اگر اس دن

غلام رسول زاہد(ریٹائرڈ ایس ایس پی)

میں اندر داخل ہوا تو دائیں ہاتھ والی کوٹھری کے اندر نظر پڑی۔ اندر ایک لڑکا بے تحاشا رو رہا تھا۔
’’اسے کس جرم میں لایا گیا ہے؟‘‘ میں نے دروازے پر کھڑے کانسٹبل سے پوچھا۔
’’سر! ابھی ابھی دو آدمی پکڑ کر لائے تھے… اس نے اُن میں سے ایک کی جیب کاٹنے کی کوشش کی تھی۔‘‘
’’ہوں! اسے میرے کمرے میں لے آؤ۔‘‘
یہ کہہ کر میں اپنے کمرے میں آگیا۔ ایک منٹ بعد کانسٹبل نے اسے بازو سے پکڑا اور اندر لے آیا۔
’’ٹھیک ہے … تم باہر ٹھہرو۔‘‘
کانسٹبل چلا گیا تو میں نے اس کا بغور جائزہ لیا… وہ اب سسکیاں لے رہا تھا… گویا بہت دیر سے رو رہا تھا اور روتے روتے تھک گیا تھا۔
’’ایسا کام کیوں کرتے ہو؟‘‘
’’انسپکٹر صاحب! میں تو گھر سے ماں کی دوا لینے کے لیے نکلا تھا… بازار میں بھیڑ بہت تھی… میں ان دونوں کے درمیان سے نکلا تو انھوں نے مجھے پکڑ لیا اور شور مچادیا… چوری کرتا ہے… شرم نہیں آتی… بس جناب … ہمارے ارد گرد بہت سے لوگ جمع ہوگئے… ان میں سے ایک نے کہا: اسے تھانے لے چلتے ہیں ورنہ یہ نہ جانے کتنے لوگوں کی جیبیں صاف کردے گا۔ اس وقت لوگ بھی مجھے برا بھلا کہہ رہے تھے اور نفرت کی نظرو ں سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے لاکھ کہا میں چور نہیں ہوں… میری تلاشی لے لیں … اس پر ان میں سے ایک نے کہا: اس نے میری جیب میں ہاتھ ڈال دیا تھا، میں نے اسی وقت پکڑلیا… لہٰذا تلاشی کس چیز کی لیں… چل تھانے … وہیں چل کر تمھیں پتا چلے گا… اور جناب وہ مجھے یہاں لے آئے… انھوں نے کچھ پوچھا نہ تاچھا… بس حوالات میں بند کردیا۔‘‘
’’ہوں! ایک منٹ۔‘‘
میں نے گھنٹی بجائی… کانسٹبل اندر آیا تو اس کے ذریعے محرر کو بلایا۔
’’ان دونوں کے نام پتے نوٹ کیے تھے… موبائل نمبر وغیرہ۔‘‘
’’جی سر… سب کچھ نوٹ کیا تھا۔‘‘
’’فون کروانہیں… وہ ذرا دیر کے لیے یہاں آجائیں۔‘‘
محرر نے انھیں فون کیا… دونوں نمبر بند ملے، اب میں نے دو کانسٹبل ان کے لکھوائے ہوئے پتے پر بھیجے… انھوں نے آکر بتایا کہ اس پتے پر اس نام کے دونوں آدمی نہیں رہتے…
’’تب تو وہ فراڈ تھے… لیکن اس بے چارے کو حوالات میں بند کرواکے انھیں کیا ملا… سوال تو یہ ہے۔‘‘
’’ہوسکتا ہے سر … اس بچے کے باپ سے ان کو ئی دشمنی ہو… اور انھوں نے اس طرح دشمنی نکالی ہو۔‘‘ محرر دور کی کوڑی لایا۔
’’اس با ت کا امکان بہت کم ہے… بہرحال ہے ضرور … خیر … تم ذرا ان کے حلیے بتاؤ۔‘‘
اس نے ان کے حلیے بہت اچھے انداز میں لکھوادیے… میں نے اپنے تمام ماتحتوں کو وہ حلیے تحریری طور پر دے دیے۔ انھیں ہدایات دیں کہ اس حلیے کے افراد جہاں بھی نظر آئیں انھیں پکڑکر تھانے لے آنا … اس بچے کو میں نے اس کے گھر پہنچادیا… گھر پہنچانے سے پہلے اس کی والدہ کی دوا بھی خریدی… دونوں نے دعائیں دے کر مجھے رخصت کیا۔ پھر اچانک مجھے خیال آیا… میں اس جگہ گیا… جہاں سے لڑکے کو پکڑا گیا تھا… وہاں دکان دار سے میں نے پوچھا:’’یہاں کسی کی جیب تو نہیں کٹی۔‘‘
’’ہاں جناب!آج یہاں کئی لوگوں کی جیبیں کاٹ لی گئیں… اور یہ کام ایک لڑکے کا تھا… اسے پکڑ کر تھانے لے جایا گیا تھا…‘‘
’’ہوں‘‘ میں نے کہا اور جانے کے لیے مڑگیا… آخر ایک ہفتے بعد میرے دو ماتحت ان دونوں کو پکڑ کر لے آئے…
’’سر! یہ لوگ آج پھر ایک نو عمر لڑکے پر جیب تراشی کا الزام لگا کر ہنگامہ کررہے تھے۔ ہم نے ان دونوں کو پکڑ لیا ہے۔‘‘
’’یہ کیا ہے تم نے نیک کام۔‘‘ میں نے خوش ہوکر کہا۔
اب میں نے ان دونوں کا جائزہ لیا… وہ عادی مجرم نظر آئے… طریقہ ان کا یہی تھا… کسی لڑکے پر اچانک جیب تراشی کا الزام لگادیتے تھے… اس وقت ہنگامے کے دوران یہ دونوں لوگوں کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرنے لگتے تھے، پھر اپنا کام کرکے لڑکے کو تھانے پہنچادیتے تھے، یا راستے میں چھوڑ دیتے ہوں گے۔
اب وہ لڑکا بالکل بے گناہ ثابت ہوگیا تھا… میں نے سوچا، اسے اور اس کی والدہ کو بھی یہ خوش خبری سنانی چاہیے… میں ان کے گھر گیا۔ دونوں کو یہ تفصیل سنائی … وہ بہت خوش ہوئے اور لگے ایک بار پھر مجھے دعائیں دینے۔ ان کی دعاؤں سے مجھے ایک انجانی خوشی محسوس ہورہی تھی، میں نے لڑکے سے پوچھا: ’’بیٹا آپ پڑھ تو رہے ہیں؟‘‘
’’جی ہاں! میں آٹھویں جماعت میں ہوں۔‘‘
’’بہت خوب! تعلیم جاری رکھو، اور کوئی مسئلہ ہو تو بے دھڑک تھانے آکر مجھے بتاسکتے ہو… بلکہ تم کبھی کبھار ملنے کے لیے آتے رہنا۔‘‘
’’جی اچھا!‘‘ اس نے کہا۔
اس روز کے بعد ہمارا یہ تعلق قائم رہا۔ وہ مہینے میں ایک دو بار آتا، مجھ سے علیک سلیک لیتا اور چلا جاتا، اس طرح اس نے بی اے کرلیا اور پھر میں نے اسے محکمہ پولیس میں بھرتی کرادیا… آج وہ ایک سب انسپکٹر ہے اور اپنی والدہ اور بیوی بچوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزاررہا ہے۔
میں اکثرسوچتا ہوں، اگر اُس دن میں اس سے حالات معلوم نہ کرتا اور عام پولیس آفیسر کی طرح اس کی طرف کوئی توجہ نہ دیتا تو حوالات اور پھر جیل میں کچھ مدت گزارنے کے بعد وہ ایک مجرم بن جاتا۔ کاش ہمارے ملک کے پولیس آفیسر اس نہج پر سوچ لیا کریں یا کم از کم کسی نوعمر کے مجرم بن جانے کاپس منظر ہی جاننے کی کوشش کرلیا کریں۔ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146