بے چاری

ڈاکٹر ابن فریدؒ

اسٹیل کے فریم میں لگی ہوئی اس تصویر کو وہ دیر تک دیکھتی رہی، سوچتی رہی خیالوں کے تارو و پود بنتی رہی۔ ایک ذات وہ جو اس فریم سے باہر کھڑی ہوئی، اس تصویر کو نہیں اپنے آپ کو تنہا محسوس کررہی تھی۔ اس کے چاروں طرف داہنی بائیں، سامنے اور پشت پر، چاروں طرف سناٹا تھا۔ اجاڑ سنسان ویرانی! کسی بھی سمت کسی زندگی کے کوئی آثار، کوئی گہما گہمی نہ تھی۔ کیا ساری زندگی یونہی بے یارومددگار کھڑا رہنا ہوگا؟ اس کا دل بیٹھنے لگا۔ کیا یہ وہ تھا جسے اس نے اس طرح سجا کر سامنے دیوار پر آویزاں کررکھا تھا؟ اس نے گھور کر تصویر کی آنکھوں میں دیکھا، وہ تو بے حس تھیں، بے نیاز، لاتعلق! دل میں ایک درد اٹھا، بے چاری ساری زندگی کا ساتھ اب سمٹ کر اس تصویر تک محدود ہوگیا تھا۔
بے چاری تو وہ اس تصویر کے سامنے بھی تھی اور اس کمرے سے باہر بھی! جو بھی دیکھتا، ترس کھاتا: بے چاری! اوپر سے نیچے تک اس کے بدن میں ترس کھانے والی لہر دوڑ جاتی ہیں کیا ہوں مجھ میں کیا تبدیلی ہوگئی ہے؟ وہ تصویر کے سامنے سوالی بن کر کھڑی ہوجاتی: تم ہی بتاؤ مجھے کیا ہوگیا ہے، جو لوگ مجھ پر ترس کھانے لگے ہیں؟ تم اس تصویر میں سمٹ کر بیٹھ گئے ہو، لاتعلق سے! اور لوگ مجھے تنہا پاکر پست کیے دے رہے ہیں۔ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں، بس صرف ایک تمہارے وجود کا تتمہ ہوں کہ اب بھی تم سے الگ نہیں ہوپاتی کہ جو بھی مجھے دیکھتا ہے میرے پا س ہی تمھیں وجود بخش دیتا ہے۔ تم نہ ہوتے ہوئے بھی مجھے قابلِ رحم بنادیتے ہو۔
وہ جب اپنی ہم جولیوں کے پاس جاکر کھڑی ہوتی تو سب سنجیدہ ہوجاتیں۔ لبوں کا تبسم پھیپھڑوں سے ابلتے ہوئے قہقہے باتوں کی شگفتگی ماند پڑجاتی۔ ان سب کو اس پر بڑا ترس آتا۔ دو ایک بڑی گہری ٹھنڈی سانس لیتیں اور قابل رحم نظروں سے اسے دیکھتیں۔ اس کے اندر اس کا اپنا وجود اجنبی ہوجاتا۔ ایسا کیا کچھ ہوگیا کہ میں اب وہ نہ رہی جو میں تھی؟ اس نے خود سے سوال کیا اور ایک مہیب سکوت اس کے باطن پر محیط ہوگیا۔ بیچ میں کتنے سمندر حائل تھے کہ وہاں سے اگر ہوا بھی آتی تو نم ہوجاتی۔ کتنے سمندر تو اس کی نم آنکھوں میں غرقاب ہوگئے تھے، اتنے زیادہ کہ وہ سب کے سب دھندلاگئے تھے۔
بازار سے گزرتے ہوئے اس کی دور کے رشتہ کی بہن نے رحم آمیز تجسس سے پوچھا: ’’یہ سب آخر کیسے ہوگیا؟‘‘
وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ اسے دیکھتی رہی۔ کیا بتاتی وہ؟ سب کچھ کیسے ہوجایا کرتا ہے؟ جب ہوجاتا ہے تو لوگ اس کی وجہیں تلاش کرنے لگ جاتے ہیں۔ کیا ملتا ہے اس جستجو میں انھیں؟ حسرتیں، ملامتیں، کدورتیں! وہ سراب کے پیچھے دوڑنے لگا۔ جتنا وہ آگے بڑھتا گیا جھلمل چمکتا ہوا چشمہ آگے بڑھتا گیا، اس سے دور ہوتا گیا۔ وہ اسے اس کے مائکے میں پٹخ گیا، ’’تم یہاں رہو، مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے۔‘‘ تو ضرورت کی چیز ہوں میں؟ بے ضرورت ہوجاؤں تو اٹھا کر پھینک دی جاؤں؟ لیکن یہ کون طے کرے گا کہ کب میری ضرورت ہوجاتی ہے اور کب میں بے ضرورت ہوجاتی ہوں؟ اس نے تصویر کے سامنے کھڑی ہوکر سوال کیا۔ تصویر بے توجہ رہی۔ سراب کے پیچھے دوڑنے والے خود بھی سراب میں معدوم ہوجاتے ہیں۔
زندگی معمول کے مطابق گزر رہی تھی۔ کوئی خاص بات نہیں تھی، لیکن اچانک اسے بے طوفان زندگی سے الجھن ہونے لگی۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر چڑجایا کرتا۔ بے بات کی بات پر الجھ جایا کرتا۔ وہ سمجھانے کی کوشش کرتی تو اس کی انا کو ٹھیس لگتی اور آپے سے باہر ہوجایاکرتا۔
’’مجھے سکون چاہیے سکون! تم نے میرا جینا اجیرن کردیاہے۔‘‘
’’میں نے کیا کیا ہے؟‘‘
’’تم نے کیا کیا ہے؟ تم نے وہ کیا ہے جس نے اس گھر کو ویرانہ بنادیا ہے۔ اس کے کونے کونے میں موت کا سناٹا ہے، یہ گھر کھانے کو دوڑتا ہے۔‘‘
’’میں بانجھ نہیں ہوں۔ قصور کسی اور کا بھی ہوسکتا ہے۔ سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے وہ جو چاہے گا…‘‘
’’تو تم الزام مجھے دے رہی ہو؟ وہ تلملا کر اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
وہ سہم گئی۔ دل تیز تیز دھڑکنے لگا۔ کہیں ایسا نہ ہو جیسا اب تک کبھی نہیں ہوا۔
اس دن کے بعد وہ مسلسل اکھڑا اکھڑا سا رہنے لگا۔ بات بات پر چڑجایا کرتا۔ پھر زیادہ تر وہ گھر سے غائب رہنے لگا، پوچھنے پر بھڑک جایا کرتا، پورا گھر سر پر اٹھا لیتا۔ یہ کون سا طوفان ہے جو ایک بار اٹھ کھڑا ہونے کے بعد تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ موجیں اتنی شور انگیز تھیں کہ پتوار ہاتھ سے چھوٹ جانے کا خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔ خالی ہاتھ تو ان خطرناک موجوں سے نہیں لڑا جاسکتا۔ ایک زندگی کے ساتھی پر بھروسہ ہوتا ہے تو وہ تو منہ پھیر کر نظروں سے اوجھل ہوتا جارہا تھا۔ وہ پکارتی تو حالات کی پر شور موجیں بیچ میں حائل ہوکر آواز کو بے صدا کردیتیں۔
بڑی تحقیر آمیز نظروں سے وہ اسے دیکھتا ’’یہ گھر ہے؟ اسے گھر کہتے ہیں؟‘‘
’’کیا خرابی ہے اس گھر میں؟‘‘
’’دوسروں کے گھر دیکھو، روشن چمکتے ہوئے، آراستہ پیراستہ!‘‘
’’ان کے پاس وسائل ہیں، مالی گنجائش ہے۔ ہمیں اپنی چادر دیکھ کر پیر پھیلانے ہیں۔‘‘
’’ہر بات تم مجھی پر الٹ دیتی ہو۔ ہر معاملہ میں قصور وار میں ہی ثابت ہوتا ہوں۔‘‘
’’نہیں میرا یہ مقصد بالکل نہیں ہے۔‘‘
وہ چپ ہوگیا اور اس کے بعد اس نے ایسی خاموشی اختیار کی کہ اس کی چپ بھی گراں گزرنے لگی۔ اس نے لاکھ چاہا کہ وہ ہمیشہ کی طرح بولا کرے لیکن اس کی خشک مزاجی میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلاگیا۔ یہاں تک کہ اک دن وہ اسے اس کے مائیکے لے گیا۔ رات گزارنے کے بعد صبح ہی صبح وہ واپس جانے کے لیے تیار ہوگیا۔ سارے گھر کو بے حد تعجب ہوا۔ اس نے ضروری کام کا بہانا بنایا۔ اس کی بات رکھنے کے لیے وہ چپ رہی، لیکن اس کا یہ جملہ اس کے دماغ میں نیزے کی طرح سوراخ کرتا رہا ’’تم اب یہیں رہو، مجھے اب تمہاری ضرورت نہیں ہے۔‘‘ شریک زندگی سے اب وہ ضرورت کی چیز بن گئی تھی۔ ملنے جلنے والے، آنے جانے والے، سکھی سہیلیاں، سب کا انداز ایسا ہی ہوگیا تھا کہ جیسے وہ کوئی کباڑ کا مال ہو، جسے مسترد کردیا گیا ہو۔ جو بھی ملتا ترس کھاتا، ہمدردی جتاتا، اس کے مستقبل پر اندیشہ کا اظہار کرتا، اس طرح کے تعلق خاطر سے اس میں بے بسی کا احساس بڑھتا چلا جاتا۔ کیا صرف اس بات پر کہ میرے شوہر نے مجھے چھوڑ دیا ہے میں دنیا بھر کی ٹھکرائی ہوئی چیز بن گئی ہوں؟ کیا میں اب کسی لائق نہیں؟
وہ تصویر جسے اس نے اتارکر کیبٹ میں ڈال دیا تھا اس خالی جگہ پر اپنے وجود کے نشانات کے بیچ سے بول پڑتی ’’اب تو تم میری خالی کی ہوئی کھونٹی سے لٹک رہی ہو اور ہمیشہ ہمیشہ اسی طرح لٹکتی رہوگی۔‘‘
نفرت سے وہ سلگ اٹھتی، دانت پیس لیتی۔ لیکن محسوس وہ بھی کرتی تھی کہ وہ اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی۔ اس کا سارا جسم شل ہوجاتا، سمٹ کر ایک ممولے کی جتنی ہوجاتی خاص طور سے جب وہ ساگنوں کے بیچ کھڑی ہوتی تو احساسِ کمتری اسے انتہائی پستہ قد کردیتا۔ والدین بے حد فکر مند ہوئے۔ انھوں نے اس نامختتم عذاب سے نجات دلانے کے لیے اس کے شوہر کو آزمائش میں ڈالنے کے لیے نان نفقہ کا مقدمہ دائر کردیا۔ مقدمہ چند برس چلتا رہا، پھر عدالت نے فیصلہ اس کے حق میں کردیا۔ شوہر کو اسے گزارہ کے لیے دو سو روپے ماہانہ دینے کا حکم صادر ہوگیا۔
فتح تو اسے نصیب ہوئی لیکن کتنی حقیر! اس کے لبوں پر زہرخند پھیل گیا۔ اس دور میں جب ایک فرد کے لیے دو ہزار روپے میں بھی مہینہ گزارنا مشکل ہوتا ہے انصاف نے پورے مہینے کے لیے اس کے ہاتھ پر تین دن کا خرچ رکھ دیا تھا۔ اور باقی کا پہاڑ سا مہینہ؟ صبر کرو تو کل کرو انصاف چاہوگی تو اتنا ہی ملے گا، اس سے زیادہ نہیں اس نے اپنی مٹھی کس کر اپنی پشت کے پیچھے کرلی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مٹھی کھولے تو اس میں سے صرف پچیس پیسے کا سکہ ذرہ بن کر برآمد ہو۔ لیکن اس سے زیادہ اور کیا لکھا گیا ہے اس کے مقدر میں یہی تو ملا ہے نان نفقہ کے نام پر اسے۔ یہ ہے اس کی اپنی قیمت۔
ساری زندگی وہ اس نان نفقہ کی کیل سے لٹکی اس کے نام سے جھولتی رہے گی جس نے اسے چھوڑ دیا ہے، جو اسے اپناتا بھی نہیں، گلو خلاصی بھی نہیں کرتا۔ اس طرح میں بے حقیقت ہو کر رہ گئی ہوں۔ میرا دم گھٹنے لگا ہے۔ کوئی اتارے اس بے رحم کھونٹی سے مجھے! میں اپنی زندگی جینا چاہتی ہوں، اپنی زندگی!
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146