اپنے معاملات میں ہر شخص اپنی اپنی قوت غوروفکرخرچ کرکے جس نتیجے پر پہنچتا ہے، اس کو صحیح تصور کرتا ہے۔ اور اس کے اندازِ فکر نے اسے جو بات سجھائی ہے، اسی کو راہِ عمل بناتا ہے۔ چوں کہ انسان فکر ونظر میں غلطی کرجاتا ہے اور بعض مرتبہ فکری کوتاہی اور سمجھ کی کمی کے باعث اپنے حق میں نقصان دہ فیصلہ کرلیتا ہے اس لیے شریعتِ اسلامیہ نے مشورہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ باہمی صلاح و مشورہ سے جو کام کیا جاتا ہے، عموماً اس سے نقصان نہیں پہنچتا کیونکہ کسی معاملے میں جب مختلف انسانوں سے مشورہ کیا جاتا ہے تو اس کے تمام پہلو ظاہر ہوجاتے ہیں اور ہر طرح کے نشیب و فراز اور نقص وضرر کے متعدد امکانات سامنے آجاتے ہیں۔ صلاح و مشورہ سے کام کرنا عقل مندوں کا شیوہ ہے، جو لوگ مشورہ کی افادیت سے ناواقف ہیں، وہ اپنی کم فہمی کی وجہ سے مشورہ لینے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں اور خود آرائی کو آزادیِ فکر سے تعبیر کرکے جو سمجھ میں آتا ہے، وہی کربیٹھتے ہیں، پھر اس کا نقصان بھگتتے ہیں۔ مشورہ تو وہ چیز ہے جس کا حکم اللہ جل شانہ نے اپنے پیغمبرﷺ کو بھی دیا، جن کے کمال عقل اور اصابتِ رائے میں کسی کو کلام نہیں ہے۔ سورہ آل عمران میں فرمایا: ’’اور ان سے کاموں میں مشورہ کرو، پھر جب پختہ عزم کرلو، تو اللہ پر بھروسہ کرو۔‘‘
صلاح و مشورہ سے کام کرنا کامیابی کی کنجی ہے، ایک حدیث ہے: ’’جس نے اللہ سے خیر طلب کی وہ کبھی ناکام نہ ہوگا اور جس نے مشورہ لیا وہ کبھی پریشان نہ ہوگا۔‘‘
گناہ چوں کہ واجب الترک ہیں، اس لیے گناہوں کے لیے مشورہ کرنا ممنوع ہے اور گناہوں کے بارے میں مشورہ دینا بھی گناہ ہے، باہمی مشورہ نیک کاموں میں ہونا چاہیے۔ سورئہ مجادلہ میں فرمایا: ’’اے ایمان والو! جب تم (کسی ضرورت سے) باہمی خفیہ سرگوشی کرو تو گناہ اور رسول کی نافرمانی کی سرگوشیاں مت کرو اور نفع رسانی اور پرہیزگاری کی باتوں کی سرگوشیاں کرو او راللہ سے ڈرو جس کے پاس تم سب جمع کیے جاؤگے۔‘‘
جب کوئی شخص کسی اجتماعی یا انفرادی عمل کے بارے میں مشورہ لے اور وہ عمل خیر اور خلقِ خدا کے لیے مفید ہو اسے صحیح مشورہ دینے والا بھی کارِ خیر میں شریک ہوجائے گا اور حکمِ قرآن تعاونوا علی البر والتقویٰ کی پیروی کرنے کی وجہ سے مشورہ دینے والا مستحق اجر و ثواب ہوگا، ہاں اگر کوئی صاحب رائے نہ ہو یا فکری صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اسے عذر کردینا چاہیے کہ یہ مشورہ کسی دوسرے شخص سے لے لیا جائے، دیانت کا تقاضا یہی ہے۔
مشورہ ایک امانت ہے، جب کوئی شخص مشورہ طلب کرے تو اس کے حق میں جو بہتر ہو وہی مشورہ دینا چاہیے، اگر کسی نے اس کے خلاف مشورہ دیا تو وہ خائن ہوگا اسی کو سرورِ عالمﷺ نے بطور قاعدہ کے ارشاد فرمایا: ان المستشار موتمن۔ (مشکوٰۃ المصابیح:۴۳۰)
اس سلسلے میں بعض مرتبہ بڑی آزمائش سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص اپنی جائیداد فروخت کرنا چاہتا ہے، ہمارے گھر کے قریب ہی اس کی جائیداد ہے ہم خرید لیں گے تو ہمارے حق میں بہت اچھا ہوگا، مگر ہم سمجھتے ہیں کہ وہ فروخت نہ کرے تو اس کے حق میں یہی بہتر ہے، اب وہ ہم سے مشورہ لینے آگیا اور ہم سے ہمدردانہ مشورہ طلب کرنے لگا کہ میں اس جائیداد کو فروخت کروں یا نہ کروں؟ چونکہ ہم کو رائے دینے میں امانتدار قرار دیا ہے اور جو شخص مشورہ طلب کرے اس کے حق میں جو بات مفید اور نافع ہو، اسی بات کے بتانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ اس لیے ہم اپنے فائدہ کو مدنظر نہ رکھیں گے، بلکہ اس کے فائدہ کو سامنے رکھتے ہوئے یہی مشورہ دیں گے کہ اپنی جائیداد فروخت نہ کرو، مشورہ کے لیے صائب رائے اور غوروفکر کی صلاحیت رکھنے والے کو تلاش کرنا چاہیے۔
یہ ضروری نہیں کہ جس سے مشورہ طلب کیا جائے، وہ بڑا بوڑھا ہی ہو، بلکہ ایسے آدمی سے مشورہ طلب کرے جو مفید مشورہ دینے کی اہلیت رکھتا ہو، خواہ عمر میں چھوٹا ہی ہو، یا شاگرد ہی ہو یا اپنی اولاد ہی ہو، ہاں دشمن کا مشورہ قبول نہ کرے، وہ کیسا ہی ہوشمند اور ذی رائے سمجھا جاتا ہو۔ سمجھداری کے ساتھ تجربے کی بھی بہت اہمیت ہے، بہت سی باتوں کا نفع و نقصان تجربے کی بنیاد پر سمجھ میں آتا ہے، اس لیے تجربہ کار شخص کی رائے کو ترجیح دینی چاہیے۔
جس کے بارے میں مشورہ لینا ہے، اس بارے میں جو شخص صاحب تجربہ ہو اس سے مشورہ لیا جائے، مشورہ اور تدابیر اورتجربہ تینوں چیزیں کامیابی کی سیڑھیاں ہیں، قرآنِ حکیم میں اہلِ ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’یہ حضرات ایسے ہیں جو اپنے کاموں کو باہمی مشورہ سے انجام دیتے ہیں۔‘‘
حضور ﷺ نے فرمایا: لا عقل کالتدبیر یعنی ’’تدبیر کے برابر کوئی سمجھداری نہیں‘‘ اور یہ بھی فرمایا کہ لا حکیم الا ذو تجربۃ یعنی ’’حکمت و دانش والا وہی ہے جو صاحبِ تجربہ ہو۔‘‘ ——