چند دن پہلے ایک دوا کی تیاری کے لیے نمک خوردنی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ سوچا کہ اعلیٰ برانڈ کے آیوڈائزڈ نمک کے بجائے خالص نمک لیا جائے جو نیچرل فارم میں ہے۔ ایک عمدہ اسٹور پر گیا اور دکاندار سے عرض کیا کہ خالص نمک پانچ کلو دیں۔ نمک کو استعمال کرنے سے پہلے خیال ہوا کہ نمک کو اچھی طرح جزوِ دوابنانے کے لیے کیوں نہ ایسا کیا جائے کہ نمک کو پانی میں حل کرکے دوا میں شامل کیا جائے تاکہ نمک اچھی طرح مکس ہوجائے اور دوا کی گولی بھی بن جائے۔
نمک کو ایک برتن میں ڈال کر پانی میں حل کیا۔ کافی دیر تک ہلاتا رہا، معلوم ہوا کہ نمک تو پانی میں حل ہوگیا ہے لیکن پانچ کلو نمک میں تہہ نشین ہونے والا تقریباً تین کلو سفید رنگ کا پتھر حل نہیں ہوسکا۔ حیرت ہوئی کہ وہ ملک جو نمک میں اس حد تک خود کفیل ہے کہ پوری دنیا کو صدیوں سے نمک مہیا کرتا رہا ہے اور نمک کی یہ نعمتِ عظمیٰ ختم نہیں ہوئی، ایسے ملک کے عوام کو نمک جیسی سستی چیز بھی مہنگی ملے اور اس میں ملاوٹ بھی ہو۔
ہم کیسی بدنصیب قوم ہیں۔ نمک میں یہ پتھر گردہ اور مثانہ کی پتھری کا سبب بن رہا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو ملاوٹ کرتا ہے وہ ہم میں سے نہیں، لیکن کھانے پینے کی کون سی شے خالص ہے؟ دودھ میں ملاوٹ، آٹا، چینی، دالیں، مصالحہ جات، چائے کی پتی، ہلدی، مرچ، نمک سب ہی میں ملاوٹ۔ مشروبات میں جتنے جو سز مارکیٹ میں آرہے ہیں کیا واقعی وہ پھلوں کے بنے ہیں؟ آم، سنگترہ، لیچی، سیب اور دیگر پھلوں کے رس جو فروخت ہورہے ہیں، ان میں ڈبہ کی قیمت، دوکاندار کا منافع، کاسمیٹکس ٹیکس سب کچھ شامل ہیں۔ کیا واقعی وہ جوس ہیں یا کیمیکلز؟
کولڈ ڈرنکس کے نام سے جتنے برانڈ مارکیٹ میں ہیں کسی ایک کو فرش پر ڈالیے، ان کے اندر انسانی صحت کے لیے مضر اور تیزابی مادہ پر مشتمل اجزا فرش کی کیا حالت کرتے ہیں۔ انسانی معدہ کوئی اسٹیل کا برتن تو نہیں۔ پھر یہ مشروبات کب خالص ہیں، دو نمبر اور تین نمبر کے مشروبات ہیں۔
شادیوں کے موقع پر یہ مضرِ صحت مشروبات ایک لازمی حصہ تصور کیے جاچکے ہیں۔ گرم کھانوں کے ساتھ یخ بستہ بوتلیں جو سکرین اور دیگر کیمیکلز کو چھپانے کے لیے یخ کی جاتی ہیں، انسانی معدہ کس حد تک ان کا مقابلہ کرسکتا ہے؟
یہ سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ ہم نئی نسل کو کیا کھلا رہے ہیں؟ کیا پلا رہے ہیں؟ ٹافی، ٹکی، چاکلیٹ، بیکری کا ناقص سامان، میدہ کی ناقص اور سستی بیکری۔ آج معدہ السر، گردہ کے امراض، شوگر اور قلب کے امراض اور جنسی امراض کس حد تک بڑھ چکے ہیں۔ اس کا اندازہ اسپتالوں کا ایک دورہ کرنے سے بآسانی لگایاجاسکتا ہے۔
آج کولیسٹرول فری کوکنگ آئل جو ہم قوم کو کھلا رہے ہیں، کون بتاسکتا ہے کہ یہ کیا ہے اور اس کے اثرات جگر، گردے، مثانہ اور دل پر کیا ہورہے ہیں! آج سے آٹھ دس سال بعد کوئی محقق یہ بتائے گا کہ ہماری ان سائنٹفک غذاؤں سے کون کون سے امراض جنم لے چکے ہیں۔ کینسر کا موذی مرض، امراضِ قلب کے جان لیوا حادثات کیوں بڑھ گئے ہیں؟ آج یورپ دوبارہ دیسی گھی کی طرف آرہا ہے۔
جس ملک میں نمک خالص نہیں، اشیائے خوردونوش خالص نہیں، کیا کوئی محکمہ، کوئی ا دارہ، کوئی صحت کا شعبہ یہ خدمت انجام نہیں دے سکتا کہ اس ظلم کا تدارک ہو۔ غذا خالص نہ ہوگی تو صحت کیسے برقرار رہے گی؟ جس ملک میں اغذیہ خالص نہیں، مریض کے لیے ادویہ خالص نہیں وہاں ایمان اور سیاست خالص نہ ہوں تو کس کو دوش دیں؟ حکومت، سیاست دانوں، علما میں سے کوئی تو اٹھے جو صرف ایک نکاتی پروگرام کے تحت اس ملک سے رشوت، شراب، ناقص غذا اور ادویہ کے خاتمے کا بیڑا اٹھائے۔
——