ٹی وی آن کیا تو امی بڑبڑائیں ’’چھپکلیاں دکھائی دیتی ہیں بغیر آستین کے قمیض پہنے ہوئے… گھن آتی ہے مجھے ان کو دیکھ کر…‘‘
’’نہیں امی! یہ بے چاریاں غریب ہیں، آستین کا کپڑا نہیں خریدسکتیں، ان کو معاوضہ ہی بہت کم ملتا ہے۔‘‘ننھے میاں نے زبان کھولی۔ دل میں سوچنے لگی کہ بازاروں میں، اسپتالوں میں، ریلوے اسٹیشن پر، دفاتر میں جہاں دیکھو، لگتا ہے خواتین گھروں سے باہر نکل آئی ہیں اور وہ بھی نامکمل لباس میں۔ پہلے دوپٹہ غائب ہوا، اب آستین غائب یا بہت چھوٹی سی۔ اللہ کیا فیشن ہے! مہنگے سے مہنگا ڈریس ہے تو وہ بھی نامکمل سا۔ دلہن کا عروسی جوڑا ، بغیر آستین کے چھوٹا سا بلاؤز، بڑا سا گلا، آدھا پیٹ ننگا مگر لہنگا فرش کو پونچھا لگاتا ہوا۔ ’’ایک لاکھ سے اوپر کا لیا ہے۔ کیسا لگ رہا ہے؟‘‘ دلہن کی ماں فخر سے ڈریس کی قیمت بتاتے ہوئے پوچھ رہی ہیں۔ ہم سوچنے لگے: اے اللہ! اتنا پیسہ خرچ کرکے بھی دلہن کا تن نہ ڈھانپا گیا، یہ بے چاری بے لباس ہی رہی۔ دراصل اللہ نے انتخاب کی آزادی دے کر دونوں راستے دکھا دیے۔ چاہو تو سیدھے راستے کا انتخاب کرو، چاہو تو بدی کی راہ اپناؤ۔ آنا تو میرے پاس ہی ہے، پھر جیسی کمائی کی ہوگی ویسا بدلہ پاؤگے۔
یہ باریش شخص ٹخنوں سے اوپر پاجامہ، کرتا، ٹوپی، ہاتھ میں تسبیح، اپنی چار بیٹیوں کے ساتھ سڑک پر جارہا ہے۔ لڑکیوں کی عمریں چودہ سے اٹھارہ سال کی ہوں گی، ٹانگوں پر کَسی جینز اور مختصر سی شرٹ، دوپٹہ ندارد۔ لوگوں کی چیرتی ہوئی نگاہیںجنھیں نہ وہ صاحب محسوس کررہے ہیں، نہ یہ ہنستی کھلکھلاتی لڑکیاں۔ کتنے ہی مناظر میری نگاہوں میں گھوم گئے۔ خدایا ہم کہاں جارہے ہیں۔
قرآن میں ارشادِ ربانی ہے: ’’اے اولادِ آدم! اللہ نے تم پر لباس اس لیے اتارا ہے کہ تمہارے جسموں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے موجبِ زینت ہو۔‘‘ (الاعراف: ۲۶)
اس آیت کی رو سے جسم ڈھانکنے کو ہر مرد اور عورت کے لیے فرض قرار دیا گیا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں اشراف کی عورتیں کھلی پھرتی تھں اور بدکار لوگ ان کے پیچھے لگا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے شریف عورتوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے اوپر چادر ڈالیں۔
’’اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں، اس تدبیر سے یہ بات زیادہ متوقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی اور انھیں ستایا نہ جائے گا۔‘‘ (الاحزاب:۵۹)
جب قرآن فحاشی اور بے حیائی سے روکتا ہے تو ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ مومنین اس سے بچیں۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ’’ہر دین کا ایک اخلاق ہے اور اسلام کا اخلاق حیا ہے۔‘‘ ایک اور حدیث ہے: ’’جب تجھ میں حیا نہیں تو جو تیرا جی چاہے کر۔‘‘ کیوں کہ جب حیا نہیں رہے گی تو کوئی منکر تیرے لیے منکر نہ رہے گا۔ جیسا کہ ہم اپنے معاشرے میں دیکھ رہے ہیں۔ لباس، پردہ، معاملات، گفتگو، موبائل فون، اور انٹرنیٹ کا استعمال غرض ہماری زندگی میں چہار سو بے حیائی پھیلی ہوئی ہے۔
اسلامی اخلاق میں حیا کا دائرہ بہت وسیع ہے، زندگی کا کوئی شعبہ اس سے بچا ہوا نہیں ہے۔ تمدن، معاشرت،غرض زندگی کا ہر شعبہ۔ اصلاحِ اخلاق کے لیے اسلام نے حیا سکھائی ہے۔ اسلام انسان کو برائی کی سرحدوں پر روک دیتا ہے، وہ خبردار کرتا ہے کہ اجنبی کے حسن سے آنکھ کا لطف لینا، اس کی آواز سے کانوں کا لذت یاب ہونا اور گفتگو میں زبان کا لوچ کھانا، اُن کی راہوں میں قدموں کا بار بار اٹھنا یہ سب زنا کے مقدمات ہیں، ان سے بچنا ہے۔ دنیا کا قانون اس کو نہیں پکڑتا مگر دل کا مومن ہونا، حیادار ہونا ان اقدامات سے باز رکھ سکتا ہے۔ ہر وہ آرائش جس کا مقصد شوہر کے سوا دوسروں کے لیے لذتِ نظر بننا ہو تبرّج جاہلیہ ہے۔ اگر اس غرض کے لیے خوب صورت اور خوش رنگ برقع کا بھی انتخاب کیا جائے کہ نگاہیں اس سے لذت یاب ہوں تو یہ بھی تبرج جاہلیہ ہے۔ اللہ فرماتا ہے:’’زمانۂ جاہلیت کی طرح بناؤ سنگھار نہ دکھاتی پھرو۔‘‘ (الاحزاب: ۳۳)
نت نئے فیشن اور اس سے متعلق مصنوعات بنانے والی کمپنیاں اور ساتھ ساتھ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا جس طرح بے حیائی اور عریانی و فحاشی کا طوفان لانے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں، ان کو قرآن کا پیغام یاد دلانا ہے:
’’جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے گروہ میں بے حیائی کی اشاعت ہو، ان کے لیے دنیا میں دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔‘‘ (النور:۱۹)
——