرسکتی ہیں۔ لیکن میں ایک بار پھر آخر میں واضح کردوں کہ اس کے باوجود اگر آپ کی ڈپریشن کی کیفیت دو تین ہفتے مسلسل برقرار رہے تو کسی سائیکالوجسٹ سے ضرور رابطہ کریں۔
——