آج کے فتنہ پرور دور میں حالات نے کیا رخ اختیار کرلیا ہے ہم اور آپ دیکھ رہے ہیں۔ معاشرہ امیر و غریب دو دھڑوں میں منقسم ہے۔ غریب مزید غریب اور امیر مزید امیر ہوتا جارہا ہے۔
مسلمانوں میں غریبی کا اوسط کافی حد تک اونچا ہے ایسا لگتا ہے جیسے یہ ہماری پہچان ہی بن گئی ہے۔ آج بھی کتنے گھرایسے ہیں جہا ںبچوں کی تعلیم پر خرچ کرنے کے لیے پیسے نہیںہوتے۔ بسااوقات غریب گھرانے کے لڑکے روپے کے چکر میں غلط اور ناجائز کاموں میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ جس سے قوم و ملت کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ غربت کے باعث آج سماج میں صحت اور ناخواندگی نے جہاں ترقی کی ہے، وہیں لڑکیوں کی شادی بھی ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ جہیز کی لعنت کی وجہ سے کتنی ہی لڑکیاں ماں باپ کی دہلیز پر سر میں چاندی کے تار لیے بیٹھی رہ جاتی ہیں کیونکہ والدین کے پاس ماڈرن فقیروں کی فرمائش کی تکمیل کے لیے درکار رقم نہیںہوتی۔ ان حالات میں اگر ایک نظر امیر طبقہ پر ڈالیں تو محسوس ہوگا کہ سرمایہ داروں کو ایک کے دو اور دو کے چار کرنے سے اول تو فرصت نہیں اور اگر کبھی ہو بھی تو یاروں دوستوں کے ساتھ موج مستی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی بیگمات ان سے بھی چار ہاتھ آگے ہوتی ہیں۔ انھیں فیشن، شاپنگ اور ٹی وی سیریل سے فرصت نہیں ملتی۔ مغرب کے بنائے ہوئے جال میں مسلمان خواتین بری طرح پھنستی جارہی ہیں۔ نوجوانوں کا تو حال ہی مت پوچھئے جس جوانی کو قوم وملت کی ترقی کے لیے صرف ہونا چاہیے اس کو وہ رنگین بنانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔
یہ تو ہمارے مسلم معاشرے کا ہلکا سا خاکہ ہے۔ مسلم سماج کی خرابی میں مندرجہ ذیل چند چیزوں کااہم رول ہے۔ مثلاً: اپنے علمی سرچشمے قرآن و سنت سے دوری، بدعت و خرافات سے قربت، ناخواندگی، غربت، بے روزگاری، اپنے حقوق کے تئیں لاپروائی اتحاد کی کمی، مغربی تہذیب کی تقلید محض۔
آج ہم نے دنیا کے چمکیلے ذروں کو اہم سمجھ لیا ہے کیونکہ ہم اسلام کی روشن تعلیمات سے ناواقف ہیں۔ خود اپنی تہذیب کو بھلا کر مغربی تہذیب میں راہِ نجات و افتخار تلاش کررہے ہیں جو غلط ہے۔ اسلام نے دنیا کو علم کی روشنی سے منور کیا تھا۔ دنیا میں امن و سلامتی کا بول بالا کیا تھا۔ دوسروں کی نظر میں بھی اسلامی تہذیب و تمدن ماضی میں معیارِ انسانیت تصور کیا جاتا تھا۔ آج دنیا کے سامنے قولاً و عملاً اسلام کی تابندہ تعلیمات کو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی بے عملی سے توبہ کرنے اور صراطِ مستقیم پرگامزن ہونے کی سخت ضرورت ہے۔ اگرایسا نہ کیا تو دنیا و آخرت میں سوائے کفِ افسوس ملنے کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
——