خلیفہ اولؓ کے آخری لمحات

محمد احمد انصاری

رحمتِ عالم ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کی شان میں فرمایا: ’’اگر میں اللہ کے بعد کسی کواپنا خلیل بناتا تو ابوبکرؓ کو بناتا۔‘‘
تعارف
حضرت ابوبکر صدیقؓ قریش کی ایک شاخ بنی تمیم سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ شروع ہی سے سلیم الفطرت اور راست باز انسان تھے۔ چنانچہ دورِ جاہلیت میں بھی آپ تمام لغویات سے محفوظ رہے اور اپنے دامن کو تمام آلائشوں سے پاک رکھا۔ دولت گھر کی لونڈی تھی۔ کپڑے کی تجارت کیا کرتے تھے۔ ہر شخص آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ آپ علم الانساب کے بہت بڑے ماہر تھے۔
جب سرکارِ دوعالم ﷺ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا تو آپ کی فطرتِ صالحہ نے اسے اس طرح قبول کرلیا جیسے پیاسی ریت بارش کے چھینٹے جذب کرلیتی ہے۔ آپ نہ صرف بلا توقف ایمان لے آئے بلکہ اسلام اور سرکار دو عالم کی محبت و عقیدت میں اپنے آپ کو سرتا پا غرق کردیا اور نیاز مندی و خود سپردگی کا وہ نمونہ پیش کیا جس کی نظیر رہتی دنیا تک پیش نہ کی جاسکے گی۔ آپ کے متعدد قابلِ فخر اور دور رس کارناموں میں سے ایک کارنامہ قرآنِ مجید کا یکجا جمع کرنا ہے۔ آپ سے ایک سو چالیس احادیث مروی ہیں۔
بیماری
مدینہ منورہ میں شدت سے سردی پڑ رہی تھیکہ آپ نے ٹھنڈے پانی سے غسل فرمالیا جس کی وجہ سے آپ کو بخار ہوگیا۔ بیماری میں آپ پندرہ روز مبتلا رہے۔ اس دوران میں امامت کے فرائض حضرت عمرؓ سر انجام دیتے رہے۔
وصیت
جب حالت زیادہ خراب ہوگئی اور بچنے کی امید نہ رہی تو آپ نے حضرت عثمانؓ بن عفان کو بلایا اور مندرجہ ذیل وصیت لکھوائی:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
’’یہ وہ وصیت ہے جو ابوبکرؓ بن ابوقحافہ نے اس جہانِ فانی سے رخصت ہوتے اور دارالبقا میں قدم رکھتے وقت لکھوائی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب منکر ایمان لے آتا ہے اور بڑے سے بڑا مکار شخص حق گوئی پر اتر آتا ہے۔ میں نے تم پر عمر بن خطاب کو خلیفہ بنایا ہے۔ تم ان کے احکام کی کامل اطاعت کرو۔ اگر عمرؓ انصاف سے کام کریں اور تقویٰ برتیں تو ان کی بابت میرا یہی گمان ہے اور یہی امید ہے۔ اور اگر خدانخواستہ وہ بدل جائیں تو میں نے حتی الوسع بھلائی چاہی ہے اور غیب کا حال تو اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا۔‘‘
جب وصیت نامہ لکھا جاچکا تو آپ نے حضرت عثمانؓ اور اپنے غلام کو حکم دیا کہ وہ مجمعِ عام میں اسے پڑھ کر سنائیں اور آپ خود اپنی اہلیہ اسماء بنت عمیس کا سہارا لے کر بالاخانے پر پہنچے جب وصیت نامہ پڑھ کر سنایا جاچکا تو آپ نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’میںنے اپنے کسی بھائی بند کو تم پر خلیفہ مقرر نہیں کیا ہے بلکہ عمر بن خطابؓ کو مقرر کیا ہے؟ کیا تم لوگ اس پر راضی ہو۔‘‘
سب نے یک زبان ہوکر بلند آواز سے سمعنا و اطعنا کہا۔ اس کے بعد آپ نے حضرت عمرؓ کو بلایا اور امورِ سلطنت کے متعلق بعض اہم ہدایات دیں جو حضرت عمر کے لیے عمدہ دستور العمل ثابت ہوئیں۔
ذکرِ الٰہی
حضرت ابوبکرؓ بستر پر نیم دراز ہیں، آنکھیں بند ہیں۔ سرجھکا ہوا ہے، بخار کی شدت ہے اور آپ ذکرِ الٰہی میں مشغول ہیں۔ ام المؤمنین حضرت عائشہؓ آپ کے پاس بیٹھی ہوئی ہیں کہ اچانک آپ پر غشی کا دورہ پڑا۔ حالت ابتر ہوگئی۔ حضرت عائشہؓ اپنے باپ کی یہ حالت دیکھ کر بے اختیار چلا اٹھیں اور دردناک لہجہ میں ایک شعر پڑھا جس کا مفہوم یہ تھا:’’جب نزع کی حالت طاری ہوتی ہے اور سانس نہ آنے کی وجہ سے سینہ گھٹنے لگتا ہے تو زر انسان کے کام نہیں آتا۔‘‘ اتنے میں آپ کو ہوش آگیا اور جب یہ شعر سنا تو آپ نے غصیلے انداز میں کہا :’’اے عائشہ! اس شعر کی بجائے یہ آیت پڑھو:
وجاء ت سکرۃ الموت بالحق ذلک ما کنت منہ تحید۔ (ق)
’’نزع کی حالت طاری ہوگئی۔ یہ وہ وقت ہے جس سے تو خوف کھایا کرتا تھا۔‘‘ چند منٹ خاموش رہنے کے بعد آپ نے حضرت عائشہؓ سے حسب ذیل سوالات کیے:
حضرت ابوبکرؓ: اے عائشہؓ! حضور اکرم ﷺ کو کتنے کپڑوں میں کفنایا گیا تھا؟
حضرت عائشہؓ: تین کپڑوں میں
حضرت ابوبکرؓ: آپ نے کون سے دن رحلت فرمائی تھی؟
حضرت عائشہؓ: پیر کے دن۔
حضرت ابوبکرؓ: آج کون سا دن ہے؟
حضرت عائشہؓ: پیر کا دن ہے۔
اس کے بعد آپ نے خدا سے دعا کی کہ اے اللہ! میری موت آج ہی کے دن واقع ہو۔‘‘ پھر آپ نے اپنے کپڑوں کی طرف دیکھا اور فرمایا: دو اور نئے کپڑے ملاکر اسی میں مجھے کفنا دینا۔ بولیں: یہ تو پرانا ہے اور ہم میں اتنی استطاعت ہے کہ ہم نئے کپڑوں میں آپ کی تکفین و تدفین کرسکیں۔
فرمایا: ’’اے بیٹی! زندہ انسان بمقابلہ مردہ کے نئے کپڑے کا زیادہ مستحق ہے۔ اور کفن تو اس لیے ہوتا ہے کہ پیپ وغیرہ اس میں جذب ہوجائے۔‘‘
عین وفات کے وقت آپ نے کافی بلند آواز سے دعا ء یوسفی پڑھی:
رب توفنی مسلما و الحقنی بالصالحین۔
’’اے پروردگار! ہمیں اسلام پر موت دے اور نیک بندوں کا ساتھ عطا کر۔‘‘
اور اس کے بعد روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔ حضرت عمرؓ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور خلیفۂ رسول اللہ کو رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں چھوڑ آئے۔
تاحیات دونوں ساتھ رہے اور یہ رفاقت وفات کے بعد بھی ختم نہ ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ کا پیارا خادم اپنے آقا کے پہلو میں آرام کی نیند سورہا ہے۔ یہ سعادت حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کے علاوہ کسی اور کو نصیب نہ ہوئی اور اس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔
سنِ وفات: ۱۳؍ہجری ۶۳۴ عیسوی۔
حضرت ابوبکرؓ کی وفات سے مدینہ کی فضا کرب و اضطراب کی طوفانی لہروں سے لبریز ہوگئی لوگوں کا غم گساری و بے قراری سے کم و بیش وہی کیفیت تھی، جس کا نظارہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد دیکھنے میں آیا تھا۔حضرت علی بن ابی طالبؓ ضبطِ گریہ سے بے تاب تھے۔ اور لغزیدہ قدموں سے حجرے کے دروازے کے پاس کھڑے ہوکر دردناک لہجے میں فرمایا:
’’اے ابوبکرؓ! واللہ تم پہلے آدمی تھے جس نے رسول اللہ کی آواز پر لبیک کہا۔ ایمان و اخلاص میں تمہارا ہم پلّہ کوئی نہ تھا۔ خلوص و محبت میں تم سب سے بڑھے ہوئے تھے۔ اخلاق و قربانی، ایثار اور بزرگی میں تمہارا ثانی کوئی نہ تھا۔ واللہ! تم اسلام کا مضبوط قلعہ تھے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمہارے اجر سے محروم نہ رکھے اور ہمیں تمہارے بعد بے یارومددگار نہ چھوڑدے بلکہ ہمارے سہارے کے لیے کوئی نہ کوئی سامان پیدا کردے۔‘‘
(تجلی ، دیوبند)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146