دنیا اور زندگی کتنی عجیب شے ہے۔ کیا حیرت کدہ ہے، طلسم ہے، بت کدہ ہے، کیا کیا ہے؟ رنگینیاں ہیں، ہنسی و قہقہے ہیں، طلائی زیورات، محلات، کاریں، روپے اور اس کی خوشبو لیکن ان سے کون متمتع ہوسکتا ہے۔ وہ جو بے حس ہو، جس کا احساس مرچکا ہو یا قریب المرگ ہو۔ جس نے زندگی کا المناک روپ دیکھا نہ ہو اور دیکھا ہو تو very sadکہہ کر آگے بڑھ گیا ہو۔ ان میں سے بعض لوگ آگے بڑھ کر شاید چند روپے بھی المناک زندگی کے نام کردیتے ہیں لیکن کیا اتنا کافی ہے؟ کیا ان کی اتنی ہی ذمہ داری ہے؟ کیا حق ادا ہوگیا؟ کیا ان پر اب جائز ہوگیا کہ وہ زندگی کے حسن اور لطف سے بھرپور فائدہ اٹھائیں؟
حقوق و فرائض کی بات کتنی مشکل بات ہے اس کا احساس دیر سے ہوتا ہے۔ نویں جماعت میں یہ سبق کتنی آسانی سے پڑھتے اور یاد کرتے ہیں۔ کاش زندگی ’’نویں جماعت‘‘ ہی رہتی، جس میں صرف پڑھائی ہوتی، لیکن یہ پاگل سوچ ہے۔ ہر شخص کو زندگی کا امتحان دینا ہے۔ صرف سبق پڑھنا اور یاد کرنا نہیں عمل سے اس کا جواب دینا ہے۔ ’’حقوق و فرائض کا جواب۔‘‘
آدمی کتنے سارے تعلقات سے جڑا ہوتا ہے، ہر متعلق کا اپنا تقاضا ہوتا ہے۔ اپنا حق ہوتا ہے، جو آدمی پر ادا کرنا فرض ہوتا ہے۔ لیکن کتنا مشکل ہے یہ کام، آدمی کس طرح توازن رکھے، کس طرح ہر کسی کا حق ادا کرے؟ اللہ کا حق… بندوں کا حق…!
کسی تعلق دار کے آنسو پونچھنا، کسی کے زخمی دل پر مرہم رکھنا، کسی کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنا، کسی کی بکھری ہوئی ذات کی کرچیاں سمیٹنا، کسی کے کندھوں کا بوجھ بانٹنا، کسی کے بہتے لہو سے اور کسی عورت کی چیخ و پکار سے فرض ہوجانے والے فرض کو ادا کرنا مشکل ہے۔ کسی کے احساس میں شرکت کرنا۔ ہم جہاں ہیں یا جہاں ہمیں پہنچادیا گیا ہے یا جن چیزوں میں ہم گھر گئے ہیں، وہاں سے نکلنا کتنا مشکل ہے۔ ہم جس محل کی بلندی پر ہیں وہاں سے دیکھ کر صرف چچ چچ کیا جاسکتا ہے یا جیب میں ہاتھ ڈال کر چند سکے اچھالے جاسکتے ہیں۔ بے حس ہوکر زندگی گز ارنا بڑا آسان ہے ۔یا یوں کہہ لیں کہ احساس کا دائرہ تنگ کرکے صرف اپنی ذات کی تکلیف تک محدود کرکے لیکن اس تنگ احساس کو بھی احساس نہیں کہنا چاہیے اسے خود غرضی کہنا چاہیے۔ نفس پرستی کہنا چاہیے۔ احساس نہیں۔ لیکن احساس کی موت، بندے کی موت ہے، بندگی کی موت ہے، محبت کی موت ہے، اخلاق کی موت ہے۔ اللہ کی رضا پالینے کی، جنت کے حصول اور جہنم سے بچنے کی خواہش اور سعی کی موت ہے۔
بے حس ہوکر زندگی گزارنا بڑا آسان ہے، لیکن زندگی کے امتحان میں کامیاب ہونا ممکن نہیں۔
احساس کی شدت آدمی کو صحیح عمل پر ابھارے گی۔ حقوق وفرائض کی ادائیگی پر لیکن یہ کام واقعی مشکل ہے۔ اس میں آدمی کو محبت تو ملتی ہے، لیکن غم انگیز محبت، خوشی تو ملتی ہے لیکن وہ خوشی نہیں جس سے قہقہے گونجتے ہوں بلکہ وہ خوشی جس سے آنکھ سے آنسو بہیں۔ آدمی پر خوف بھی طاری ہوتا ہے اور امید کی کیفیت بھی۔ ایمان کی حلاوت، تعلقات کی نئی نوعیت، احساس کی انوکھی کیفیت، عجیب چیز، ناقابلِ بیان اللہ کی محبت، اس کی رضا، اس کی جنت، جنت میں اپنے لوگوں کا ساتھ، ہمیشہ کی زندگی۔
لیکن یہ سب کچھ کیسے؟ جہاں ہم ہیں وہاں سے نکلنا مشکل۔ لوگوں کی باتیں، معاشی بدحالی کے ڈراؤنے معاشرے کے مگرمچھوں کے تیز دانتو ںکا خوف، اس کے مقابلے میں صبر وقناعت کا ہتھیار لیکن وہ بھی ہمارے پاس نہیں۔ کیسے حاصل ہو؟ حاصل کرنا مشکل، نماز، قرآن اور جہاد یہ سب جواب ہیں لیکن کیا ہم انھیں بھی پڑھ لیں اور یاد کرلیں اس سے آگے کی بات ہم سے کیوں نہیں ہوتی؟ عمل کی بات۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
کیا یہ صرف مشاعروں، بیت بازیوں، تحسین کے ڈونگرے برسانے والوں اور سردھننے والوں کے لیے ہے؟
ہم سب اگر زندگی کے مسافر ہیں تو ہمیں اپنی منزل کا پتہ ہونا چاہیے اور اپنے قافلے کو بھی منزل کی طرف گامزن رکھنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے کیونکہ اگر قافلہ تتر بتر اور منتشر ہوگیا تو ہمارا بھی منزل تک پہنچنا مشکل ہوجائے گا لیکن ہم بھول گئے کہ ہم مسافر ہیں۔ ہم نے دیارِ غیر میں محل بنالیے۔ ہم یہیں مگن ہوگئے جو ہمیں صحیح منزل کی نشان دہی کراتا ہے ہم نے اسے Antiqueبنادیا ۔ ہم نے اسے بھلادیا۔ ہم نے اسے بھلادیا۔
——