عورتوں کے لیے اسلام نے جس کردار کی تصویر اپنی تعلیمات میں پیش کی ہے، ان کے لیے جس قسم کا مطلوبہ کردار اللہ کی کتاب میں بتایا گیا ہے اور جس قسم کا کردار حضورﷺ نے اس وقت اسلامی سوسائٹی میں تیار کرکے دکھایاتھا، وہ اس سے قطعی مختلف ہے جو مغربی تہذیب پیدا کرتی ہے اور پیدا کرکے عورت کو برباد اور بازار، دفتر اور مارکیٹ میں ذلیل و خوار کرتی ہے۔ اس کے دائرۂ کار کی تخصیص اور اس کی مخصوص تصویر کی پہلی جھلک اس آیت سے نمایاں ہوتی ہے:
وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاہلیۃ۔
’’اپنے گھروں میں بیٹھو وقار کے ساتھ، اور زمانۂ جاہلیت کی طرح سنگار کرکے دکھاتی نہ پھرو۔‘‘
یہ ایک ہی آیت اس کے کام کے میدان کو واضح طور پر متعین کردیتی ہے۔ یہ آیت گویا اس کی تفسیر حیات اور میدانِ جدوجہد کا عنوان ہے۔ جس سے عورت اور مرد کی حدودِ کار کے درمیان ایک لکیر کھنچ جاتی ہے۔ دونوں اپنے اپنے دائرے میں کام کے مختار اور ذمہ دار ہیں۔ دونوں کا باہمی ٹکراؤ نہیں ہے بلکہ وہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ دونوں باہم ایک دوسرے کی خدمت بجالاتے اور ایک دوسرے کا کام انجام دیتے ہیں۔ وہ اس کے بچے پالتی، اس کا گھر سنبھالتی اور اس کے مال کی حفاظت کرتی ہے، وہ اس کے بچوں کے لیے روزی فراہم کرتا، اس کے نان و نفقہ کا انتظام کرتا، اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرتا اور اس کے لیے رہائش فراہم کرتا ہے۔ گویا کارزارِ حیات دو دائروں میں بٹا ہوا ہے۔ خارجی معاملات کا ایک ذمہ دار ہے اور داخلی معاملات کا دوسرا ذمہ دار ہے۔ جو داخلی معاملات کا ذمہ دار ہے، اس کے لیے داخلیت کو ہی پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ شرم و حیا اس کا زیور اور حجاب اس کا بہترین لباس بتایا گیا ہے۔ حد یہ ہے کہ اس پر مسجد میں جاکر نماز پڑھنا بھی فرض قرار نہیں دیا گیا ہے بلکہ مسجد کے مقابلے میں گھر کی چار دیواری میں اس کی نماز افضل ہے اور گھر میں برآمدے کے مقابلے میں اندر کی کوٹھڑی میں فضیلت ہے۔ عبادت میں فضیلت کی یہ تدریج خود بتاتی ہے کہ مالک کی منشاء کیا ہے اور اسلام خدا کی بندیوں کو کس نوعیت کے سانچے میں ڈھالنا چاہتا ہے۔ اگر وہ مسجد میں جائیں تو ان کی صفیں مردوں کی صفوں سے علیحدہ ہوں گی۔ امام کے سہو پر ان کا طریقِ تنبیہ مردوں سے علیحدہ ہوگا۔ وہ مردوں سے پہلے نماز سے فارغ ہوکر رخصت ہوجائیں گی۔ وہ راستے کے درمیان نہیں بلکہ دیوار کے ساتھ لگ کر چلیں گی۔ وہ گھروں سے نکلیں گی تو چہروں کو اچھی طرح سے ڈھانپ کر گھونگھٹ ڈال کر اور بکل مار کر نکلیں گی۔ ان کا لباس نمایاں نہ ہوگا اور ان کا زیور چھنچھنائے گا نہیں۔ وہ تیز خوشبو لگا کر باہر نہ جائیں گی اور نہ مردوں کے درمیان میں سے گزریں گی۔ اور اگر غلطی سے یا ڈھٹائی سے وہ ایسا کرگزریں تو ان کی نماز قبول نہ ہوگی اور انھیں طہارتِ قلب کے لیے استغفار کی ضرورت ہوگی۔ وہ کبھی بلا محرم سفر نہ کریں گی۔ اس لیے کہ بلامحرم سفر کرنے والی خاتون اپنے آپ کو شیطان کے چنگل میں پھنسا دینے کے لیے کھلا چھوڑ دیتی ہے اور ہر وقت شیطانِ رجیم کی زد میں ہوتی ہے۔ پھر ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نمود و نمائش سے کلّی اجتناب کریں، اپنے آپ کو چھپائیں۔ اپنے زینت کے لباس، زیور، جسم، چہرے ہر چیز کو غیر محرم کی نظروں سے محفوظ رکھیں۔ غیر مردوں سے بات چیت سے اجتناب کریں اور اگر ضرورت پیش آہی جائے تو آواز میں کچھ سختی پیدا کرلیں تاکہ مخاطب کو کسی قسم کی لگاوٹ کا وہم بھی نہ ہونے پائے اور اس کے دل میں شیطان کو گدگدانے کا موقع نہ ملے۔ چلتے پھرتے اتنی احتیاط کریں کہ زینت نمایاں اور ظاہر نہ ہو۔ ایسے باریک کپڑے سے اجتناب کریں جس سے جسم جھلکتا ہو اور جس کے پہننے سے لباس پہننے اور سترپوشی کرنے کا مقصد پورا نہ ہوتا ہو۔
یہ وہ ساری ہدایات ہیں جو اسلامی سوسائٹی کے اندر عورت کے لیے موجود ہیں۔ یہ گویا ایک سانچہ ہے جس کے اندر اسلامی خاتون کا مجسمہ ڈھلتا ہے اور وہ محض ’’ایک عورت‘‘ سے ایک ’’مومنہ‘‘ بنتی ہے۔ اس کے لیے نبی کریم ﷺ نے ستر کے واضح حدود بتادیے ہیں۔ فرمایا: ’’کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو، یہ جائز نہیں کہ وہ اپنا ہاتھ اس سے زیادہ کھولے۔‘‘یہ کہہ کر حضورﷺ نے اپنی کلائی کے نصف حصہ پر ہاتھ رکھا۔ (ابوداؤد)
نیک بیوی کو حضورؐ نے دنیا کی بیش قیمت متاع قرار دیا۔ حضورﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہیں بتاؤں آدمی کا بہترین خزانہ کیا ہے؟ نیک بیوی۔‘‘
پھر اس کی نشانیاں بیان فرمائیں:
’’جب وہ اس کو دیکھے تو وہ خوش کردے۔ جب وہ کسی بات کا حکم دے تو اس کی اطاعت کرے۔ جب وہ باہر جائے تو اس کی غیر حاضری میںگھر، بچوں اور آبرو، ہر چیز کی حفاظت کرے۔‘‘
غرض ایک مومنہ خاتون کے کردار کا بہترین خاکہ اسلامی سوسائٹی میں متعین، معلوم اور واضح ہے۔ وہ بیوی کی حیثیت میں سلیقہ شعار خاتون ہوتی ہے جو اپنے گھر کو دولت سے نہیں بلکہ اپنے سلیقہ سے سجاتی اور ایمان سے مالا مال کرتی ہے۔ وہ مشکل میں صبر کرتی اور اپنے شوہر کی صابر رفیقۂ حیات ہوتی ہے اور فراخی میں شیخی اور تکبر سے بچ کر مالک کا شکر بجالانے والی ہوتی ہے۔ ایک مومن بیوی کی حیثیت سے جہاں اس کے فرائض بے شمار ہیں۔ اس کا مقام بھی نہایت معزز ہے۔ اس کے شوہر کے لیے اپنی بیوی کو لقمہ کھلانا تک عبادت قرار دے دیا گیا ہے، اور یہ اس کے صبر و شکر اور اسلامی کردار کا بدلہ ہے۔
وہ بیٹی کی حیثیت سے ایک اطاعت گزار بیٹی ہوتی ہے، جو اپنے والدین سے محبت کرتی اور اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ شفقت کرتی ہے۔ اپنی ماں کا کام کاج میں ہاتھ بٹاتی اور اپنے باپ کی آبرو کو بچا کر رکھتی ہے۔ اللہ کے نزدیک ایسی بیٹی کا اتنا بڑا درجہ ہے کہ اس جیسی دو لڑکیوں کو پال پوس کر بڑا کرنا اور شادی کرکے عزت و ناموس کے ساتھ ان کے شوہر کے گھر پہنچادینا اتنا بڑا ثواب کا کام ہے کہ حضورﷺ نے ایسے شخص کے لیے جنت کی بشارت دی ہے۔ ماں کی حیثیت سے اس کی شفقت اولاد کے لیے دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہوتی ہے۔ وہ راتوں کو جاگ جاگ کر اور بوجھ اٹھا اٹھا کر اولاد کو پالتی اور ان کی نگہداشت صبر و سکون کے ساتھ بلامعاوضہ کرتی ہے۔ خود گیلی جگہ سوتی اور بچوں کو خشک جگہ سلاتی ہے۔ اپنے جسم کا خون نچوڑ نچوڑ کر دودھ کی شکل میں ان کے جسم میں انڈیلتی ہے۔ ان کے لیے بھوک پیاس اور تکلیف برداشت کرتی ہے اور یہ سب کچھ بے مزدوری خدمت ہے جو وہ انجام دیتی ہے۔ ایسی مومنہ ماں کی خدمت کا حضورﷺ نے بار بار حکم فرمایا ہے اور اس کے پاؤں کے نیچے جنت قرار دی ہے۔ اس کا رشتہ محکم، پکّا اور پائیدار ہے۔ موت کے سوا اسے کوئی توڑ نہیںسکتا بلکہ اس کے ساتھ رشتہ دنیا ہی میں نہیں، آخرت تک نبھتا ہے۔
قرآن میں مسلمان عورت کی تصویر
اللہ تعالیٰ نے مومنہ خاتون کی بڑی مفصل صفاتی تصویر قرآن پاک کی سورئہ احزاب میں دی ہے۔ ایک خاتون قرآن کے بتائے ہوئے ان خدوخال کو اگر اپنے سروپا میں جذب کرلے تو ایک ایسی ہستی وجود میں آتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو مسلمان عورت کی حیثیت سے دنیا میں مطلوب ہے۔ قرآن میں ان کی مندرجہ ذیل صفات بیان کی گئی ہیں:
٭ مسلمات— وہ خدا کی فرمانبرداری کرنے والی اور اس کے غصے سے بچنے کی کوشش کرنے والی ہوتی ہیں۔
٭مومنات— وہ اللہ پر، اس کے رسولؐ پر اور آخرت پر ایمان لانے والی اور اپنے اعمال میں اس ایمان پر قائم رہنے والی ہوتی ہیں۔
٭ قانتات— وہ اپنی زندگی کے سارے معاملات میں خدا کی طرف جھکنے والی، اس سے اپنی حاجات طلب کرنے والی اور اس پر توکل باندھنے والی ہوتی ہیں۔
٭صادقات— وہ صاف گو، راست باز اور صادقہ ہوتی ہیں۔ کذب سے محفوظ اور جھوٹ سے دامن بچانے والی ہوتی ہیں۔
٭ صابرات— وہ مشکلات آنے پر راہِ حق پر ثابت قدم رہنے والی اور مالک کی مرضی پر مصائب برداشت کرنے والی ہوتی ہیں۔
٭خاشعات— وہ خدا کے حضور میں پست، اس کے احکام کے تابع اور اس کی مرضی کی پابند ہوتی ہیں۔
٭متصدقات— وہ اپنے مال میں سے مسکین کا حصہ نکالنے والی، عزیز و اقرباء کے حقوق ادا کرنے والی اور صدقہ و خیرات کا اہتمام کرنے والی ہوتی ہیں۔
٭صائمات— وہ روزہ رکھنے والی اور اللہ کے احکام کی پابندی کرنے والی ہوتی ہیں۔
٭حافظات— وہ اپنی عصمت و آبرو کی محافظ، شرم و حیا کی پتلی اور باعفت ہوتی ہیں۔
٭ذاکرات— وہ پیہم اللہ کو یاد کرنے والی، اسی سے لَو لگانے والی اور اسی پر تکیہ کرنے والی ہوتی ہیں۔
٭محصنات— وہ نیکوکار، پرہیزگار، پاکدامن اور معصوم ہوتی ہیں۔ ——