حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انسان اپنے بچے کو ادب سکھائے تو یہ بلاشبہ اس سے بہتر ہے کہ ایک صاع غلہ وغیرہ صدقہ کرے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت عمرو بن سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کسی باپ نے اپنے بچے کو کوئی ایسی بخشش نہیں دی جو اچھے ادب سے بڑھ کر ہو (مشکوٰۃ المصابیح)
ان دونوں حدیثوں میں حضورﷺ نے اولاد کی تربیت کی طرف خصوصی توجہ دلائی ہے۔ بات یہ ہے کہ بچے بالکل سادہ لوح ہوتے ہیں، اگر ان کی تربیت نہ کی جائے اور علم و عمل سے آراستہ نہ کیا جائے تو صرف دیکھنے میں وہ انسان نظر آتے ہیں ان کے اخلاق و عادات و حشیانہ اور طور طریق بہیمانہ ہوجاتے ہیں۔
بہت سے لوگوں کی اولاد کی تربیت کی طرف بالکل توجہ نہیں والدین اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہیں اور اولاد گلی کوچوں میں بھٹکتی پھرتی ہے۔ بچوں کے لیے پیٹ کی روٹی اور تن کے کپڑوں کا تو انتظام کردیتے ہیں لیکن ان کی باطنی پرورش یعنی اخلاقی تربیت کی طرف بالکل توجہ نہیں دیتے۔ ان میں وہ لوگ بھی ہیں، جن کے اپنے ماں باپ نے ان کی صحیح تعلیم و تربیت کا انتظام نہیںکیا، انھیں پتہ ہی نہیں کہ تربیت کیا چیز ہے اور بچوں کو کیا سکھائیں اور کیا سمجھائیں اور اس عظیم غفلت میں ان لوگوں کا بھی بڑا حصہ ہے جو خود تو نمازی ہیں اور کچھ اخلاق و آداب سے بھی واقف ہیں، لیکن ملازمت یا تجارت میں کچھ اس طرح اپنے آپ کو پھنسا دیا ہے کہ بچوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے ان کے پاس گویا وقت ہی نہیں حالانکہ زیادہ کمانے کی ضرورت اولاد ہی کے لیے ہوتی ہے۔ جب زیادہ کمانے کی وجہ سے خود اولاد ہی کے اعمال و اخلاق کا خون ہوجائے تو ایسا کمانا کس کام کا؟
بعض لوگ ایسے بھی دیکھے گئے ہیں جو اچھا خاص علم بھی رکھتے ہیں، لیکن اولاد کی اصلاح سے بالکل غافل رہتے ہیں، حالانکہ اپنے گھر کی خبر لینا سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ اولاد کی جانب سے جب چند سال غفلت برت لیتے ہیں اور ان کی عمر دس بارہ سال ہوجاتی ہے تو اب ان کو صحیح راہ پر لگانا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اور بہت سے لوگ وہ بھی ہیں جنھیں توجہ تو ہے لیکن وہ اولاد کو حقیقی علم اور حقیقی ادب سے بالکل محروم رکھتے ہیں، یعنی اولاد کو اسلام نہیں سکھاتے۔ بیس بیس سال کی اولاد ہوجاتی ہے، جنھیں کلمہ تک یاد نہیں ہوتا، یہ لوگ نہ نماز جانتے ہیں نہ اس کے فرائض نہ واجبات، نہ اسلام کے عقائد پہچانیں، نہ دین کو جانیں اس قسم کے لڑکوں اور لڑکیوں کے والدین طور طریق سب سکھ سکھاتے ہیں، کوٹ پتلون پہننا بتاتے ہیں اپنے ہاتھ سے ان کے گلوں میں ٹائی باندھتے ہیں،ناچ رنگ کے طریقے سمجھاتے ہیں، عورتیں بیاہ شادی کی رسمیں بتاتی ہیں، شرکیہ باتوں کی تعلیم دیتی ہیںاور اس طرح سے ماں باپ دونوں مل کر بچوں کا خون کردیتے ہیں۔ اور طرہ یہ کہ ان کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا بچہ اور بچی موڈرن ہیں، انگریز بن رہے ہیں۔ ترقی یافتہ لوگوں میں شمار ہونے لگے ہیں۔
صحیح عقائد اور صحیح اعمال اور صحیح آداب وہ ہیں جو ہادی عالم حضرت محمد ﷺ نے سمجھائے اور اللہ کی کتاب قرآن حکیم نے بتلائے، جو ان سے خالی ہے، اس کے لیے آخرت میں عذاب ہی عذاب ہے، دنیا کی چند دن کی جھوٹی بہار آخرت کے ابدی عذاب کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتی، بہت سے مدعیان اسلام اس طرف بالکل توجہ نہیں کرتے۔
——