نکاح کی اہمیت اور اس کی غلط رسمیں

مولانا محمد عنایت اللہ سبحانی

اسلام نے نکاح پر جتنا زور دیا ہے اور جتنی اس کی ترغیب دی ہے کسی بھی مذہب نے اتنا زور نہیں دیا ہے، نہ اتنی ترغیب دی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے تو یہاں تک فرمادیا:

النکاح من سنتی فمن لم یعمل بسنتی فلیس منّی۔

’’نکاح میری سنت ہے، جو میری سنت پر عمل نہ کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘

اسلام نے نکاح پر اتنا زور کیوں دیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ نکاح کے بغیر کوئی اچھا انسانی معاشرہ وجود میں نہیں آسکتا۔ نکاح کے بغیر انسان پاکیزہ زندگی بسر نہیں کرسکتا۔ نکاح کے بغیر انسان کو روحانی سکون حاصل نہیں ہوسکتا۔ نکاح کے بغیر انسان کے اندر اعتدال اور توازن پیدا نہیں ہوسکتا۔ نکاح کے بغیر سماج میں ایک دوسرے کے لیے محبت اور غم خواری پیدا نہیں ہوسکتی۔ نکاح کے بغیر کوئی پاکیزہ، خوددار اور خیر پسند نسل وجود میں نہیں آسکتی۔

یہی وجہ ہے، اسلام نکاح پر بہت زور دیتا ہے اور اس معاملے میں انتہائی حد تک آسانیاں پیدا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں اور بہت ممکن ہے یہ حضور ﷺ کا ارشاد ہو:

اعظم النکاح برکۃ أیسرہ مئونۃ۔

’’سب سے زیادہ بابرکت نکاح وہ ہے، جو سب سے زیادہ آسان اور کم خرچ ہو۔‘‘

ایک دوسری روایت ہے، آپؐ نے ارشاد فرمایا:

اعظم النساء برکۃ ایسرہن مئونۃ۔

’’سب سے زیادہ برکت والی عورت وہ ہے، جس کے ہاں کوئی ٹیم ٹام نہ ہو۔‘‘

اس کی وجہ یہ ہے کہ نکاح کا راستہ جتنا تنگ اور دشوار ہوگا، اتنا ہی زیادہ سماج میں بے حیائی اور بدکاری کا چلن ہوگا۔ اور اگریہ راستہ آسان اور کشادہ ہوگا، تو سماج کو سدھارنا اور بے حیائی اور فحش کاری پر روک لگانا آسان ہوگا۔

یہی وجہ ہے حضور ﷺ کے زمانے میں نکاح نے کبھی مسئلے کی صورت نہیں اختیار کی۔ انتہائی سادگی، انتہائی آسانی اور انتہائی بے تکلفی کے ساتھ نکاح کی تمام کارروائیاں انجام پاجاتیں۔

قرآن نے اس معاملے کو اتنی اہمیت دی کہ اسے اجتماعی ذمہ داری قرار دے دیا، یعنی یہ مسلم سماج کی ذمہ داری ہے کہ اگر سماج میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو غریبی کی وجہ سے اپنا گھر نہیں بساسکتے، تو سماج ان کو سہارا دے اور ان کی شادی بیاہ کا بندوبست کرے، قطع نظر اس سے کہ وہ غلام ہیں یا آزاد، مرد ہیں یا عورت۔ فرمایا:

وانکحوا الایامی منکم والصالحین من عبادکم وامائکم ان یکونوا فقراء یغنہم اللّٰہ من فضلہ واللّٰہ واسع علیم۔

(النور:۳۲)

’’تم میں سے جو لوگ تجرد کی زندگی بسر کررہے ہیں، (خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں) ان کا نکاح کراؤ اور ان غلاموں اور باندیوں کا بھی جو نکاح کے قابل ہیں۔ اگر وہ نادار ہوں گے، تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی بنادے گا، اللہ بڑی وسعت والا اور ہر ایک کا علم رکھنے والا ہے۔‘‘

اسی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آج ہمارے مسلم سماج میں جو بہت سی رسمیں رواج پاگئی ہیں، جنھوں نے شادی بیاہ کو انتہائی کٹھن بنادیا ہے، یہ ساری رسمیں اسلام کے مزاج کے خلاف ہیں۔ مسلم سماج ان رسموں سے جتنی جلد نجات پاجائے بہتر ہے۔

جہیز کی رسم

آج ہمارے سماج میں جہیز کا مسئلہ کتنی سنگین صورت اختیار کرگیا ہے۔ آج کتنے باپوں کی کمر ٹوٹ جاتی ہے بیٹی کے لیے جہیز کا انتظام کرنے میں۔ آج کتنی بیٹیوں کی زندگی عذاب بن جاتی ہے، اگر ان کے جہیز میں کچھ بھی کمی رہ گئی، یا ان کے دولہا کی فرمائشیں پوری نہ کی جاسکیں!آج کتنی بیٹیاں خود سوزی پر اتر آتی ہیں، سسرال کے طعنے سنتے سنتے کہ وہ میکے سے کچھ لے کر نہیں آئیں۔ آج کتنی بیٹیاں اپنے گھروں میں پڑی پڑی بوڑھی ہوجاتی ہیں، اس وجہ سے کہ ان کے باپ ان کے جہیز فراہم کرنے سے عاجز رہ گئے!

پھر جو بھی بیٹیاں جہیز کے ساتھ سسرال روانہ کردی جاتی ہیں، وہ اپنے میکے میں ایک اجنبی مہمان بن کر رہ جاتی ہیں۔ اس لیے کہ گھر والوں کا یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ تو اپنا پورا حصہ لے چکیں۔ اب اس گھر میں ان کا کوئی حق باقی نہیں رہا، حتی کہ وہ باپ کی وراثت سے بھی محروم کردی جاتی ہیں، کہ وہ تو جہیز کی شکل میں اپنا حق پاچکیں۔

کتنا غلط ہے یہ اندازِ فکر۔ ایک ایسا اندازِ فکر جس میں نہ انسانیت ہے نہ معقولیت۔

پھر جہیز کے علاوہ شادی بیاہ کے موقع پر جو دوسری بہت سی جاہلانہ رسمیں ہوتی ہیں، وہ کتنی افسوس ناک اور کتنی مضحکہ خیز ہوتی ہیں۔ کتنی ہی رسمیں ہیں جن میں صرف دولت کی بربادی ہے۔ کتنی ہی رسمیں ہیں جو شرم و حیا کے منافی ہیں، کتنی ہی رسمیں ہیں جو اسلامی تہذیب اور اسلامی آداب کے خلاف ہیں۔

حسن کاذب کی نمائش

آج تقریب نکاح سے پہلے دلہنوں اور ان کی سہیلیوں کا بیوٹی سیلون میں جانا، بے دین اور بے کردار مردوں، یا اگر کچھ نسوانی حس باقی ہے، تو عورت نما مردوں کے ہاتھوں سولہ سولہ سنگار کرنا، شرم و حیا اور معصومیت کو بالائے طاق رکھ کر عریانی یا نیم عریانی کا شیطانی بھیس اختیار کرنا، پھر نکاح سے پہلے، نکاح کے دوران اور نکاح کے بعد پیشہ ور اور اخلاق باختہ فوٹو گرافروں کے سامنے اپنے حسنِ کاذب کی نمائش کرنا، اور سو سو انداز سے اپنی غیر مہذب ادائیں ان کے کیمروں میں محفوظ کرانا، پھر اس کے ویڈیو کیسٹ تیار کرانا، اور جگہ جگہ اس کی نمائش کرانا، یہ ساری چیزیں اور یہ ساری رسمیں مسلم سماج کے لیے کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ یہ ساری رسمیں اسلامی روح سے خالی اور اسلامی روایات کے لیے کھلا ہوا چیلنج ہیں۔

اسلام کی نگاہ میں نکاح بھی ایک عبادت ہے۔ یہ پیارے نبیؐ کی بھی سنت ہے اور تمام نبیوں کی بھی سنت ہے۔ اس عبادت اور اس سنت کا کیا جوڑ ہے دولت کی نمائش یا حسن کی نمائش سے؟ اس کا کیا جوڑ بے جا ٹیم ٹام اور جاہلی خرافات سے؟

پیارے نبیﷺ نے فرمایا: بندے کے قدم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ جلال سے ٹلیں گے نہیں، جب تک وہ کچھ سوالوں کے جواب نہ دے لے۔ ان سوالوں میں سے ایک سوال مال و دولت سے متعلق بھی ہوگا، کہ اس نے اسے کہا ںسے کمایا، کس طرح کمایا، پھر اسے خرچ کہاں کیا؟

لا تزول قدما عبد یوم القیامۃ حتی یسأل… و عن مالہ من این اکتسبہ وفیم انفقہ۔

’’گویا آدمی اپنے مال کے معاملے میں بالکل آزاد نہیں ہے کہ اسے جیسے چاہے اڑائے، اور جس طرح چاہے برباد کرے۔ وہ ایک ایک پائی کے لیے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ یہ مال اللہ کا دیا ہوا ہے، اس کو بس اسی طرح خرچ ہونا چاہیے، جس طرح اللہ پسند کرے۔‘‘

لہٰذا شادی بیاہ کے موقع پر جتنی بھی فضول خرچیاں اور بدعنوانیاں ہوتی ہیں، ان سب کو بند ہونا چاہیے۔ اور نہایت سادگی اور بے تکلفی کے ساتھ یہ کام انجام پانا چاہیے۔

بارات کی رسم

اسی سلسلے کی ایک بے بنیاد رسم بارات کی ہے۔ لڑکی والوں کے ہاں بارات لے کر جانا ان پر بہت بڑا ظلم ہے۔ دو سو تین سو آدمیوں کے لیے پرتکلف دعوت اور انواع و اقسام کے کھانوںکا انتظام کرنا اچھے اچھوں کے لیے آسان نہیں، پھر عام لوگوں کے لیے یہ کتنی بڑی آزمائش ہوتی ہوگی۔

پھر ایک دوسرے پہلو سے دیکھئے تو یہ انسانی مروت کے بھی خلاف ہے۔ یہ کہاں کی مروت ہے کہ انسان اپنے مہمانوں کی بھیڑ دوسروں کے دروازوں پر لے جاکر اتاردے، اور جو بوجھ خود اٹھانے کا تھا وہ دوسروں سے اٹھوائے۔

مروت کا تقاضا تو یہ ہے کہ انسان اپنے مہمانوں کو خود اپنے دروازے پر بلائے اور خود ان کی ضیافت کرے۔ لہٰذانوشہ والے جن مہمانوں کو نکاح میں شرکت کی دعوت دیں انھیں پہلے اپنے دروازے پر بلائیں۔ ان کے کھانے پینے کا خود انتظام کریں۔ انھیں اچھی طرح کھلا پلا کر لڑکی والوں کے دروازے پر لے جائیں کہ وہاں وہ بس مجلسِ نکاح میں شریک ہوں، پھر بے تکلف واپس ہوجائیں۔

چونکہ سماج کا عام مزاج بگڑ چکا ہے، اس وجہ سے عموماً لڑکی والے بارات لانے پر اعتراض نہیں کرتے۔ لیکن اگر لوگ کسی رسم کے عادی ہوجائیں تو یہ چیز اس رسم کی معقولیت کی دلیل نہیں۔ رسم و رواج کا دباؤ کچھ ایسا ہوتا ہے کہ آدمی نہ چاہتے ہوئے بھی بلکہ کراہتے اور بلبلاتے ہوئے بھی اسے نباہنے کی کوشش کرتا ہے۔ کہیں نباہنے کی بات ہوتی ہے اور کہیں ٹیم ٹام اور آن شان کی، بہر صورت یہ چیز اسلامی روح کے خلاف ہے۔ اور مسلم سماج کے لیے باعثِ شرم!

بیوی کا مہر

ایک اور چیز جو ہمارے سماج میں قابلِ توجہ ہے وہ مہر کا مسئلہ ہے۔ مہر کا مسئلہ زبردست افراط و تفریط کا شکار ہے۔ کہیں تو مہر اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اس کی فراہمی اور ادائیگی سب کے بس کی بات نہیں، چنانچہ مہر کا انتظام کرنے میں ہی بہتوں کی جوانی گزرجاتی ہے۔ ان کی شادی کی نوبت ہی نہیں آپاتی۔

اور کہیں مہر اتنا کم ہوتا ہے کہ اس سے ڈھنگ کی ایک جوڑی چپل بھی نہیں خریدی جاسکتی۔ یہ دونوں باتیں نامناسب ہیں۔ مہر میں گھر، خاندان اور حالات کی رعایت ضروری ہے۔ اگر دولہا حیثیت والا ہے تو اس کا مہر اس کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے اور اگر دولہا نادار ہے، تو اس کا مہر اس کے حالات کے لحاظ سے ہونا چاہیے۔ پھر جو مہر طے ہوجائے، اسے لازماً ادا ہونا چاہیے۔ اور ہوسکے تو پہلی فرصت میں ادا ہونا چاہیے۔ یہ مہر دولہن کا حق اور اس کی ملکیت ہوتی ہے، لہٰذا اسے اسی کے ہاتھ میں جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وآتوا النساء صدقاتہن نحلۃ فان طبن لکم عن شیٔ منہ نفسا فکلوہ ہنیا مریئاً۔ (النساء: ۴)

’’اور عورتوں کامہر ان کے حوالہ کردو، خوشی خوش، اب اگر وہ اس کا کچھ حصہ تمہارے لیے چھوڑدیں، تو اسے کھاؤ وہ تمہارے لیے خوشگوار اور بے ضرر ہے۔‘‘

اس سے معلوم ہوا، عورتوں کا مہر ضرور ادا کرنا چاہیے۔ اور خوشی خوشی اداکرنا چاہیے اس میں کوئی ٹال مٹول نہیں ہونی چاہیے۔

کچھ لوگ بیوی سے مہر معاف کرالیتے ہیں۔ یہ معافی کوئی اچھی چیز نہیں یہ مرد کی مردانگی اور اس کے وقار کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مہر فرض کیا ہے ادا کرنے کے لیے، نہ کہ معاف کرانے کے لیے۔ مہر کی معافی کا سوال اسی صورت میں پیدا ہوتا ہے، جب انسان اسے ادا کرنے سے بالکل عاجز ہو، لیکن یہ عاجزی بھی کل رقم سے ہوسکتی ہے، جز رقم سے نہیں۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مہر کا کچھ حصہ تو بیوی معاف کرسکتی ہے۔ مگر پورا مہر نہیں۔ مہر ہی اس رشتے کی بنیاد ہوتی ہے۔ اس بنیاد کو بالکل منہدم کردینا صحیح نہیں۔

یہ عجیب بات ہے کہ انسان بہت سی فضولیات میں پیسے خرچ کرتا ہے، اور اس میں اسے کوئی پریشانی نہیں ہوتی، مگر مہر جو شریعت کا حکم ہے۔ نکاح کی اصل بنیاد ہے، بیوی کا جائز حق ہے، اسے ادا کرنے میں اسے بہت بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ اس کے معاملے میں خود مجلسِ نکاح میں کتنی تکرار اور بدمزگی ہوتی ہے، اور بسا اوقات بنی ہوئی بات بگڑ جاتی ہے۔

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146